میرا مضمون "جادو ٹونے اور سحر کی روک تھام۔ مگر کیسے
؟27" اگست کی اوصاف میں شائع ہوچکا ہے ۔ اس حوالے سے مجھ سے جو سوالات
پوچھے گئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ راہنمائی اور مسائل کے حل کے لیے جس
سے رابطہ کیا جائے ہمیں کس طرح سے معلوم ہو گا کہ یہ عامل ہے یا عالم ؟ یہ
شیطان کا پیروکار ہے یا ایک باعمل مسلمان ہے ؟؟؟یہ ایک زخیم موضوع ہے جو کہ
تحقیق طلب ہے اور میں اس سوال کے جواب کی تلاش میں سر گرداں رہی ۔اس سوال
کے جواب کے لیے میں نے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا ، مختلف لوگوں سے رابطہ
کیا ان سے بھی جو بظاہرعام سے انسان نظر آتے ہیں اور ان سے بھی جوباقاعدہ
عالم کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔اس سوال کا تحریری جواب جس کو میری عقل نے
بھی تسلیم کیا وہ "شاہد نظیر "کی کتاب "جنات کے غلام "میں ملا ۔
میں نے اپنے پہلے مضمون میں بھی لکھا تھا کہ روحانی مسائل کے حل کے لیے
انسا ن روشنی کی تلاش میں رہتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں سے بھی
سہارا ملے لے لیا جائے لیکن کسی کی مدد لینے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جان
لیا جائے کہ آیا یہ شخص اسلام کا پیروکار ہے بھی یا نہیں ؟کسی بھی عالم یا
عامل کے بارے میں یہ جاننے کے لیے کہ وہ غلط نہیں کر رہا اس کی کچھ عادات
کو جان لیجئے
1۔اگروہ عالم ہے اپنی ذاتی صفائی ستھرائی ، اپنے آستانے کی صفائی ، نماز ،
روزہ ، اور شریعتِ محمدی کا پابند ہو گا ۔ اگر کوئی شخص میلے کچیلے کپڑے
پہنے ، نماز روزے سے عاری ہے ۔ اپنی ظاہری صفائی کا خیال نہیں رکھتا ۔ اگر
اس کا حلیہ ملنگوں جیسا ہے ، بال بدبو دار ہوں اور اس کے آستانے پر جاتے ہی
آپ کے دل میں خوف پیدا ہو، یا وہ آپ سے پیسہ ، کالا بکرے یا اس قسم کی
چیزوں کا مطالبہ کرے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سفلی عمل کا مالک ہے اور جادو
ٹونہ کا سہارا لے کر لوگوں کا روپیہ لوٹتا ہے ۔ وہ ہوس اور طمع کا مارا ہوا
شخص ہے ۔ایسے مجذوب جو نماز تک ادا نہ کرتے ہوں اور کسی درخت کے نیچے یا
ویرانوں میں ہو وہ کسی طور پر اعتبار کے قابل نہیں اور نہ ہی وہ نوری علم
کے مالک ہیں کیونکہ کسی بھی شخص کا عالم یا عامل کہلانا اس وقت تک درست
نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ شریعتِ محمدی کا پابند نہ ہو اور اس کے آستانے پر
جاتے ہوئے آپ کو کراہت کا احساس نہ ہو بلکہ خود بخود آپ کے دل میں ادب و
احترام جاگزیں ہو جائے ۔ یہ اگر کوئیمزار بھی ہو گا تو وہاں آپ کے دل میں
رعب و دبدبہ اور احترام پیدا ہو گا کیونکہ اولیاء کرام کے بارے میں اﷲنے
فرمایا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور اس کے ہاں سے رزق پا رہے ہیں ۔ مزاروں سے بھی
بہت سے لوگ فیض پاتے ہیں اور اپنی منتیں مرادیں حاصل کرتے ہیں ۔میرے خیا ل
میں یہ سب اعتقادکا ثمر ہے ۔)
ٓ۔ایک ایسا عامل جوکہ شریعت ِ محمدی کا پابند ہو گا وہ ہوس ، غرور و تکبر
سے بالاتر ہوگا ۔ اس کی نظر میں کوئی میل نہیں ہوگا ۔ وہ آپ سے کسی قسم کا
نذرانہ یا پیسہ نہیں مانگے گا ۔ وہ قرآنی آیات بتائے گا یا قرآنی آیات کا
تعویز دے گا ۔ واضع ریے کہ قرآن میں ہر قسم کے مسائل کا حل موجود ہے ۔
3۔ اگر آپ کے مسائل حد سے زیادہ بڑھ جائیں اور آپ کسی سہارے کی تلاش میں
ہوں تو بھی اندھی عقیدت کا شکار نہ ہوں کیونکہ انسان اگر اندھی عقیدت کا
شکار ہو جائے تو اس کو اچھے اور برے کی تمیز نہیں رہتی ۔اور اس اندھی عقیدت
کا شکار لوگ اپنا روپیہ ، پیسا اور عورتیں اپنی عزت تک گنوا بیٹھتی ہیں ۔
ہمارے ہی ملک کے ایک شہر میں اندھی تقلید کی مثال پیر نانگا کی صورت میں
