’’رخصتی‘‘ سے آگے کا معاملہ
(M.Ibrahim Khan, Karachi)
دوسرے بہت سے معاملات کی طرح ہم
جمہوریت کے حوالے سے بھی تذبذب کے مرحلے میں ہیں۔ اب تک یہ طے نہیں ہو پایا
کہ ہمیں جمہوریت درکار بھی ہے یا نہیں۔ اگر درکار نہیں تو پھر جمہوریت کے
نام پر یہ ہنگامہ کیوں برپا ہے؟ بس اب جمہوریت کا نام نہاد بوریا بستر گول
کردیجیے۔ اور اگر جمہوریت چاہیے تو پھر طے کرلیجیے کہ کتنی اور کیسی ہو۔
کتنی اور کیسی جمہوریت کا طے کرنا اِس لیے ناگزیر ہے کہ اب تک ہمیں جمہوریت
کی جتنی doses دی گئی ہیں وہ کبھی زیادہ ہوجاتی ہیں اور کبھی کم رہ جاتی
ہیں!
ہمارے لیے تو سیاست و ریاست کا معاملہ بُوفے جیسا ہے۔ کبھی ہمارے سامنے
آمریت کی ڈِشیں دھری ہوتی ہیں اور کبھی آمرانہ جمہوریت یا جمہوری آمریت کی۔
بُوفے کا بنیادی اُصول یہ ہے کہ ڈِشیں اِتنی دَھری جائیں یعنی ورائٹی اِتنی
ہو کہ اِنسان کا دماغ چکراکر رہ جائے اور کچھ بھی نہ کھا پائے۔ گویا ع
سب مُرادیں پاگئے، ہم غور فرماتے رہے
سیاسی اور انتظامی بُوفے میں بھی یہی ہوتا ہے۔ بہت کچھ سمجھ میں تو آرہا
ہوتا ہے مگر اِس کے باوجود سمجھ میں نہیں بھی آرہا ہوتا۔ اِنسان تذبذب ہی
میں مبتلا رہتا ہے، انتخاب کے مرحلے میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ ورائٹی دیکھ
کر دل قابو میں نہیں رہتا یعنی کچھ زیادہ ہی کام کرنے لگتا ہے اور دماغ کام
کرنے سے انکار کردیتا ہے! لوگ ابھی یہ سوچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ کیا کھائیں
اور کیا نہ کھائیں …… اور ’’سمے سماپتی کی گھوشنا‘‘ ہوجاتی ہے!
جمہوریت سے ہمارا وہی تعلق ہے جو صارف اور اشتہاری مہم کا ہوا کرتا ہے۔
دکھایا جاتا ہے کچھ اور دیا جاتا ہے کچھ۔ اگر اشتہار اچھا ہو تو ذہن کو
گرفت میں لے لیتا ہے اور اِس کے بعد صارف سوچنے کے مرحلے سے گزرنا چھوڑ
دیتا ہے۔ ایک مشہور اشتہاری جُملہ ہے کہ کھلی آنکھوں سے دیکھا، آنکھ بند
کرکے خریدا۔ اِس اشتہار میں ایک اور جُملہ ’’ہم نے مال بدل دیا‘‘ بھی ہونا
چاہیے تھا! ہمارا اور جمہوریت کا معاملہ یہی تو ہے۔ جب ہم نے کوئی جمہوری
پیکیج خریدا ہے، دھوکا کھایا ہے۔ ہم نے سوچا کچھ، دکھایا گیا کچھ اور نکلا
ہے کچھ اور۔ جو کچھ ہمیں جمہوریت کے نام پر ملتا ہے اُسے پاکر ہم حیران و
پریشان رہ جاتے ہیں۔
کھلی جو آنکھ تو وہ تھا، نہ وہ زمانہ تھا
دہکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا
کب ایسا نہیں ہوا کہ باتوں کے جادوگروں نے پُرجوش اور دل لُبھانے والی
تقریروں کے ذریعے سماں باندھا، سبز باغ دکھائے۔ اور سُننے والے خوش ہولیے۔
