عید قرباں آپہنچی....آئی ڈی پیز کی واپسی ممکن نہ ہو پائی
(عابد محمود عزام, karachi)
کچھ روز بعد ہی عالم اسلام کو
عید قرباں کی صورت میں ایک بہت بڑی خوشی میسر آنے والی ہے۔ پوری امت مسلمہ
انتہائی خوش کن طریقے سے اس مبارک دن کے انتظار اور تیاریوں میں مشغول ہے۔
ہر سو مختلف اقسام کے جانوروں کو اللہ تعالیٰ کے حضور قربان کرنے کے لیے
سجا کر تیار کیا جارہا ہے۔ عید قرباں کا انتظار ہر ملک میں اپنے روایتی
انداز میں کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں عید کی تیاری کے لیے نئے کپڑے، جوتے
اور دیگر سامان کی خریدو فروخت میں اضافہ ہورہا ہے۔ عید کی خوشیاں اپنے
پیاروں کے ساتھ منانے کی خاطر لوگ دور دراز کے علاقوں سے اپنے گھروں کا رخ
کر رہے ہیں اور ملک کے بڑے شہروں میں مزدوری اور ملازمت کرنے والے افراد
صرف عید گھر والوں کے ساتھ منانے کے لیے چھٹیاں لے کر ہی صحیح اپنے اپنے
علاقوں میں آنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے عیدالاضحیٰ کے سلسلے
میں تعطیلات کا اعلان بھی کر دیا ہے، جس کے تحت 6 اکتوبر بروز پیر سے 8
اکتوبر تک سرکاری طور پر چھٹیاں ہوں گی اور تعطیلات کے دوران وفاق کے زیر
انتظام چلنے والے ادارے، بینک اور تدریسی مراکز بند رہیں گے۔ اگرچہ ملک میں
عید کی آمد کے حوالے سے انتہائی خوشی کا سماں ہے، لیکن اس کے ساتھ ملک
میںآئی ڈی پیز کی صورت میں دس لاکھ سے زاید افراد ایسے بھی ہیں جو عید
قرباں پر روایتی انداز میں خوشیاں نہیں منا سکیں گے۔ وزیر ستان میں چار ماہ
قبل آپریشن شروع کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباً ساڑھے دس لاکھ افراد
بے گھر ہوگئے تھے اور ان کو ملک کے مختلف حصوں میں کیمپوں میں ٹھہرایا گیا
تھا۔ آئی ڈی پیز نے رمضان المبارک سخت گرمی کی وجہ سے انتہائی مشکل حالات
میں گزارا۔ رمضان البارک کے دوران ان کے لیے کوئی بہتر انتظامات نہیں کیے
گئے۔ اس کے بعد عید الفطر آئی تو آئی ڈی پیز اپنی واپسی کی دہائی دیتے رہے
لیکن نہ تو ان کی واپسی کا کوئی انتظام کیا گیا اور نہ ہی ان کو عید منانے
کے لیے بہتر سہولیات میسر کی گئیں۔ حالانکہ آپریشن شروع کرنے سے پہلے حکومت
نے یہ وعدہ کیا تھا کہ آپریشن کو رمضان المبارک کے دوران مکمل کر کے عید
الفطر تک تمام آئی ڈی پیز کی واپسی کو یقینی بنایا جائے گا، بار بار اس
حوالے سے یقین دہانی بھی کروائی جاتی رہی، لیکن وفاقی اور کے پی کے کی
صوبائی حکومت کے ذمہ داران نے صرف عید الفطر کے موقع پر آئی ڈی پیز کے ساتھ
تصاویر بنوا کر ہی سمجھے لیا کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی ہے۔ یہ
بات واضح ہے کہ وزیرستان آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کی مشکلات
پر قابو پانا اور ان کو سہولیات فراہم کرنا وفاقی و صوبائی حکومت دونوں کی
ذمہ داری ہے، لیکن دونوں نے ذمہ داری دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی۔ اب ایک
طرف وفاقی حکومتی ارکان ”کے پی کے“ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں
کہ خیبرپختونخوا کی حکومت کو آئی ڈی پیز کی مشکلات کی کوئی فکر نہیں، جو اس
حقیقت سے واضح ہے کہ صوبائی وزیراعلی پرویز خٹک وفاقی دارالحکومت کے ڈی چوک
میں پی ٹی آئی کے دھرنے میں شرکت کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب کے پی کے
حکومت وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اور خود کے پی کے حکومت کو
سب سے زیادہ فکر صرف ”گو نواز گو“ کی ہے، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ
دس لاکھ سے زاید بے یارومددگار متاثرین آپریشن کن حالات میں جی رہے ہیں۔
متاثرین کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تو متاثرین
آپریشن کے کیمپ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں ہنگو میں آئی ڈی پیز کے
کیمپ میں بم دھماکے سے 8 افراد جاں بحق اور 14 زخمی ہوئے۔ اس سے واضح ہوتا
ہے کہ آئی ڈی پیز کی دیکھ بھال کا کوئی انتظام نہیں کیا جارہا ہے۔ حالانکہ
