نوٹ:گزشتہ مضمون میں ہم نے آپ کو
خبر دی تھی کہ غالب کا نسخہ ء حمیدیہ حسینی آرٹس کے تعاون سے دریافت ہوچکا
ہے۔ ڈاکٹر مہر افشاں فاروقی جو کہ ماہر غالبیات اور ورجینیا یونیورسٹی کی
پروفیسر بھی ہیں، انہوں نے اس نسخے کا جائزہ لینے کے بعد قارئین اور غالب
کے چاہنے والوں کیلئے اس پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔ ذیر نظر مضمون ان کے
اسی تبصرے کا ترجمہ ہے۔
مہر افشاں فاروقی
ترجمہ : ملیحہ ہاشمی
1918 میں، غالب کی وفات کے کم و بیش پچاس برس بعد، ریاست بھوپال کے حمیدیہ
کتب خانہ سے ایک مخطوطہ دریافت ہوا جو بنا کسی شک و شبہے کے عظیم شاعر مرزا
اسداللہ خان غالب کا دیوان تھا۔ اشاعت کنندگان کے علامتی نشان ( کولوفون)
کے مطالعے سے یہ انکشاف ہوا کہ یہ کتاب ( 1237ہجری ، 1821عیسوی ) میں حافظ
معین الدین نے مخطوطہ کی تھی۔ خطاط نے غیر مبہم الفاظ میں لکھا ہے کہ
’’دیوان من تصنیفِ مرزا صاحب و قبلہ المتخلص بہ اسد و غالب سلہم ربہم علی
یدالعبد المزنب حافظ معین الدین بتاریخ پنجم شہرِ صفر المظفر ۱۲۳۷ من
الہجرت النبویہ صورت اہتمام یافت‘‘۔
یہ مخطوطہ یا نسخہ ( جیسا کہ ہم اردو میں کہتے ہیں) نہایت خوشخط ہے اور متن
سرخ، سنہرے اور نیلے رنگ کے حاشیوں سے گھرا ہوا ہے۔ دیوان تحریر کرنے کے
مروجہ طریقے کے مطابق غزل سے دیوان کا آغاز کرنے کی بجائے یہ نسخہ فارسی
زبان کے ایک ’’قطعہ‘‘ سے شروع ہوتا ہے جس کے بعد اردو زبان میں دو قصیدے
ہیں۔ وہ صفحہ جس پر بطور پہلی غزل کے ’’ نقش فریادی ہے کس کی شوخی ء تحریر
کا" درج ہے، اس صفحے کو تفصیلاً نیلے اور سنہری رنگ سے سجایا گیا ہے۔
بدقسمتی سے یہ مخطوطہ دیوان اپنی دریافت کے فقط دو اڑھائی دہائی کے بعد ہی
یہ ایک بار پھر حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہوگیا تاہم اب اسے ایک بار پھر
دریافت کیا جاچکا ہے۔
دیوانِ غالب، جسے ہمیں متداول یا موجودہ دیوان کہنا چاہئے، ان کی زندگی میں
پانچ بار شائع ہوچکا تھا۔ پانچواں ایڈیشن جو کہ 1863 میں آگرہ سے شائع ہوا،
اس میں کل 1795 اشعار ہیں۔ غالب کی وفات کے پچاس برس کے عرصے میں ان کے
موجودہ دیوان کے ممکنہ طور پر متعدد ایڈیشن شائع ہوئے ہوں گے۔ میں دو تک
پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہیں،ا ن میں سے ایک 1883 اور دوسرا 1887 میں معروف
اشاعتی ادارے منشی نوال کشور پریس، لکھنئو نے شائع کیئے تھے۔ چھاپے گئے (متداول)
دیوان کی بڑے پیمانے پر تقسیم نے غالب کو بلاشبہ اردو زبان کے شاعروں میں
عظیم ترین ثابت کیا ہے ، لیکن اس کی بنا پر ہر کوئی یہ بھی بھول گیا کہ یہ
دیوان محض ایک انتخاب تھا اور ان کی اصل شاعری اس سے کئی گنا زیادہ مقدار
میں تھی۔ غالب نے متداول دیوان میں شامل 1800 اشعار سے کہیں زیادہ تحریر
کیا تھا۔اس نسخہ ء حمیدیہ کی دریافت اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کی مدد سے ان
اشعار کی بڑی تعداد منظر عام پرآئی ہے جو کہ دیوان غالب میں شامل نہیں تھے۔
نسخہ ء حمیدیہ میں شامل 1900 اشعار میں سے صرف 700 اشعار کو دیوان میں شامل
کیا گیا۔ 1900 اشعار میں 1883 غزلوں کے اشعار ہیں۔
نسخہ ء حمیدیہ کے بارے میں اشاروں کنایوں میں پہلی بار سید سلیمان ندوی نے
ذکر کیا تھا جنہوں نے اسے عبدالرحمن بجنوری کی ملکیت میں دیکھا، جو کہ اسے
انجمن ترقی ء اردو کیلئے شائع کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ بجنوری ایک