سیاسی ’’بول بازوں‘‘ کی باتیں ایسی چِکنی چُپڑی ہوتی ہیں کہ سُننے والے آن
کی آن میں خوش فہمیوں کے طلسمات کی سَیر کرنے لگتے ہیں! اور پھر وہ ’’چشم
تصور کی آنکھ‘‘ سے اُس دنیا میں گھومنے لگتے ہیں جو اُن کے ذہن کی دُنیا
میں پائی جاتی ہے۔ یہی کیفیت ذرا طُول پکڑتی ہے تو لوگ مست و سرشار ہوکر
پولنگ بُوتھ تک پہنچتے ہیں اور خوشی خوشی قطار بند ہوکر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔
ووٹ کاسٹ کرتے ہی جاگتی آنکھوں میں پھر خواب سمانے لگتے ہیں۔ یہ خواہش بہت
سے پَر لگاکر اُڑنے لگتی ہے کہ ببول کے درخت پر گلاب اُگ آئیں۔ یہ کچھ دیر
کی بات ہوتی ہے۔ خواہشوں کو مٹی میں ملتے کیا دیر لگتی ہے۔ پھر جب آنکھ
کھلتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا
جب ہر بار ایسا ہی ہوا ہے تو اِس بار کچھ نیا کیوں ہوتا؟ گزشتہ حکومتوں کے
جمع کردہ مسائل نے نئی حکومت کے لیے کچھ خاص کرنے کی گنجائش چھوڑی نہیں۔
اور آنے والی حکومت بھی خود کو مشکلات ہی میں گِھرا ہوا پائے گی۔ ایسے میں
کسی بھی جمہوری آئیڈیل کے حقیقت میں تبدیل ہونے کا خواب کیونکر دیکھا
جاسکتا ہے؟ مسلم لیگ ن کوئی جادوگر نہیں کہ سارے مسائل آن کی آن میں حل
کرکے دودھ اور شہد کی نہریں بہادے گی۔ باتوں کا مُلمّع ایک ہی رگڑ سے اُتر
جایا کرتا ہے۔ اور اِس بار تو رگڑ لگنے کے آثار نمایاں ہوتے ہی مُلمّع
اُترنے لگا ہے۔ جو عمارت محض باتوں کی بُنیاد پر کھڑی کی جائے گی وہ زلزلہ
تو کیا، تیز ہوا کا جھٹکا بھی برداشت نہیں کر پائے گی۔
اب کے اگر کچھ نیا ہوا ہے تو بس یہ کہ ابتدائی مرحلے ہی میں مخالفت پر کمر
کَس لی گئی ہے۔ نام نہاد جمہوری حکومت نے ابھی بوریا بستر کھولا بھی نہ تھا
کہ یار لوگ اُس کا بوریا بستر گول کرنے پر تُل گئے۔ اِس میں کوئی شک نہیں
کہ نئی یعنی ن لیگی حکومت بھی برائے نام ہی جمہوری ہے اور بہت کچھ پہلے
جیسا ہی ہے مگر اُسے رخصت کرنے کے لیے پورے نظام اور ریاستی علمداری ہی کو
داؤ پر لگادیا گیا ہے۔
بیماری کو ختم کرنے کا اُصول یہ ہے کہ دوا کے ذریعے اُسے مرحلہ وار کمزور
کیا جائے، غیر موثر بنایا جائے۔ دوائیں پلاکر بیماری کو مضبوط کرنا دانش کے
منافی ہے۔ مگر ہم ایسا ہی کر رہے ہیں تاکہ دُنیا کو بتاسکیں کہ چھوٹی موٹی
بیماریوں سے کیا ہوتا ہے، ہم تو بڑی بیماریوں سے لڑنے کی سَکت رکھتے ہیں!
اِس وقت بھی کچھ ایسا ہی کیا جارہا ہے۔ چند چھوٹی خرابیوں کو بہت بڑی خرابی
میں تبدیل کیا جارہا ہے تاکہ دُنیا والوں پر ہم اپنی ’’سکت‘‘ ثابت کرسکیں!