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ آئی ڈی پیز کی بحالی
حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے
جا رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق عید الفطر پر تو حکومت آئی ڈی پیز کی واپسی کا وعدہ پورا
کرنے میں ناکام رہی ہے، لیکن کم ازکم عید قرباں پر تو ان کی واپسی کو یقینی
بنانا چاہیے تھا، لیکن اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے والے دس لاکھ سے زاید
افراد کو عید الفطر کے بعد عید قرباں بھی کیمپوں میں پریشانی کے عالم میں
گزارنی پڑے گی۔ جو نہ تو خود عید کو خوشی کے ساتھ منانے کا ساماں رکھتے ہیں
اور نہ ہی حکومت کی جانب سے ان کو حق فراہم کیے جانے کی توقع ہے اور حکومت
کی جانب سے ابھی تک ان کے لیے کسی پالیسی کا اعلان بھی نہیں کیا گیا۔ بے
یار و مددگار متاثرین آپریشن کے پاس قربانی کے لیے وسائل کا ہونا تو دور کی
بات اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے سلوانے کے لیے بھی وسائل نہیں ہیں۔ حالانکہ
ملک بھر میں ایک مہینہ پہلے ہی عید کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ بچے اپنی
اپنی پسند کے کپڑے اور جوتے خریدنے کی ضد کرتے ہیں، لیکن ان آئی ڈی پیز میں
کئی لاکھ بچے ہیں۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ وہ معصوم ہوتے ہیں۔ ان بچوں کو بھی
نہیں معلوم کہ ان کے والدین کن حالات سے گزر رہے ہیں۔ انہیں بس عید کا جوڑا
چاہیے۔ جب وہ معصومانہ ضد کرتے ہوں گے، ان کے والدین پر کیا گزرتی ہوگی؟ ہم
میں سے بے شمار لوگ ایسے ہیں جو عید کے تین دنوں کے لیے تین تین جوڑے
خریدتے ہیں۔ جبکہ یہ مجبور حضرات ایک سوٹ سلوانے کی استطاعت سے محروم ہیں۔
حالانکہ دس لاکھ سے زیادہ آئی ڈی پیز اپنا گھر بار چھوڑ کر صرف ملک کی خاطر
اپنے گھر بار کو چھوڑ کر مختلف علاقوں میں آئے۔ یہ آئی ڈی پیز کی ایسی بڑی
قربانی ہے جس کا اعتراف پاکستان کے عوام، سیاسی جماعتیں اور حکومت و فوج نے
بھی کیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرکزی حکومت اور خیبر پختوخوا کی
صوبائی حکومت مل کر یہ پروگرام بناتے کہ آپریشن متاثرین کو کیا کیا مشکلات
پیش آئیں گی؟ لاکھوں آئی ڈی پیز کے رہنے، کھانے پینے اور ان کی صحت کا خیال
کیسے رکھا جائے گا؟ بدقسمتی سے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی ہوم ورک نہیں
ہوا اور اسلام آباد میں سیاسی ڈرامہ شروع ہونے کے بعد تو میڈیا نے بھی آئی
ڈی پیز سے توجہ ہٹا کر ساری توجہ دھرنا سیاست پر مرکوز کر دی ہے، جو
انتہائی افسوس کی بات ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اس آپریشن کے موقعہ
پر جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا، انہوں نے نہیں کیا۔ تحریک انصاف جس کی
خیبر پختونخوا میں حکومت ہے اس کے سربراہ عمران خان کو آئی ڈی پیز سے زیادہ
اسلام آباد فتح کرنے کی فکر ہے، وزیراعظم نواز شریف دس لاکھ بے گھرافراد کے
لیے کچھ کرنے کی بجائے اپنی حکومت کو بچانے کی فکر میں گم ہیں۔ علامہ
طاہرالقادری کو صرف انقلاب لانے کی ہی فکر دامن گیر ہے اور باقی دوسری
جماعتوں کو بھی صرف اپنی اپنی جماعت کی فکر ہے۔ اس وقت پوری پاکستانی قوم
کو شمالی وزیر ستان سے آئے پناہ گزینوں کی مدد کے لیے اپنی بھرپور کوششیں
کرنے کی ضرورت ہے، جو ابھی تک خال خال ہی نظر آرہی ہیں۔ ایک ملین آبادی کو
کیمپوں میں رکھ کر تین وقت کا کھانا کھلانا ، کپڑے مہیا کرنا اور علاج
معالجے کی سہولیات فراہم کرنا انتظامی اورمالیاتی طور پر کافی مشکل ہے۔
جبکہ حکومت کے پاس ابھی تک کوئی ایسا ٹائم فریم بھی نہیں کہ آپریشن ضرب عضب
کب ختم ہوگا اور یہ مہاجرین کب اپنے گھروں کو جائیں گے۔لہٰذا ان متاثرین کو
لامحدود عرصے کے لیے کیمپوں میں رکھنا کسی بڑے انسانی سانحے کو بھی جنم دے
سکتا ہے اور اب عید کی آمد کے ساتھ ضروری ہے کہ حکومت کو مربوط انداز میں
متاثرین کی بحالی اور فلاح کے لیے منصوبہ بندی کرے۔ |
|