دانشور اور غالب کے عظیم مداحوں میں سے ایک تھے۔ ان کے معرکتہ الآرا مضمون
" محاسن ِ کلامِ غالب" کا آغاز دیوان غالب کومقدس وید کے ہم پلہ قرار دینے
سے ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں " ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں؛ مقدس وید
اور دیوان غالب"۔ بجنوری کی اچانک وفات نے اس نسخے کی ایڈیٹنگ کی ذمہ داری
ناتجربہ کار مفتی انوار الحق کے کاندھوں پر چھوڑ دی، جو کہ ریاست بھوپال
میں افسربرائے تعلیم تھے۔ حق کی نگرانی میں 1821 میں شائع ہونے والا یہ
ایڈیشن غلطیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ادارتی غلطیاں تو قابل اعتراض تھیں ہی،
لیکن اس کے ساتھ ساتھ حق کی جانب سے نسخے کے اصل ہونے کے بارے میں نکالا
گیا نتیجہ بھی قابل بحث تھا۔ حق کا دعویٰ تھا کہ اس نسخے کو میاں فوجدار
محمد خان کیلئے تحریر کیا گیا تھا، ان کی مہر مخطوطے کے متعدد صفحات پر
نمایاں دیکھی جاسکتی ہے تاہم اس دعوے کو مولانا امتیاز علی خان عرشی نے رد
کیا ہے۔ فوجدار محمد خان کی مہر پر تاریخ 1248 ہجری اور 1261 ہجری درج ہے
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں مہر یں مختلف اوقات میں لگائی گئیں ۔ پس نسخہ
1821 میں مکمل ہوگیا تھا لیکن فوجدار صاحب کے کتب خانے کی اس تک پہنچ 1832
میں ممکن ہوئی تھی۔ اس نسخے کی تکمیل اور اس کے حصول کی تاریخوں میں گیارہ
سال کا فرق یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ اس عرصے کے دوران کسی اور کے قبضے میں
تھا۔ گو کہ ممکن ہے کہ یہ نسخہ بالخصوص فوجدار محمد خان کیلئے تیار نہ کیا
گیا ہو تاہم انہوں نے اس نسخے کی ملکیت کے سبب خوب تعریف سمیٹی۔ نسخہ ء
حمیدہ کے صفحہ نمبر 2 پر موجود نواب کی تفصیلی اور پر آرائش مہر یہ ظاہر
کرتی ہے کہ یہ نسخہ فوجدار محمدخان کے قیمتی اثاثوں میں شامل تھا۔
مولانا عرشی کے مطابق یہ نسخہ غالب کے ذاتی استعمال کیلئے تیار کیا گیا
تھا۔ غالب امکان ہے کہ جب اس کی دوسری کاپی تیار ہوگئی تو یہ ایک شاگرد کو
دے دیا گیا۔ یہ ممکن ہے کہ غالب نے گل رعنا (1828) کیلئے غزلوں کے انتخاب
کے بعد یہ نسخہ کسی کو دے دیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے حفاظت کی غرض
سے ایک اور نسخہ(نسخہ ء شیرانی 1826 )بنوا کے کسی کو دیدیا ہو جبکہ وہ خود
نسخہ ء حمیدیہ کے ہمراہ سفر کلکتہ پر روانہ ہوئے۔ اس نسخہ کا ایک متنازع
پہلو حاشیئے میں غزلوں کا اضافہ ہے جسے تحریر کرنے والے کے ہاتھ میں اگرچہ
روانی ہے تاہم صفائی نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ : یہ اضافے کس نے کئے؟
مولانا عرشی کا نقطہ ء نظر یہ ہے کہ یہ غالب کا طرز تحریر ہے۔ کچھ دانشوروں
کی رائے میں اس لکھائی میں وہ نفاست نہیں جو کہ غالب کی لکھائی میں ہونی
چاہئے۔ گیان چند جین کے مطابق نسخہء حمیدیہ میں درستگی اور اضافے نسخہء
شیرانی کے جاری ہونے کے بعد اس وقت کئے گئے جب یہ نسخہ غالب کے ہاتھ میں نہ
رہا تھا۔ نسخہء حمیدیہ کے حاشیئے میں موجود نئی غزلیں اور پرانی غزلوں میں
اشعار کے اضافے شیرانی سے نقل کئے گئے تھے۔ نسخہء حمیدیہ کے اختتام پر چند
خالی صفحات تھے؛ ان صفحات کو " یہ" کی ردیف میں تحریر کی گئی سات نئی غزلیں
تحریر کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ ( 2 حاشیئے میں تحریر کی گئی تھیں)۔ نقل