ایک نئی بات یہ بھی ہے کہ اِس بار حکومت کی بساط لپیٹنے کی کوشش محض وہ
نہیں جو دکھائی دے رہی ہے۔ بات کچھ اور ہے۔ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ معاملہ
حکومت کی رخصتی پر ختم نہیں ہوگا۔ ارادے اِس سے بہت آگے کی کسی منزل تک
پہنچنے کے ہیں۔ ذرا سا غور کرنے پر اندازہ ہونے لگتا ہے کہ کہیں کی لڑائی
ہماری سرزمین پر لڑی جارہی ہے۔ ہتھیاروں کی لڑائی اب سیاسی مناقشوں تک
آپہنچی ہے۔
امریکا اور اس کے مغربی اتحادی افغانستان سے نکلنے ہی والے ہیں۔ مگر کیا وہ
خطے سے بھی نکلنے والے ہیں؟ لگتا تو نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عالمی
استبداد کا پنچھی اب ہماری ڈال پر بیٹھنے کی تیاری کر رہا ہے؟ بلوچستان کی
سنگلاخ سرزمین پر پنجے گاڑ کر پورے خطے کو کنٹرول کرنے کی تیاریاں تو نہیں
کی جارہیں؟ مغرب کی استبدادی قوتوں کو اپنی مرضی کا پاکستان اُسی وقت میسر
ہوتا ہے جب یہاں منتخب حکومت اور پارلیمنٹ وغیرہ کا ٹنٹا نہ ہو۔ نائن الیون
کی ساعتوں میں امریکا اور یورپ نے پاکستان سے مرضی کے فیصلے اس لیے پائے کہ
منتخب حکومت پہلے ہی رخصت کی جاچکی تھی۔ پاکستان میں منتخب حکومت کو رخصت
کرنے کے لیے اسٹیج کیا جانے والا ’’دھرنائی‘‘ ڈراما کہیں بڑی طاقتوں کی
خواہش کا احترام تو نہیں؟ ایک طرف امریکا ہے جو پاکستان میں کھلا میدان
چاہتا ہے۔ اور دوسری طرف سعودی عرب اور ایران کی باہمی مخاصمت ہے۔ کہیں اُن
دونوں کی سرد جنگ بھی تو ن لیگ کی حکومت کے گلے کی ہَڈّی نہیں بن رہی
کیونکہ میاں صاحب واضح طور پر سعودی کیمپ میں ہیں۔ سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب
ڈالر کا تحفہ ملنے پر بھی اُن کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
جمہوری اداروں اور جمہوری کلچر کے فروغ سے کہیں بڑھ کر مملکت کی فکر کی
جانی چاہیے۔ کسی بڑے گیم پلان کے لیے جو کچھ کرنا ہے اُس کے لیے جمہوری
کلچر کو بدنام کرنے کی کوشش ترک کی جانی چاہیے۔ ملک کو تبدیل تو ہونا ہی
ہے۔ مگر اِس تبدیلی کی کوکھ سے ایسی خرابی برآمد نہیں ہونی چاہیے جو پچھلی
تمام خرابیوں اور خامیوں کو گہنادے۔
عمران خان اور طاہرالقادری نے جو کچھ کیا ہے وہ عوام کے دل کی آواز ہے۔
سیاسی اور معاشرتی سطح پر جمود توڑنے اور عوام کو متحرک کرنے میں اُن کا
حصہ بڑا ہے۔ لوگ اصلاحات اور تبدیلی چاہتے ہیں۔ سب کی خواہش ہے کہ کرپشن
ختم ہو مگر اِس تحریک کے حتمی نتائج کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔ خان
صاحب کو باٹم لائن پر ضرور نظر رکھنی چاہیے۔ وہ اپنے پورے سیاسی کیریئر کا
سَر موجودہ ’’گو نواز گو‘‘ کی اوکھلی میں دے بیٹھے ہیں۔ پورے میچ کی
کارکردگی کہیں آخری اوور میں داؤ پر نہ لگ جائے۔ ع
کام اچھا ہے وہی جس کا مآل اچھا ہے- |
|