نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا
(عابد محمود عزام, karachi)
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے
کہ عالم اسلام کی تنزلی کا شروع ہونے والا سفر بہت تیزی کے ساتھ پستی کی
جانب رواں دواں ہے۔ بے بہا قیمتی و نادر وسائل سے مالا مال پانچ درجن کے لگ
بھگ مسلم ممالک کی بے وقعتی و بے قدری کے مناظر دل کو رنجیدہ اور دماغ کو
پریشان کیے دیتے ہیں۔ عالم تمام میں عالم اسلام کو بے حیثیت قرار دیے جانے
والی آوازوں کا شور و غوغا سماعت سے گولیوں کی طرح ٹکراتا ہے۔ انتہائی
افسوس کی بات یہ ہے کہ دور دور تک عالم اسلام کی اس تنزلی کو بلندی میں
بدلنے کے امکانات بھی صرف موہوم ہی نہیں، بلکہ معدوم دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ
دوسری جانب کچھ ہی صدیاں قبل دنیا میں اپنی شناخت کروانے والے اہل مغرب
ہماری سوچوں سے بھی تیز اپنی ترقی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آئے روز اہل
یورپ کی سامنے آنے والی نت نئی ایجادات و اختراعات ہی دنیا بھر پر اپنی
فوقیت کو منوانے کے لیے کافی ہےں، جبکہ ان کی ترقی و بلندی کا سفر ہر نکلتے
سورج کے ساتھ نئی منزل کو پاکر عالم اسلام کو ”کچھ“ کرنے کا درس دے رہا۔
دراصل اہل مغرب نے اس حقیقت کو جانچ لیا کہ قوموں کو ترقی و بلندی ہاتھوں
پہ ہاتھ دھرنے سے نہیں ملتی، بلکہ اس کے لیے محنت و جدوجہد کے ساتھ علم و
فنون میں کمال حاصل کرنا ضروری ہے اور قوموں کی تقدیر اس وقت تک نہیں بدلا
کرتی، جب تک قومیں خود اپنی حالت نہ بدل لیں۔ گویا اہل مغرب نے قرآن مجید
کی بیان کی ہوئی اس حقیقت کو سمجھ لیا: ”بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت
اس وقت تک نہیں بدلتے، جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے“ اور مولانا ظفر علی
خان کی زبان میں اس کا مفہوم کچھ یوں ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا
اہل مغرب نے اپنے عمل و کردار سے اس حقیقت کی صداقت کو پوری دنیا پر واضح
کیا ہے کہ علم و فنون ہی قوموں کو ترقی دینے کے ساتھ تاریخ میں بھی زندہ
رکھتے ہےں، جو قومیں علم و فنون سے دور ہو جاتی ہیں، انہیں نہ صرف تاریخ
بھلا دیتی ہے، بلکہ وہ قومیں ذلت اور پستی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ آج مغرب کی
ترقی کا راز ان کی علم و فن سے محبت میں ہی پنہاں ہے۔ گزشتہ دنوں
یونیورسٹیوں کے حوالے سے کی گئی درجہ بندی نے ایک بار پھرعالم اسلام کی
پستی اور اہل مغرب کی ترقی کا راز ساری دنیا کے سامنے آشکار کیا ہے۔
شنگھائی کے ایک تحقیقاتی مرکز کی طرف سے کی گئی درجہ بندی کے مطابق دنیا
کی20 بہترین یونیورسٹیوں میں مسلم دنیا کی کوئی ایک بھی یونیورسٹی اپنی جگہ
نہ بنا سکی، جبکہدنیا کی ٹاپ یونیورسٹی کا اعزاز امریکا کی ”میسا چوسٹس
انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی (ایم آئی ٹی)“ نے حاصل کیا ہے اور برطانیہ کی چار
یونیورسٹیاں دنیا کی 10 بہترین جامعات میں شامل ہیں۔ اسی طرح ٹاپ 200
یونیورسٹیوں کی فہرست میں امریکا کی 51، برطانیہ کی 29، جرمنی کی 13، نیدر
لینڈز کی 11، کینیڈا اور جاپان کی 10 اور آسٹریلیا کی 8 یونیورسٹیاں شامل
ہیں۔ لندن کی 5 یونیورسٹیاں ٹاپ 100 میں شامل ہیں۔ بوسٹن اور ہانگ کانگ کی
تین، تین جامعات بھی دنیا کی سو بہترین جامعات میں شامل ہیں۔ برطانیہ کی
برسٹل اور مانچسٹر یونیورسٹی ٹاپ 30 میں شامل ہیں، جبکہ گلاسگو یونیورسٹی،
واروک، برمنگھم اور شیفلڈ یونیورسٹی ٹاپ 70 کی درجہ بندی میں جگہ حاصل کر
سکی ہیں۔ کیو ایس کے مطابق رواں برس دنیا بھر سے 800 سے زاید جامعات کی
عالمی رینکنگ کی گئی، پاکستان کی کسی یونیورسٹی کو ٹاپ 400 یونیورسٹیوں میں
جگہ نہیں مل سکی۔
جب ہم یورپ کے مقابلے میں عالم اسلام پر نظر دوڑاتے ہیں تو پوری مسلم دنیا
میں صرف 500 یونیورسٹیاں ہی نظر آتی ہیں۔ اگر عالم اسلام کی تمام
یونیورسٹیوں کو مسلمانوں کی مجموعی تعداد پر تقسیم کیا جائے تو ایک
یونیورسٹی 30 لاکھ مسلم نوجوانوں کے حصے آتی ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں صرف
امریکا میں 5,758 یونیورسٹیاں اور ٹوکیو شہر میں 1000 یونیورسٹیاں ہیں۔
یورپ کے 40 فیصد نوجوان یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہیں، جبکہ اسلامی دنیا کے
صرف دو فیصد نوجوان یونیورسٹی تک پہنچ پاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں 21 لاکھ
لوگوں میں سے صرف 230 لوگوں کو سائنس کا علم ہوتا ہے، جب کہ امریکا کے 10
لاکھ شہریوں میں سے 4 ہزار اور جاپان کے 5 ہزار شہری سائنس دان ہوتے ہیں۔
پوری عرب دنیا میں صرف 35 ہزار فل ٹائم سرچ اسکالرز ہیں، جبکہ صرف امریکا
میں ان کی تعداد 22 لاکھ ہے۔ اسی طرح کمپیوٹر کے پہلے 10 بڑے ادارے امریکا
میں ہیں اور دنیا کے 30 فیصد غیرملکی طالب علم امریکا میں تعلیم حاصل کرتے
ہیں۔ چند سال قبل جاپان میں ہر 10 لاکھ کی آبادی میں 3500 سائنس دان اور
انجینئر تھے، امریکا میں 2700، یورپ میں 1600، ایشیا میں (جاپان شامل نہیں)
100 اور افریقہ میں 10 لاکھ آبادی میں سائنس دانوں اور انجینئروں کی تعداد
صرف 50 تھی۔ پوری دنیا میں امریکا اعلیٰ تعلیم پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرتا
ہے، امریکا اپنے جی ڈی پی کا 2.6 فیصد ہائر ایجوکیشن پر صرف کرتا ہے، جبکہ
پوری اسلامی دنیا اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.2 فیصد ریسرچ پر خرچ کرتی ہے۔
یہ سب کچھ معلوم ہونے کے بعد مغرب کی ترقی اور مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب
واضح طور پر سمجھ میں آجاتا ہے۔ مسلم ممالک کے امرا اپنی دولت بڑے بڑے
محلات بنانے پر صرف کرتے ہیں، جبکہ اہل یورپ اپنی دولت کو اپنی قوم کو ترقی
دینے کے اسباب پیدا کرتے ہوئے عمدہ یونیورسٹیاں اور تعلیمی و تحقیقی ادارے
بناتے ہیں، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہیں کہ مغرب میں شرح خواندگی قابل رشک
ہے، جبکہ مسلم ممالک میں شرح خواندگی قابل رحم ہے۔ مسلم افریقہ میں 70 فیصد
سے زاید افراد ناخواندہ ہیں، پاکستان اور بنگلا دیش میں65 فیصد، مصر میں52
فیصد، ایران میں 46 فیصد اور الجزائر میں43 فیصد افراد ناخواندہ، جب کہ
دنیا بھر میں 56 اسلامی ممالک کی مجموعی اوسط شرح خواندگی 22 تا 28 فیصد
ہے۔ افسوس! مسلم ممالک صرف علمی و تحقیقی میدان میں پیچھے ہی نہیں، بلکہ
اہل علم و فن کی ناقدری بھی کی جاتی ہے، عظیم محقق و مصنف ڈاکٹر شکیل اوج
جیسی شخصیت سے زندگی کا حق چھین لیا جاتا ہے، یہی نہیں، بلکہ صرف شہر قائد
میں رواں برس اب تک 30 ماہر ڈاکٹر ، علمائے دین، لیکچررز، پروفیسرز اور
وکلا کو قتل کیا جاچکا ہے، ملک بھر میں یہ اعداد و شمار مزید پریشان کن
ہیں۔ اسی طرح گزشتہ دنوں وطن نیوز کے مطابق عراق اور اردن میں ایک سو سے
زاید سائنسدان حکام کی عدم توجہ اورسرکاری اداروں کی غفلت کے باعث پیٹ کی
آگ بجھانے کے لیے مزدوری کرنے پرمجبورہیں۔ اہل علم و فن کی ناقدری کر کے
عالم اسلام کا ترقی کی منازل طے کرنا ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ اگر عالم اسلام
نے ترقی کرنی ہے تو اہل یورپ کی طرح علم و فنون اور اہل علم و فنون سے محبت
کرنا ہوگی اور تمام مسلم حکومتوں کو سب سے زیادہ توجہ تعلیم پر دینا ہوگی۔ |
|