کرنے والے لاپرواہ لوگ تھے۔ انہوں نے دو ایسی غزلیں بھی نقل کرڈالیں جو کہ
پہلے ہی نسخہ ء حمیدیہ میں موجود تھیں جبکہ وہ غزلیں جو کہ شیرانی میں تھیں
اور حمیدیہ میں نہ تھیں، وہ نقل کرنے والی کی نظروں سے اوجھل رہیں۔
اس نسخے کا ایک اور دلچسپ پہلو کہیں کہیں دکھائی دینے والا درست کا نشان ہے
جو کہ شعر کے سامنے حاشیئے میں لگایا گیا ہے۔ یہ نشانات مندرجہ ذیل اصحاب
کی جانب سے لگائے گئے ہیں۔ عبدالاعلیٰ، عبدالصمد مظہر اور آغا علی۔ مثال کے
طور پہلی غزل کے پہلے شعر کو "ص" سے نشان زدہ کیا گیا ہے اور اس پر
عبدالاعلیٰ کے دستخط ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ان افراد نے اس نسخے کو مستعار لیا
ہو، یا پھر جیسا کہ مولانا عرشی کا تبصرہ ہے کہ نسخہ درستگی اور اضافے
کیلئے غالب تک واپس پہنچا تھا۔ حقیقت جو بھی ہو، امرواقع یہ ہے کہ غالب
اپنے کام پر نظرثانی اور اس میں اضافہ کرتے رہے۔
یہ سوالات اتنے الجھا دینے والے نہ ہوتے اگر نسخہ ء حمیدیہ حوالے کے لئے
دستیاب ہوتا۔ نسخہ آخری بار 1944 میں مولانا عرشی کے پاس دیکھا گیا۔ بھارت
کی تقسیم کے دوران پیش آنے والے بدامنی کے واقعات کے دوران اصل نسخہ کھو
گیا۔ فی الحال جو چھپی ہوئی شکل میں دستیاب نسخہ ہے، وہ 1969 کا حامد خان
صاحب کا ہے جسے انہوں نے ان یادداشتوں کی مدد سے تحریر کیا تھا، جو انہوں
نے 1938 میں اس نسخے کے ساتھ ساتھ نسخہ ء شیرانی اور مفتی انوارالحق کے
جاری کردہ ایڈیشن کی مدد سے مرتب کئے تھے۔ اصل نسخہء حمیدیہ کا تقریباً
پچھتر برس بعد دوبارہ منظر عام پر آنا غالب کے چاہنے والوں کیلئے بہت اہمیت
کا حامل ہے۔ حسینی آرٹ گیلری کی جانب سے فراہم کردہ سکین شدہ نسخے کی جانچ
کے نتیجے میں ، میں اس امر کی قائل ہوں کہ درحقیقت یہی اصل نسخہ ء حمیدیہ
ہے۔
میری معلومات کے مطابق غالب کے ابتدائی دیوانوں کی محض دو نقول جن میں سے
ایک 1816 کے دیوان کا ایڈیشن اور ایک نسخہ ء شیرانی ہے، دستیاب ہیں۔1816میں
تحریر کیا گیا دیوان غالب کی اپنی لکھائی میں ہے اور اسے مختلف ناموں سے
جانا جاتا ہے: نسخہ ء بھوپال ( کیونکہ یہ بھوپال میں پایا گیا تھا)، نسخہ ء
امروہہ( اس نسخے کو خریدنے والا تقسیم کار امروہہ سے تعلق رکھتا تھا) اور
نسخہء عرشی زادہ ( اسے 1969 میں اکبر علی خان عرشیزادہ نے چھاپا )۔1816 میں
تحریر کیا گیا اصل دیوان غائب ہوچکا ہے۔ نسخہء شیرانی جو کہ پنجاب
یونیورسٹی لائبریری ، لاہور میں محفوظ ہے 1969 میں شائع کیا گیا تھا تاکہ
وسیع پیمانے پر اس کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔ نسخہء حمیدیہ ہی وہ
پہلا وہ مخطوطہ ہے جو کہ غالب کی وفات کے بعد منظرعام پر آیا ہے اور جو
1821تک غالب کی اردو زبان پر عبور کا مظہر بھی ہے۔ اس نسخے کی دریافت نے
نئے نسخوں کی دریافت کی راہ کھول دی ہے۔ تاریخی اور فنی لحاظ سے اس کی
اہمیت کو مزید بڑھا چڑھا کے بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ نسخے کی تازہ ترین
نقول کی دستیابی بلاشبہ غالب کے حوالے سے علم کی دنیا میں ایک غیر معمولی
اضافہ ہوگا۔
مضمون نگار مہر افشاں فاروقی ماہر غالبیات اور ورجینیا یونیورسٹی کے شعبہء
لسانیات و ثقافت برائے مشرق وسطیٰ و جنوبی ایشیا میں اردو اورجنوبی ایشیائی
ادب کے مضمون کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ |