بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاکستان پچھلے پانچ برسوں سے شدید سیلابوں کی زد میں ہے۔ ہر سال برسات کے
موسم میں جب شدید بارشیں ہوتی ہیں تو انڈیا یہ کہہ کر پانی چھوڑ دیتا ہے کہ
چونکہ پانی اتنا زیادہ ہے کہ اس کے کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اس لئے مجبوری
میں وہ لاکھوں کیوسک پانی کے ریلے چھوڑ رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
بارشیں تو ماضی میں بھی ہر سال ہو تی رہی ہیں کہ لیکن ا یسی صورتحال تو
کبھی نہیں بنی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے ایوب خاں کے دور میں کئے گئے سندھ
طاس معاہدہ میں پائی جانے والی کمزوریوں سے بہت زیادہ فائدے اٹھائے ہیں۔
معاہدہ میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ بھارت بہتے ہوئے پانی کو اپنے استعمال
میں لاکر اس سے بجلی پیدا اور باغبانی کیلئے استعمال کرسکتا ہے تاہم اسے
روکنے کا اسے اختیار نہیں ہو گا لیکن وہ سارے کے سارے پانی کو اپنے قبضہ
میں لینے کی مذموم منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے۔ انڈیا کو معلوم ہے کہ ایٹمی
قوت پاکستان سے اب میدان میں مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے اس لئے وہ بغیر جنگ
لڑے پاکستان کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے اورپاکستانی دریاؤں پر غیر
قانونی ڈیم تعمیر کر کے وطن عزیز کو بنجربنانے کی مذموم منصوبہ بندی پر عمل
پیرا ہے۔نائن الیون کے بعد خاص طور پر بھارت نے اس سلسلہ میں بہت فائدے
اٹھائے۔ بھارت کی جانب سے عرصہ سے پاکستانی دریاؤں پر ڈیم بنائے جارہے ہیں
مگر ہماری حکومتیں انڈیا سے یکطرفہ دوستی پروان چڑھانے اور بیرونی دباؤ پر
خاموش رہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اب ہر سال سیلاب کی تباہی بھگتنا
پڑ رہی ہے۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید بھارتی آبی دہشت گردی سے
متعلق کئی برسوں سے آواز بلند کر رہے ہیں مگر افسوس کہ حکومتی ذمہ داران جب
اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو ان سبھی باتوں کو درست سمجھتے اور ان کی تائید
بھی کرتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ حکومتی عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں تو ان کی
زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ آج ایک بار پھر جب دریائے چناب میں انڈیا نے
لاکھوں کیوسک کے ریلے چھوڑے اور پنجاب کے بیشتر علاقوں میں زبردست تباہی
ہوئی۔ ہزاروں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور اربوں روپے مالیت کا نقصان ہوا
حافظ محمد سعید نے مرکز القادسیہ میں سینئر صحافیوں، کالم نگاروں اور
اخبارات کے مدیران کی ایک مجلس کا اہتمام کیا تاکہ اس انتہائی اہم مسئلہ کو
اجاگر کرکے قومی شعور بیدا ر کیاجائے۔ یہ مجلس انتہائی فکر انگیز تھی جس
میں جماعۃالدعوۃ کے ترجمان محمد یحییٰ مجاہد کی دعوت پر محترم مجیب الرحمن
شامی، عطاء الرحمن، سجاد میر، حفیظ اﷲ نیازی، سعد اﷲ شاہ و دیگر بہت سے
نامور صحافیوں ، کالم نگاروں اور اینکرز حضرات نے شرکت کی۔ نشست کے آغاز پر
فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرؤف نے سیلاب کی تباہ کاریوں
اور ایف آئی ایف کی امدادی سرگرمیوں سے متعلق بریفنگ دی تو مجلس میں موجود
ہر آنکھ اشکبار تھی۔ گہرے پانیوں میں اپنے پیاروں کے ڈوبنے، فصلوں و
جانوروں کے بہہ جانے اورمکانات کے گرنے سے عمر بھر کی جمع پونجی غرق ہونے
پر متاثرہ عورتوں و مردوں کی دل دہلا دینے والی چیخوں کو پردہ سکرین پر
سننا اور دیکھنا بھی بہت مشکل تھا۔حافظ عبدالرؤف کی خوبی یہ ہے کہ زلزلہ،
سیلاب ہو یا کوئی اور قدرتی آفت وہ رضاکاروں کے درمیان موجود رہتے اور عملی
طور پر اپنی نگرانی میں ریسکیو اور ریلیف سرگرمیاں سرانجام دیتے ہیں اس لئے
ان کی زبان میں جو تاثیر اور درد ہوتا ہے وہ کسی اور کی گفتگو میں دیکھنے
کو نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اپنی بریفنگ کے دوران انہوں نے سیالکوٹ،
نارووال سے شروع ہوکر سندھ کے کچے کے علاقوں تک جہاں جہاں تباہی ہوئی زبانی
ان دیہاتوں و علاقوں کے نام لینا شروع کئے تو حاضرین میں سے کوئی شخص اتنی
زبردست معلومات پر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ایف آئی ایف کے سربراہ نے
