سلامتی کا سبق
(Lala Sana Ullah Bhatti, )
پاکستان میں ضیاء الحق کے دور
مذہبی تفریق منظرعام پر آئی، مذہبی لبادہ اوڑھے چندعناصر نے وطن عزیز کا
سکون برباد کررکھا ہے۔ ان عناصر نے مسلمانوں کو فرقوں میں تقسیم کرکے آپس
میں لڑا دیا ہے۔ ان مذہبی لبادہ ااوڑھے چندعناصرنے مسلمان بھائیوں کے مابین
نفرت کی وہ دیوار کھڑی کردی ہے جسے بآسانی گرایا نہیں جاسکتا۔ ان کی
زہرفشانیوں سے کوئی بھی نہیں بچ پایا حتٰی کہ اعلٰی تعلیم یافتہ حضرات بھی
ان کی سرگرمیوں کا حصہ اور نشانہ بن چکے ہیں۔ ضیاء الحق کے دور میں جب
سے’’ملّائکلچر‘‘کو فروغ دیا گیا ہے، تب سے اب تک لاکھوں افراد اس ‘‘مافیا’’
کی نفرتوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
گذشتہ دنوں کراچی میں ایک معروف معلّم ڈاکٹر شکیل اوچ پر ‘‘توہینِ مسواک’’
کی وجہ سے مرتد ہونے کا فتوٰی لگادیاگیا ہے۔ مزید ظلم یہ کہ اس فتوے کو ایس
ایم ایس کے ذریعے عام بھی کیاگیا۔ ڈاکٹر شکیل اوچ کا گناہ صرف اتنا تھا کہ
انہوں نے اپنے طلباء کو لیکچر کے دوران کوئی نقطہ سمجھانے کی غرض سے مسواک
کی نسبت سے بات کی تھی اور اسی بات کو وجہ بنا کر ایک معروف مدرسے کے نام
نہاد عالم دین نے ڈاکٹر شکیل اوچ پر مرتد ہونے کا فتوٰی صادر کردیا۔ اس
فتوے کی زد میں آکر وطنِ عزیز ایک قابل معلّم سے محروم ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب
کے قتل کے بعد میڈیا کیطرف سے حقائق سامنے آنے کی وجہ سے مذکورہ عالم دین
کے مؤقف نے ظاہر کیا کہ یہ فتوٰی جعلی تھا۔ علامہ?صاحب نے اس فتوے کو جھوٹا
پراپیگنڈا بھی قرار دیا۔ راقم کے پاس اس فتوے کی کاپی اور ڈاکٹر صاحب کے
قتل کے بعد علامہ صاحب کے مؤقف کی کاپی بھی ریکارڈ کے طور پر محفوظ ہے تاکہ
سند رہے۔ ان دونوں کاپیوں پر مذکورہ عالم دین کی مہر اور دستخط بھی درج ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں مفتی صاحب کا مؤقف عوام کے
سامنے آجاتا اور پاکستانی طلباء ڈاکٹر صاحب کے علم سے مزید مفید ہوتے۔ لیکن
کیا کہا جاسکتا ہے۔۔۔ اکثریت کا حال تو یہی ہے کہ : ’’تیری ہزار دلیلوں کے
سامنے پیرومرشد کی ایک بڑھک ہی کافی ہے اور میرے لیے یہی کافی ہے۔ ’’ ایک
انسانی جان کی قدرو قیمت کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی
تعلیمات کے مطابق’’ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے‘‘
پاکستانی حکومت کیلئے یہ ایک لمحہء فکریہ ہے۔ ملک میں عدلیہ کے ہوتے ہوئے،
ان نام نہاد مفتیوں کو ابھی تک ایسے فرسودہ فتووں سے روکا کیوں نہیں گیا۔
ارباب اختیار سے عوام کا سوال ہے کہ ؛ ان علمائکو یہ اختیار کس نے دیا کہ
وہ فتوے لگا کر عوام کو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنادیں ؟؟؟ دوسری بات یہ
کہ اگر کوئی مسلمان سنت نبوی صلّی اﷲ علیہ وسلّم کے مطابق زندگی بسر نہیں
کرتا تو کیا وہ مرتد ہوجاتا ہے؟؟؟ (لاحول ولا قوت الا باﷲ) مفتی صاحب!
اسلام سلامتی کا دین ہے۔ برائے مہربانی، اس طرح کے ظلم نہ ڈھائیں اور فتوے
دینے کی بجائے اپنی اصلاح کریں۔ اسلام تو محبت کا درس دیتا ہے۔ بھائی چارہ
سکھاتا ہے۔
دوسری طرف پشاور کی ایک تاریخی مسجد کے مفتی صاحب نے عزم کررکھا ہے کہ
پاکستانی عوام کو عیدین پر بھی متحد ہونے نہیں دیا جائے گا۔ موصوف کو گذشتہ
کئی سالوں سے پاکستان میں دو عیدیں زبردستی منوانے کا ‘‘اعزاز’’ حاصل ہے۔
مجھے تو ٹی وی چینلز پر حیرت ہوتی ہے جو مفتی پوپلزئی کو لائیو کوریج دیتے
ہیں۔ بہرحال۔۔ مفتی صاحب کا مؤقف ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دنیا کے
بیشتر دیگر ممالک کی طرح سعودی عرب کی ‘‘رویت ہلال کمیٹی’’ کے اعلان کے
مطابق اسلامی سال کا آغاز کرنا چاہیئے اور عیدین کا اہتمام کرنا چاہیئے۔
مفتی صاحب نے اس مقصد کے لیے پشاور میں ایک غیر سرکاری ہلال کمیٹی بنائی
ہوئی ہے جس میں چند علماء بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ ہر سال بہت باقاعدگی سے
پاکستان کے مسلمانوں کو عید کی خوشی کے موقع پر بھی تقسیم کردیتے ہیں اور
شاذونادر ہی کوئی عید کا موقع ایسا ہو کہ جب سارے پاکستان میں ایک ہی دن
عید کی خوشیاں منائی گئی ہوں۔ حکمرانوں سے عوام کا سوال ہے کہ مفتی پوپلزئی
صاحب کی اس غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے اعلانات کی روک تھام کیلئے آج تک
اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ مفتی صاحب کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ
پاکستان کی سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے عیدین کے
پرمسرت مواقع پر بھی پاکستانی عوام کو’’ایک‘‘نہیں رہنے دیتے؟کپتان صاحب! آپ
کی تو حکومت ہے خیبر پختونخواہ میں۔ آپ پاکستانی عوام کے مسائل کے حل کیلئے
نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں لیکن آپ نے اپنے’’زیراثر‘‘علاقے میں واقع مسجد
قاسم خان کی غیر سرکاری ہلال کمیٹی کے خلاف احکامات کیوں نہیں صادر کیے؟؟؟
جناب! پاکستان کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ملّّاء مافیا بھی ملکی حالات
خراب کرنے کا بڑا سبب ہے، اسے کنٹرول کیے بغیر پاکستان ترقی کی راہ پر کیسے
گامزن ہوسکتا ہے؟؟؟ ان نام نہاد ملّاؤں کا حال وہ ہے کہ’’ہاتھی کے دانت
کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘ گذشتہ جمعہ کی نماز سے پہلے ایک ‘‘حضرت ملّاء’’
چنگھاڑ چنگھاڑ کر فرما رہے تھے کہ ’’ اسلام میں اونچی آواز میں بولنا منع
ہے‘‘
وطن عزیز کا ایک اور اہم مسئلہ ‘‘فرقہ واریت’’ بھی ہے۔ ان ملاؤں نے مسلمان
قوم کو فرقہ واریت میں تقسیم کردیا ہے۔ صرف پاکستان میں مسلمانوں کے 80 سے
زائد فرقے موجود ہیں۔ ہر فرقے کا ملّاء دوسرے فرقے کے پیروکاروں کو ‘‘مشرک’’
قرار دینے پر تلا ہوا ہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہو یا سانحہ راولپنڈی، ان
سب فسادات کے پیچھے اکثر فرقہ وارانہ عناصر کا ہاتھ ہوتا ہے۔ علامہ محمد
اقبال نے بہت خوب فرمایا کہ اﷲ بھی ایک قران بھی ایک کعبہ بھی ایک کیا بڑی
بات تھی جو ہوتے مسلماں بھی ایک فرقہ واریت کی وجہ سے ہمارا وطن عزیز کے
حالات اور معاشرہ روز بروز بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ ہر روز قیمتی جانوں
کا ضیاع ہوتا ہے۔ اﷲ کریم نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ ؛ ‘‘اﷲ کی رسی
کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔’’ کیا یہ ملّاء قرآن پاک کی
اس آیت میں اﷲ پاک کے حکم کی نافرمانی نہیں کررہے؟؟ یہ کیوں فرقہ وارانہ
فسادات پھیلاکر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرہے ہیں؟ خدا کا خوف کرہ
مولویو! تم نے بھی اﷲ کو جان دینی ہے۔
شاعر عادل بٹ کی یہ شاعری قارئین کے پیش نظر:
کبھی کوئی مندر جلایا
کبھی کلیسا میں بم پھٹایا
مسجد خدا کا گھر ہے
وہ بھی نہ تجھ سے بچ پایا
کیسی حرکتیں ہیں یہ سب
تو یہ اسلام کدھر سے لایا
میں سوچتا ہوں، یہ کیا ہے
کبھی یہ میری سمجھ نہ آیا
روزِ آخرت کیا جواب ہوگا
خلقِ خدا کو کیوں ستایا
نفرت کس مذہب کا درس ہے
اسلام نے سلامتی کا سبق سکھایا |
|