کل کی شام ابودہبی میں کچھ خاص نہیں تھی ،مگر رات ،رات
تو ہمیشہ ہی خاص ہوتی ہے ۔یہ پانے والے پر ہے کہ اسے کیسے پاتا ہے ،کھلے
آسمان کے تلے، سمندر کے کنارے یا پھر بیسویں منزل پر بنے اپنے فلیٹ کی
بالکونی پر ،رات سونے کیلئے بھی ہوتی ہے اور جاگنے کیلئے بھی ،فرق صرف اتنا
ہے کہ جاگنے والی رات سونے والی رات سے بڑی ہوتی ہے ۔اس رات میں بالکنی پہ
بیٹھا کچھ ڈائیاگرامز بنارہا تھا ۔جن کا مقصد نہ صرف انسان کے وجود کو
جاننا تھابلکہ ایک خودی کا دوسرے انسان کی خودی کے ساتھ غیر معمولی تعلق کو
واضع کرنا بھی تھا ۔جب اپنے ساتھ بیٹھے بیٹھے ,دائروں کو دائروں سے ملاتے
ملاتے, کافی وقت بیت گیا تو خیال آیا کیوں نہ اس سحر انگیز رات میں نصرت
فتح علی خان صاحب کی آواز کو شامل کر لیا جائے ۔پھر یو ٹیوب آن کی اور نصرت
صاحب کی قوالیاں ڈھونڈنے لگا،کہ اچانک رات نے مجھے اپنی آغوش میں بھر لیا ۔اور
جب ہوش آیا تومیں اپنے وجود کے ساتھ سراپا احتجاج تھا۔ویسا ہی احتجاج ،جواسلام
آباد کی سڑکوں پر ہو رہا ہے ۔ہمیں تصوف میں تسلیم کرنا سکھایا جاتا ہے ،جو
ہے جیسا ہے ہم اُسے تسلیم کرتے ہیں،محبت کرتے ہیں ،مگر اس رات نے مجھے
انفرادی اصلاح کے علاوہ بھی کچھ لکھنے پر مجبور کر دیا ۔
یہ کینسر ہسپتال کیلئے عمران خان صاحب کی ایک فنڈ ریزنگ تقریب کی ویڈیو تھی
جس میں نصرت فتح علی خان صاحب ۱ور امیتابھ بچن بھی موجود تھے ۔جب عمران خان
صاحب کو اسٹیج پر بلایا گیا تو اُنہوں نے اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر جو
کچھ کہا وہ صرف وہ انسان ہی جان سکتا ہے جس نے فقیروں کا بھیس بدل کر اہل
ِکرم کا تماشا دیکھا ہو ،خان صاحب نے جوکچھ بیان کیا اُس کا مفہوم اور
تفصیل میں اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔
عمران خان صاحب جب ٹیم کے کپتان تھے تو اُنہوں نے کھیل کے میدان میں تین
طرح کے کھلاڑی دیکھے ،ایک وہ جو کچھ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیوں کھیل رہے
ہیں ،ٹیم میں کیا کرنے آئے ہیں ،وہ کس حد تک جیت میں شامل ہیں اور کس حد تک
شکشت سے دوچار ہیں ،دوسری قسم کے کھلاڑی ایسے پائے جو ہمیشہ اپنی ذات کیلئے
کھیلتے تھے ،اچھی پرفارمنس کیلئے اور بلاشعبہ وہ اچھے کھلاڑی تھے فطرت نے
اُنہیں نوازا تھا
پر اُنہوں نے صرف اپنے آپ کو۔۔۔۔،اور تیسرے وہ جو ٹیم پلیئر ہوتے ہیں جو
جانتے ہیں اس وقت ٹیم کی کیا Situationہے،اُس مطابقت سے اپنی وہ صلاحیت ٹیم
کیلئے خلوصِ دل سے استعمال میں لاتے ہیں ۔احساس رکھتے ہیں۔۔۔ اپنے ساتھیوں
کا اور اپنے ملک کا۔
ایسے ہی خان صاحب نے بتایا کہ وہ بڑے بڑے لوگوں کو جانتے تھے جن سے اُنہیں
اُمیدیں تھیں کہ وہ کینسر ہسپتال کیلئے اُن کی مدد کریں گے مگر اُنہیں
مایوسی ہوئی ،اور اس بات کا احساس خان صاحب کو ایسے ہزاہا صاحبِ حیثیت
لوگوں سے مل مل کر ہوا ہوگا کہ پیسے والے لوگ بھی تین طرح کے ہوتے ہیں ۔
اصل میں لوگ ہوتے ہی تین طرح کے ہیں ان کے بیچ میں سب کیٹیگریز بھی ہیں مگر
آپ، میں ، خان صاحب اور وہ انہی تین طرح کے لوگوں میں سے کسی ایک طرح کے
لوگ ہیں۔
چاہے مذہب کے حولے سے دیکھ لیں ،اختیار کے حولے سے دیکھ لیں مجبت کے حوالے
سے دیکھ لیں اور اگر آپ چاہیں تو عمل کے حوالے سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ہم
یہاں اختیار پہ بات کرتے ہیں ۔
میں جانتا ہوں بہت سے مباحثوں کے باوجود بھی آپ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ
پائے ہوں گے ،کہ عوام کو انفرادی طور پر تبدیل ہونا چاہیے،یا حکمران کو
،جیسی عوام ویسے حکمران سُناہوگا آپ نے ،اصل میں ہمیں فرار ہونے کی عادت ہے
ہم جب خود کو تبدیل نہیں کر پاتے تو حکمرانوں کو کوسنا شروع ہو جاتے ہیں
اور جب حکمرانوں کو تبدیل نہیں کرپاتے ۔۔تو خود کو کوسنا شروع ہو جاتے ہیں
۔۔۔کہ ہم ہی ایسے ہیں ، اصل بات یہ ہے کہ خان صاحب نے جس پہلے کھلاڑی کا
ذکر کیا ہے، اُسے خان صاحب کی ضرورت ہے ،وہ خود کچھ نہیں کر سکتا ، جیسے
اسلام میں شریعت ہے ،فرض ہیں۔۔۔ واضع ہیں ،قانون ہیں جگہ جگہ بتایاگیاہے
،کیا کرناہے، کیا نہیں کرنا،ریاست کی بات کریں تو اُس کے اپنے قوانیں ہیں
۔۔۔جن کی پاسداری کرکے انسان جو ہے اُسے سکھایا جاتا ہے کہ آپ یہ کر سکتے
ہیں یہ نہیں کر سکتے ،پیسے والوں کیلئے زکوۃ ہے ،فرض ہے ،دینی ہی دینی ہے
،تو اُنہیں دینا پڑتی ہے ۔۔۔میں قطر میں تھا ،تو وہاں پر قوانیں بہت سخت
ہیں اشارہ توڑو تو پانچ چھ ہزار ریال کا جرمانہ ہوتا ہے ،تو ہمارے ایک
پاکستانی دوست کہتے ہیں کہ میں سال بعد پاکستان جاکر پہلاکام ہی یہ کرتاہوں
جو اشارہ ملتا ہے توڑ دیتا ہوں ۔قطرسے واپسی پر ،اسلام آباد ائیرپورٹ کی
بات ہے ابھی سامان آرہا تھا کہ ایک آدمی سیگرٹ جلا کر کھڑا ہوگیا ،طلب تو
مجھے بھی تھی تو میں نے اُس سے پوچھ لیا کہ بھائی صاحب کیا یہاں سیگرٹ پینے
کی اجازت ہے تو اُنہوں نے بڑے فخر سے جواب دیا کہ اب ہم پاکستان میں ہیں
یہاں اجازت ہی اجازت ہے،تو انسان کو ضرورت ہے کسی نظام کی قانون کی ، آپ نے
اکثر سُنا ہوگا کہ کسی باہر کے ملک میں زرا سی دیر کو لائیٹ گئی تو نہ جانے
کتنے پیسوں کی چوری ہو گئی -
مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں:اگر تم بیمار ہو اور تمہیں حکیم نے کوئی خاص چیز
کھانے سے منع کیا ہے ،اگر تو تم خود پہ اتنا اختیار رکھتے ہوکہ اُس چیز کے
سامنے چلے جاؤ گے اور نہیں کھاؤ گے۔۔۔ توتو چلے جاؤ ۔۔۔اور اگر نہیں رکھتے
تو اپنا نقصان کر بیٹھو گے ۔
تو پہلی قسم کا انسان اُسے کھاجاتا ہے اور اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے ۔
دوسری قسم کے لوگ زیادہ تر ناشکرے لوگ ہیں جنہیں قدرت ِحق نے بڑی صلاحیتوں
سے نوازا ہوتاہے ،وہ سمجھ سکتے ہیں جان سکتے ہیں مگر وہ جان بوجھ کر اندھے
گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں اُنکے پاس پہلی قسم کے لوگوں سے زیادہ اختیار
ہوتا ہے اُن کے فرائض زیادہ ہوتے ہیں اور زمہ داریاں بھی ،پیسہ والے ہوں تو
زکوۃ سے بڑھ کر رب کی راہ میں دینا ہوتا ہے کیونکہ فطرت ِحق نے اُنہیں جو
صلاحتیں دین ہیں وہ انکے ارد گرد کے انسانوں کو عطا نہیں کیں ،علم والے ہوں
تو سچی بات کی زمہ داری ہوتی ہے غرض کہ جو بھی فطرت نے اُنہیں نوازا ہے
فطرت چاہتی ہے کہ وہ اُسکا شکر بجا لائے اور اُن صلاحیتوں کو درست طریقے سے
استعمال میں لائے ،مگر نوازے جانے والے کو صرف اپنی پڑی ہوتی یا تو وہ دی
گئی صلاحیتوں کا غلط استعمال شروع کر دیتا ہے یا اپنے ارد گرد کے ہزارہا
ایسے افراد کو نظر انداز کر دیتا ہے جو اُن صلاحیتوں سے محروم ہیں ۔
تیسری قسم کے لوگ ، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زات سے باہر نکل کر انسانیت
کی خدمت کررہے ہوتے ہیں ،وہ اختیارات جو قدرت نے اُنہیں عطا کیے ہوتے ہیں
وہ اپنی ساری زندگی اُن اختیارات کا حق پورا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں
۔
مولانارومی ؒ فرماتے ہیں : دریائے نیل کے پانیوں پر تیرے نفس کی حکومت نہیں
اگر وہ تیرے اختیار میں ہوتا تو شاید تو بھی فرعون کی طرح موسیٰ کی راہ زنی
کرتا ۔
ہم سیاست دانوں کی روز گھر بیٹھ کر بُرائیاں کرتے رہتے ہیں کوستے رہتے ہیں
کہ اس نے اتنا لوٹ لیا ،اس نے اتنا لوٹ لیا ،حتہ کہ وہ لوگ بھی گھر بیٹھے
تجزیے کر رہے ہوتے ہیں جن سے اپنا اختیار میں ٹھیک سے نہیں سنبھلتا ،تو اگر
انہیں دریائے نیل کے پانیوں پر حکومت مل جائے تو وہ کیا کریں گئے وہی جو
پانچ دریاؤں پر حکومت کرنے والے کر رہے ہیں ؟
تو اختیار سنبھالنے کا اختیار جسے ہے اُسے پہچان لو ۔۔وگرنہ وقت گُزر جائے
گا ،ہر کوئی دینے والا نہیں ہوتا ،مگر لینے والے بہت ہوتے ہیں ،قائدے اعظم
تھے دینے والے تھے۔۔ اُنہوں نے سب کچھ دے دیا ،ہمارے ملک کیلئے ،اُن کے
خاندان والے آج بھی کراچی میں جس حال میں ہیں سب جانتے ہیں ۔
آج ایک اور انسان کھڑاہے جو رُکتا نہیں ہے قدرت نے اُسے جو صلاحتیں دی ہیں
وہ مسلسل اُن کا شکرانہ ادا کرتا رہا ہے ،دیتا رہا ہے۔انسانیت کی خدمت کرتا
رہا ہے ،عزت اُس کے پاس پہلے سے ہی بے بہا ہے ،اور یہ عزت اُس نے پولنگ
بوتھ میں جعلی ووٹ ڈلوا کر نہیں کمائی قدرت نے خود اُس کی جھولی میں ڈالی
ہے ، جسکا شکر ادا کرنے کیلئے وہ اس عمر میں بھی پوری توانائی کے ساتھ اپنی
قوم کے ساتھ کھڑا ہے ۔
یہاں سے فرار نہ ہونا ۔۔۔اور اگر فرار ہو بھی گئے تو کہاں جاؤگے تم اپنے
نفس کو تو سر نہیں کرسکتے اور جن کے پیچھے تم جارہے ہو وہ تمہیں کہیں لے جا
نہیں سکتے ۔اور وہ جہاں لے کر جا سکتے ہیں اُسکا راز بھی میں تم پر آشکار
کرتا ۔۔۔اگر میں ان تین طرح کے لوگوں کو محبت کے حولے سے بیان کرتا۔۔کیونکہ
میں سیاست کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا ۔۔۔مگر محبت کے بارے میں بہت
کچھ جانتا ہوں ۔۔ |