بتایاکہ حالیہ سیلاب سے 23لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ 36سو دیہات
مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ 24لاکھ ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں اور لوگوں کے گھر
برباد ہو گئے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پچیس فیصد لوگوں کے پاس خیمے ہیں
مگر75فیصد لوگ ابھی بھی ایسے ہیں جن کے پاس خیمے نہیں ہیں۔ لوگوں کو کھانا
اور پینے کیلئے صاف پانی نہیں مل رہا۔وہ کھلے آسمان تلے پڑے امداد کے منتظر
ہیں۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی طرف سے 23 ہزار سے زائد افرا د کو ریسکیو
کیا گیا۔ لاکھوں افراد میں تیار کھانا تقسیم کیاگیا۔ انہیں طبی سہولیات
فراہم کی گئیں اور ستائیس ہزار سے زائد افراد میں ایک ماہ کا خشک راشن
تقسیم کیاجاچکا ہے۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن عید الاضحی پر بھی ان شاء اﷲ
متاثرین کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنے کی کوشش کرے گی مگر تباہی اس قدر
شدید ہے کہ یہ سب کچھ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پوری قوم کو اس عمل میں بڑھ
چڑھ کر حصہ لینا چاہیے تاکہ ان کے دکھ درد بانٹے جاسکیں۔ حافظ عبدالرؤف سے
قبل المحمدیہ سٹوڈنٹس کے سربراہ انجینئر محمد حارث نے پاکستانی دریاؤں پر
ڈیموں کی تعمیر سے متعلق ملٹی میڈیا بریفنگ دی توشرکاء کا کہنا تھا کہ ہمیں
پہلی بار یہ اندازہ ہوا ہے کہ بھارت ہمارے پانیوں پر اس قدر کنٹرول حاصل کر
چکا ہے۔ یہ بریفنگ بھی معلومات اور حقائق سے بھرپور تھی۔ بعد ازاں
جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے گفتگو کرتے ہوئے سے سے پہلے تو اس
بات کا شکوہ کیا کہ اس وقت بے حسی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ پاکستان میں اب
لوگوں میں وہ احساس دیکھنے میں نہیں آرہا جو قومی سطح پر ہوناچاہیے۔ شاید
اس کی وجہ یہ ہے کہ پانچ برس سے مسلسل سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے یہ
مسئلہ روٹین بنتا جارہا ہے۔میں سمجھتاہوں کہ ان کی یہ بات بالکل درست ہے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب2005ء کا زلزلہ آیا تو لوگوں نے اتنی امداد دی
کہ اسے متاثرین تک پہنچانا مشکل تھا ۔ پاکستانی قوم اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم
سے اب بھی دکھی انسانیت کی خدمت کا بے پناہ جذبہ رکھتی ہے مگر افسوس اس بات
کا ہے کہ میڈیا کی ترجیحات میں سیلاب کی تباہ کاریاں نہیں ہیں۔ اگر اس
تباہی کو صحیح طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو آج بھی لوگ ان شاء اﷲ
اسی طرح متاثرین کی مدد کا فریضہ سرانجام دیتے نظر آئیں گے۔ حافظ محمد سعید
کا کہنا تھا کہ بھارتی آبی دہشت گردی کے اس سلسلہ کوروکا نہ گیا تو آئندہ
چند برسوں بعد پینے کا پانی ملنا بھی مشکل ہو جائے گا۔امسال چناب میں پانی
چھوڑ کرانڈیا نے باقاعدہ ریہرسل کی ہے۔ وہ باقی دریاؤں پربھی ڈیم بنا کر
پاکستان کو مکمل طور پر ڈبونے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ہمیں بے بسی کی موت
نہیں مرنا بلکہ انڈیا کی جارحیت کو روکنا ہے۔ا س مسئلہ کو سیاست کی بھینٹ
نہیں چڑھانا چاہیے ۔ان کا کہنا تھاکہ ہماچل پردیش کے پہاڑوں کے ایک طرف سے
راوی اور دوسری جانب سے چناب شروع ہوتا ہے لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ چناب میں
تو آٹھ سے نو لاکھ کیوسک کا ریلا نکل کر شدید تباہی پھیلا دیتا ہے مگر راوی
میں پانی کی ایسی صورتحال نظر نہیں آتی؟حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ باقاعدہ
منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔چناب پر انڈیانے سب سے زیادہ ڈیم بنائے ہیں۔
سلال ڈیم جہاں سے آٹھ لاکھ کیوسک کا ریلا اچانک چھوڑ دیا گیاوہ بھی اسی
چناب پر بنایا گیا ہے ۔یہ وہ حقائق ہیں جنہیں ہم ہر جگہ ثابت کر سکتے ہیں
اور اس مسئلہ پر چیلنج کرنے کیلئے بھی تیار ہیں۔بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ
پاکستانی دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان کے دفاع کے حوالہ سے خطرات
کھڑے کر دیے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی آبی دہشت گردی سے متعلق
قومی سوچ پیدا اور میڈیا کے ذریعہ لوگوں میں شعور بیدار کیاجائے تاکہ اس
سلسلہ کو روکا جاسکے۔ |