شکیب جلالی کی روح سے معذرت کے
ساتھ
عابد انصاری اگر زندہ ہیں‘ تو بڑے کمال اور اعلی درجے کے شاعر ہیں۔ ان کے
ہاں‘ زندگی چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ اگر مر گیے ہیں‘ تو الله ان کو بخشے یا
نہ بخشے‘ الله کی مرضی۔ چوتھے درجہ کے شاعر تھے۔ ان کے کلام میں‘ ایسی کوئی
خاص بات نہیں تھی۔ باطور عظیم شاعر‘ وہ میری ضرورت سے کم تر‘ عزت کرتے تھے۔
میں ہی‘ آج کا سب سے بڑا شاعر ہوں‘ کوئی مانے یا نامانے‘ اس کی مرضی‘ اس سے
کیا فرق پڑتا ہے۔ میں تو خود کو مانتا ہوں۔ میں ہی میں حقیقت ہے‘ اور آج کا
تکیہء کلام بھی۔
فروری ١٩٩٩ ٢٤
کو عابد انصاری صاحب نے‘ مجھے شکیب جلالی کا مجموعہءکلام۔۔۔۔۔ روشنی اے
روشنی۔۔۔۔۔ دیا۔ مجھے اس پر‘ بہت پہلے لکھنا چاہیے تھا‘ لیکن میں اس پر کچھ
بھی نہ لکھ سکا۔ بلاشبہ مجھ سے یہ ادبی زیادتی ہوئی۔ شکیب جلالی جوانی ہی
میں‘ اپنے ہاتھوں‘ ملک عدم کا مسافر ہوا۔ اس کے حالات کیا رہے ہوں گے‘ میں
نہیں جانتا۔ دیر شاید مرحوم کی زندگی کا حصہ رہی۔ بیس سال سے زیادہ عرصہ‘
کلام کا مسودہ احمد ندیم قاسمی کے پاس پڑا رہا۔ ١٩٩٣ میں‘ اشاعت اس کا مقدر
بنی۔ پندرہ سال کے بعد‘ مجھ کم کوس کو‘ اس پر کچھ لکھنے کی توفیق ہوئی ہے۔
یہ مجموعہ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔ یہ ١٥٩ صفحات پر مشتمل ہے۔ ابتدا
میں‘ احمد ندیم قاسمی کا‘ عرض ناشر کے نام سے‘ نوٹ ہے۔ کلام پر سرے سے‘
کوئی بات نہیں کی گئی۔ اشاعت کی دیری پر چند چلتے چلتے سطور کھینچی گئی ہیں۔
کیوں نہیں لکھا گیا‘ میں اس ذیل میں کچھ عرض کرنے سے قاصر ہوں۔ بڑا آدمی ہی‘
ہمیشہ بڑا شاعر ٹھہرا ہے۔ شکیب بڑا آدمی نہیں تھا۔ اس لیے اسے‘ بڑا شاعر
کہنا‘ ادبی روایت کے منافی ہے ہوگا۔
ایمان داری‘ ہمیشہ اپنا آدمی ہے‘ کے لیے رہی ہے۔ ادبی ایمان داری کا تقاضا
یہ ہی ہے‘ کہ میں اسے اچھا اور بڑا شاعر نہ کہوں۔ ماننا‘ ذات کے اندر کا
معاملہ ہے۔ میں یہ سب‘ اسے بڑا یا اچھا شاعر ثابت کرنے کے لیے نہیں لکھ رہا۔
فارسی حکایت کے مطابق تم مجھے حاجی کہو‘ میں تمہیں حاجی کہوں گا۔ ہمارے ہاں
آ کر‘ اس روایت نے اپنی تفہیم تبدیل کی ہے‘ یعنی شاعر دو ہی بڑے ہیں‘ ایک
تم اور ایک میں۔ اگر دیکھا جائے‘ تو تم بھی کیا ہو‘ بس میں ہی ہوں۔ میں چوں
کہ مزاج میں‘ لوگوں سے تھوڑا ہٹ کر ہوں ۔ تبدیلی تفہیم کا قائل ہوں۔ میرے
نزدیک تم کیا ہو‘ کچھ بھی نہیں‘ محض تک بند۔ اردو میں‘ شاعر فقط دو ہوئے
ہیں‘ ایک مرزا غالب‘ دوسرا میں۔ اگر ادبی دیانت داری سے دیکھا جائے‘ تو یہ
ہی نترے گا‘ وہ بھی کوئی شاعر تھا‘ شاعر تو‘ فقط میں ہی ہوں۔ میں یہاں‘ ایک
عرصہ پہلے لحد میں اترنے والے‘ جو میری سلام دعا میں بھی نہ تھا‘ کی قصیدہ
گوئی یا قصیدہ خوانی کرنے نہیں جا رہا۔ بس‘ رسما وعدہ کا قرض اتارنے جا رہا
ہوں۔ نادانستہ‘ اس کی شان میں اگر کوئی جملہ میرے قلم سے نکل جائے‘ تو اسے
آف دی ریکارڈ سمجھا جائے۔
بھلا یہ کوئی شعر ہے:
مشعل درد جو روشن دیکھی
خانہءدل کو منور جانا
مشعل درد کا سبب‘ دل کی آسودگی کو قرار دے رہا ہے۔ درد تو چوٹ لگنے سے ہوتا
ہے۔ چوٹ زیادہ تر گرنے‘ یا کسی سے پھینٹی کھانے سے لگتی ہے۔ گالی گلوچ تو
عام سی بات ہے۔ اس سے تھوڑا بہت‘ یا گالی کی نوعیت کے مطابق جی برا ہوتا ہے‘
چوٹ نہیں لگتی۔ دل کا اس سے کیا تعلق۔ کیسا شاعر ہے‘ روشن اور منور کو ایک
ساتھ باندھ رہا ہے۔ مشعل میں عل اور دل‘ ہم صوت ہیں‘ ایک ساتھ لانے کی کیا
ضرورت تھی۔ دل کی جگہ قلب کا استعمال کر سکتا تھا۔ دل جسم کا حصہ ہے‘ شکیب
نے‘ اس شعر میں دل اور جسم کو‘ ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے۔ ہائے ہائے اتنی
بڑی زیادتی۔ ایک ہی کرے کے دو الگ الگ موسم‘ اوپر سے یہ قیامت‘ کہ اس کے
مطابق دل کا موسم‘ جسم و جان اور جسمی حسوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ بھی کوئی
کرنے اور کہنے کی بات ہے‘ کہ دل کے موسم‘ موڈ کو خراب کرنے‘ یا موڈ کو سٹ
کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
اب ذرا اس شعر کو دیکھیے
جو بھی ہم درد بن کے آتے ہیں
غم کا احساس ہی جتاتے ہیں
دکھ درد میں شرکت کرنے والے‘ غم کا بوجھ ہلکا کرنے آتے ہیں۔ شکیب اسے بھی
منفی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ آپ ہی بتائیے‘ چند لفظوں میں مہمل ہی کہا جا
سکتا ہے۔ کھل کھلا کر بات ہونی چاہیے۔ آنے والا‘ ماجرا سنے گا‘ اور اس پر
رائے زنی بھی کرے گا۔ بار بار تذکرے سے‘ بھلا غم کس طرح ہرا اور تازہ ہو
گا۔ آنے والا یہ بھی تو کہتا ہے‘ جو ہوا بھول جاؤ اور حوصلے سے کام لو۔ ہر
آنے والا سب سن اور اپنی سنا کر یہ کہتا ہے۔ اس میں‘ غم کا احساس جتانے
والی‘ کون سی بات ہے۔ درد کا تعلق محسوس سے ہے۔ احساس بھی‘ محسوس سے ہے۔
شکیب نے خود ہی‘ محسوس کو دونوں مصرعوں میں اندراج کیا ہے۔ اب ہر‘ یعنی جو
بھی‘ کے جتانے کا گلہ کر رہا ہے۔
یہ شعر بھی‘ بھلا کوئی شعر ہے:
کیا نظر آئے گا ابھی ہم کو
یک بیک روشنی میں آئے ہیں
اس شعر میں‘ ایسی کون سی نئی بات ہے۔ اندھیرے سے‘ روشنی میں آنے کے بعد‘
فورا کچھ نظر نہیں آتا۔ بھوک سے سیری کی طرف‘ آ جانے کے بعد معاملہ فوری تو
سمجھ میں نہیں آ جاتا۔ نوکری نہ مل رہی ہو‘ اچانک مل جائے‘ تو خوشی اور
حیرت تو ہوتی ہی ہے۔ یک بیک۔۔۔۔۔۔۔ سے تکرار کی صورت پیدا ہو رہی ہے۔
تکرار‘ بھلا کوئی صفت والی بات ہے۔ یک بیک کی بجائے‘ فورا لکھا جانا چاہیے
تھا۔ نظر کے ساتھ‘ روشنی کے استعمال کی آخر کیا ضرورت تھی۔ بدحالی سے خوش
حالی تک کا سفر‘ کھٹن سہی‘ لمحہ بھر کو تو حواس باختہ کر دیتا ہے۔ مضمون
فطری ہے‘ اس لیے اس شعر کی تحسین نہیں بنتی۔
پھول مرجھا گیے‘ گل دان بھی گر کر ٹوٹا
کیسی خوشبو میں بسے ہیں در و دیوار اب تک
ایک ہی چیز سے متعلق چار الفاظ یعنی پھول‘ مرجھانا‘ گل دان‘ خوش بو‘
استعمال کرنے کی آخر کیا ضرورت تھی۔ بازگشت کے وجود سے‘ شاید شکیب واقف نہ
تھا۔ گر کر‘ نے غنائیت کا عنصر شعر میں داخل کر دیا ہے۔ غنا کے سبب گناہ
گاری کا عنصر شعر کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ اسلام سے دوری کی نشانی ہے۔ خوش بو
بسنا بھی کوئی بات ہے۔ قصہ ختم ہو جانے کے بعد بھی‘ یادیں تو باقی رہتی
ہیں۔ یہ کون سی پڑھی بات ہے‘ کون نہیں جانتا۔ کیسا شاعر ہے‘ روٹین کے
معمولات کو شعر کا مضمون بنا رہا ہے۔
لو دیکھو‘ کیسا شاعر ہے‘ کہتا ہے کہ کرن سے کرن میں آگ لگتی ہے۔ اس دور میں
جب بجلی آگئی ہے‘ چراغ سے چراغ جلنے کی بات کر رہا ہے۔ دوسرا چراغ رات ہی
کو جلا کرتے۔ لوڈشیڈنگ کا دور سہی‘ لوگ دیوے کب جلاتے ہیں۔ روشنی کے لیے‘
کئی طرح کے وسیلے اور ذریعے آگئے ہیں۔ بجلی کے دور میں دیوں کی بات‘ قطعی
عجیب ہے۔ آج ہر شخص کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ آلو ستر روپے جب کہ ٹماٹر سو میں
کلو ملتے ہیں۔ آدمی‘ آدمی کا سہارا یا وسیلہ بنے‘ کیسے ممکن ہے۔ نوکری کے
حصول کے لیے‘ لوگ پڑھتے ہیں۔ آگہی کی کب ضرورت رہی ہے۔ اس حوالہ سے بھی‘
شکیب کا گلہ کرنا درست نہیں بنتا۔ نہ پہلے سے استاد رہے ہیں اور ناہی
شاگرد۔ کہتا ہے
وہ دن نہیں‘ کرن سے کرن میں لگے جو آگ
وہ شب کہاں‘ چراغ سے جلتے تھے جب چراغ
دن‘ کرن سے کرن‘ آگ۔۔۔۔۔۔۔دن کے وقت کرن سے کرن میں آگ لگتی ہے‘ دیوانوں کی
سی بات ہے۔ آج تو دن کے وقت‘ ہر روشن دوسرے روشن کو بجھاتا ہے۔ ہاں
پھوک۔۔۔۔۔۔ پلیز پھوک کو ہوا کے معنوں میں نہ لیں۔ اگر ہوا مراد ہوتی‘ تو
مصدر بھرنا کا ضرور استعمال میں لاتا۔ کسی گریب آدمی کے لیے پھوک بھرنا‘
استعمال میں نہیں آتا۔ یہ تو بڑے بڑوں سے‘ مطلب بری سے متعق ہے۔ پھونک میں
نون مجھے حشوی سا لگا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھونک کو‘ جلا دینے کے معنوں میں لینا‘
عصری تقاضوں کے مطابق ہے۔
شب‘چراغ ‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلبوں‘ قمقموں یا انڈوں کو چراغ کہنا‘ کسی طرح
فصاحت میں نہیں آتا۔ سوچنا یہ بھی ہے‘ کہ چراغ جلنے لگے تو بےچارے چور
اچکوں کا کیا ہو گا‘ وہ تو بن آئی مارے جائیں گے۔ عجیب و غریب متعلقات ہیں۔
اتنا گہرا رنگ کہاں تھا رات کے میلے آنچل کا
یہ کس نے رو رو کے‘ گگن میں اپنا کاجل گھول دیا
میں اس شعر پر سکی واہ نہیں کروں گا۔ بھوکا ننگا شخص تھا۔ زندہ بھی ہوتا‘
تو چائے کی پیالی پیش کرنے کے بھی قابل نہ ہوتا۔ بھوکا ننگا شخص‘ کیسے کام
کی بات کر سکتا ہے۔ گہرے اندھیرے کو رنگ کا نام دے رہا ہے۔ عجیب آدمی ہے‘
اوپر سے اسے رات کا میلا آنچل قرار دے رہا ہے۔ دوسرے مصرعے میں وجہ‘ کیا
عجیب قرار دے رہا ہے۔
کس نے
رو رو کے
کاجل گھول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نے‘ کے
اپنا‘ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گگن میں
کس نے
رو رو کے
اپنا کاجل
گھول دیا
ان میں کسی ادبی دیانت دار کو‘ کوئی خاص بات نظر نہیں آئے گی۔ اگر کسی کو
نظر آتی‘ تو اس کام کو تحقیق و تنقید کے قابل ضرور سمجھتا۔ کلام کے صوتی
حسن کے لیے‘ بےفضول ہم صوت لفظوں کا استعمال کر رہا ہے۔ خوب صورت آواز اور
لہجہ‘ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ آج کل نرم اور ریشمی گفتگو‘ بنے بگاڑتی ہے۔
یہ بھی کوئی شعر ہے:
دیکھتی رہ گئی محراب حرم
ہائے انسان کی انگڑائی کا خم
انگڑائی کا خم‘ کوئی چودہ سو سال پہلے کی بات ہے۔ پرانی باتوں کو‘ دہرانے
کی آخر کیا ضرورت ہے۔
عصری حالات و ضرورت کے مطابق‘ پہلے مصرعے کو یوں ہونا چاہیے تھا۔
دیکھتی ہے اب محراب حرم
ہائے انسان کی انگڑائی کا خم
کچھ ہی دیر پہلے‘ ایک ملنے والے اٹھ کر گیے ہیں۔ فرما رہے تھے‘ ایک صاحب‘
جو دکھنے میں پرہیزگار تھے‘ ایک لاکھ چالیس ہزار روے لے کر‘ پھر ہو گیے
ہیں۔ اب تو سارا سال‘ انسان کی اس انگڑائی کے خم کو‘ محراب حرم دیکھتی ہے۔
صیغہ رہ گئی‘ عصری دیانت کے خلاف ہے۔ جو شاعر‘ اپنے عہد کو فوکس کرتا ہے‘
اور شاہ خوانی سے کام لیتا ہے‘ اسے ہی بڑے شاعر ہونے کا‘ شرف حاصل ہو سکتا
ہے۔
شکیب‘ احساس کو دشت قرار دیتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ‘ اس دشت میں شعلہ سا
اٹھاتا ہے۔ اس شعلے کو‘ پیار کے شہر میں بدل دیتا ہے۔ شہر سے‘ مختلف انواع
کی اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔ مخلتف طبع کے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ وہاں‘
بھیڑ اور رونق کا موسم ہوتا ہے۔ جب شعلہ‘ کسی شہر کی بنیاد بنے گا‘ تو
خرابہ جنم لے گا۔
کہیں میں‘ شکیب کی تعریف کرکے‘ ادبی خیانت کا تو مرتکب نہیں ہو رہا‘ معافی
چاہوں گا۔ نادانستگی میں لکھ گیا ہوں۔ دوسرا آپ کو سمجھنے میں غلطی لگ رہی
ہے۔
شعلہ لپکنا‘ عجب طرح کا‘ اور بےسرا سا محاورہ ہے۔ شعلہ سا سے‘ پہلے جذبہ
ہونا چاہیے تھا۔ اب یہ تشبیہ نہیں ۔ استعارہ اس لیے نہیں کہ حرف تشبیہ
موجود ہے۔ سا‘ پر شہر کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ شعر سنیے
دشت احساس میں شعلہ سا کوئی لپکا تھا
اسی بنیاد پر تعمیر ہوا یہ پیار کا شہر
ایک ہی شعر میں‘ دس بار حرف الف کا استعمال کر گیا ہے جب کہ س٤ بار‘ ش ٣
بار؛ ت ٢ بار اور پ ٢ بار‘ کا استعمال کر رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے‘ کہ
حروف ابجد پر‘ اس کی گرفت بہت کم زور تھی۔
آہنگ اور غنائیت کے لیے‘ یہ سلیقہ تھوڑ علمی اور تھوڑ فکری کا ثبوت ہے۔
یہاں میں نے‘ نمونہ کے چند شعر پیش کیے ہیں‘ ورنہ اس سے بڑھ کر‘ اس کی تھوڑ
فکری کے نمونے ۔۔۔۔۔روشنی اے روشنی۔۔۔۔۔ میں پڑھنے کو مل جائیں گے۔ اگر
میری اس‘ اعلی ترین تحریر کو‘ ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا‘ تو میں
سمجھ لوں گا‘ کہ وار کاری رہا۔ اگر پسند کیا گیا تو قارئین کا اپنا بندہ
ہے‘ سمجھتے ہوئے‘ اپنے کہے سے مکر کر‘ دوسرا رستہ اختیار کروں گا۔ ویسے کسی
مردے کے لیے‘ کسی کو وکالت کرنے کی‘ کیا ضرورت پڑی ہے۔ مجھے کسی یونیورسٹی
کے شعبہ اردو سے‘ کوئی خدشہ نہیں۔ ان کی بائیں آنکھ پر شکیب سے زندہ لوگ‘
موجود نہیں ہیں۔ ان کی اپنی ترجیحات‘ ہمیشہ سرفہرست رہی ہیں۔ |