موجودہے جوکہ بنا کسی لباس کے اپنے آستانے میں موجود رہتا ہے اور عقیدت مند
خواتین و حضرات کی ایک لمبی قطار ہمیشہ اس کے آستانے پر موجود رہتی ہے ۔ اس
کا ثبوت آپ کو انٹرنیٹ پر موجود ایک وڈیو سے حاصل کر سکتے ہیں ۔ یہ بات روز
روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر وہ پیر عالم باعمل ہو تا تو سب سے پہلے اپنے
ستر کا خیال رکھتا ، وہ شریعت کی پیروی کرتا اور ہر اس چیز سے منع کرتا جس
کی اسلام میں ممانعت ہے ۔لیکن ایک ایسا شخص جو کہ خواتین تک کے سامنے برہنہ
رہتا ہو وہ کسی طور عالم کہلانے کے قابل نہیں۔ ایسے شخص کے آستانے پر
خواتین کی طویل قطاریں صرف اور صرف اندھی عقیدت مندی ہی کی وجہ ہیں ۔ بالکل
اسی طرح کے چھوٹے بڑے آستانے پورے ملک کے ہر شہر ہر گاؤں میں آپ کو جگہ جگہ
نظر آئیں گے ۔جہاں بیٹھے ہوئے عامل صاحب ہر کام کے پیسے طلب کرتے ہیں ،
جتنے زیادہ پیسے دیں گے اتنا ہی(خدانخواستہ ) تیر بحدف عمل کیا جائے گا ۔
اگرچہ یہ آستانے عام ہوئے ابھی بہت وقت نہیں بتیالیکن اعتقاد اور ایمان کی
کمزوری کے مارے لوگ ان آستانوں میں بیٹھے عاملوں کے پاس بھی کھینچے چلے آتے
ہیں ۔
اس کے برعکس وہ لوگ بھی ہیں جو اپنی زندگی شریعت کے مطابق گزارتے ہیں اور
لوگو ں کی راہنمائی بنا کسی لالچ کے کرتے ہیں ۔جن کے حضور حاضری دے کر
انسان کا ایمان تازہ ہوتاہے اور ایک دنیا ان سے فیض پاتی ہے ۔ان کی زندہ
مثالوں میں پیر نصیر الدین نصیر (گولڑہ شریف)، شجاع الدین صاحب ، اسرار
احمد ،جاوید احمد غامدی ، مولانا طارق جمیل صاحب شامل ہیں ۔ جنھوں نے ثابت
کیا کہ زندگی گزارنے کے لیے دین کو مشعل ِراہ بنایا جائے تو دنیا اور آخرت
کو سنوارا جا سکتا ہے ۔
مشکلات میں ثابت قدم رہنے کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ ہر حال میں اپنے ایمان
کو مضبوط رکھیں ۔ نماز کی پابندی کریں ، شریعتِ محمدی کی پیروی ، درودشریف
کا ورد آپ کو کسی بھی مشکل سے بحفاظت نکال سکتا ہے ۔ قرآن کی دعائیہ اور
شفائیہ آیات کے ورد سے بھی بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ اور دوسری اہم
بات اندھی عقیدت سے ہر حال میں بچیں ۔یہ اعتقاد رکھیں کہ کائنات میں موجود
ہر چیز اس ربِ ذوالجلال کے ایک کن کی محتاج ہے ۔ اس کے حکم کے بنا کچھ نہیں
ہو سکتا اور اس کی رضا حاصل کرنا انسان کی اولین ترجیح ہونا چاہیے کیونکہ
اگر اس کی رضا حاصل ہو جائے تو انسان مشکل سے مشکل وقت صبر اور شکر سے گزار
سکتا ہے ۔ کوشش کرنا چاہیے کہ ناشکری سے بچا جائے اور ہر حال میں اﷲکی
عبادت کو اپنا شعار بنایا جائے۔ اﷲکی عبادت دلوں کو سکون بخشتی ہے ۔بس اﷲکی
عبادت یکسوئی سے کی جائے خاص الخاص اس کی رضاپیشِ نظر ہو اور اسی سے دعا
مانگی جائے ۔اگر دعا پر مکمل اعتقادہو تو انسان کو کسی قسم کے تعاویز
دھاگوں کی ضرورت نہیں رہتی ۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہر ایسی دعا جو دل
سے مانگی جائے پراثر ہوتی ہے اور اگر وہ اس وقت شرفِ قبولیت نہ بھی حاصل کر
پائے تو بھی ضائع نہیں جاتی ۔
میرے خیال کے مطابق ہر مسئلے کا حل قرآن اور حدیث میں موجود ہے ۔ ضرورت صرف
اس امر کی ہے کہ اپنی بصیرت کو وسیع کیا جائے اور اپنے اندر کھوج کے جذبے
کو اس حد تک مضبوط کیا جائے کہ ہم قرآن اور احادیث کے مطابق اپنے مسائل کا
حل خود تلاش کر سکیں ۔اس ضمن میں قرآن کی دعائیہ اور شفائیہ آیات کے بارے
میں آگاہی حاصل کر کے بیش بہا فوائد حاصل کیئے جا سکتے ہیں ۔ قرآن و حدیث
کی روشنی میں مرتب کردہ قابل ِاعتماد مصنفین کی مختلف کے مجموعہ وضائف (
مارکیٹ میں دستیاب ) سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔
|