انٹرویو فرخ شہباز وڑائچ
تعارف
17اکتوبر 1945ء کو چک میانہ ضلع گجرات میں ایک زمیندار گھرانے میں آنکھ
کھولنے والے بچے کے بارے میں کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دن یہ بچہ علم وادب
کی ان بلندیوں کو چھوئے گا۔،کہ دنیا دنگ رہ جائے گی۔حافظ محمد ادریس نے
زمانہ طالب علمی سے ہی اپنی بلندعزمی ، ہمت اور بصیرت کے ساتھ معاشرے میں
نمایاں مقام پیداکیا۔ حافظ محمد ادریس نے سیاست ،علم ، ادب ہر میدان میں
کام کیا ۔ آپ کی چالیس کے قریب تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ آپ کے سفر نامے ،افسانے
میں ادب میں مقام بناچکے ہیں۔ آپ کی علم و ادب کے میدان میں بے شمار خدمات
ہیں۔ آپ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں ۔
پیغام ڈائجسٹ کا مشہور سلسلہ فرشتہ صفت لوگ(ابو داؤد)بھی آپ کا تحریر کردہ
ہے۔حافظ محمد ادریس کا قلم ان کی شخصیت کی طرح خوبصورت ہے ،الفاظ کو صفحہ
قرطاس پر منتقل کرنے میں نہایت نفاست سے کام لیتے ہیں۔قارئین کے اصرار پر
ہم نے محترم حافظ محمد اردیس صاحب سے وقت لیاجس پر انھوں نے کمال شفقت کا
مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت عنایت کیا۔
خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیے ؟
میری پیدائش چک میانہ (ضلع گجرات ) کی ہے ۔ میرا تعلق ایک زمیندار گھرانے
سے ہے۔ گجرات میں زیادہ تر آبادی گوجر آباد ی ہے اور دوسرے نمبر پر جاٹ ہیں۔
یہ گاؤں ہمارے آباؤ اجداد کا آباد کیا ہواہے۔ میرے والد صاحب میاں فیض محی
الدین ؒ جماعت اسلامی کے رکن تھے۔ مقامی امیر بھی تھے ۔ زکوٰۃ کمیٹی کے
چیئرمین بھی تھے۔ علاقے میں نمایاں مقام رکھتے تھے ۔ والد محترم کی گھڑ
سواری بہت مشور تھی۔ ان کو گھوڑے پالنے اور گھڑ سواری کا بہت شوق تھا۔ مگر
یہ شوق ہم بھائیوں میں منتقل نہ ہوسکا۔
س:آپ کتنے بہن بھائی ہیں ؟
ج:ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ میں تیسرے نمبر پر ہوں۔
|
|
س:بہن بھائیوں میں سے کوئی ادب کی طرف آیا ؟
ج:نہیں اس طرف تو نہیں ۔ لیکن پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔
س:آپ میں لکھنے کا شوق کہاں سے پیداہوا ؟
ج:گھر میں رسائل آتے تھے ۔ تحریکی بھی اور غیر تحریکی بھی ۔ اس وقت روزنامہ
تسلیم ہواکرتاتھا۔ تجلی رسالہ ، ترجمان ، ایشیا ان رسائل کو پڑھ کر کافی
ترغیب ملی۔ گھر کا ماحول ہی ایساتھابچپن سے مولانا مودودی کی کتابیں پڑھ
رہاتھا۔ اس زمانے میں داج کمپنی کتابیں شائع کیا کرتی تھی۔بس ان رسائل کو
پڑھ کر لکھنے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔
س:زمانہ طالب علمی میں طلباء سیاست میں رہے اس طرف کیسے آئے ؟
ج:والد محترم جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے ۔ خاندانی ماحول کچھ ایسا تھا۔
میں نے میٹرک ملت ہائی اسکول سے کیا۔ وہاں کے ہیڈماسٹر قمر سعید اﷲ خان
مرحوم وہ بھی جماعت اسلامی کے رکن تھے۔ یہی وہ دور تھا جب میں سیاست کی طرف
راغب ہوا۔ پھر لاہور آگیا۔ یہ سنہرا دور تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کا
ناظم رہا۔ مرکزی شوریٰ کا رکن بنا۔ ۱۹۷۰ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں
طلباء یونین کا صدر منتخب ہوا۔ زمانہ طالب علمی میں چار مرتبہ قید و بند کی
صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ شملہ معاہدہ کے خلاف احتجاج کرنے پر پہلی مرتبہ
گرفتاری ہوئی۔
س: تعلیم کہاں تک اور کہاں سے حاصل کی ؟
ج:میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامک سٹڈیز کیا۔ ایک دلچسپ واقعہ ہے
تیسری گرفتاری میرے پہلے ماسٹر کے امتحانات کے دوران ہوئی ۔ میرے دو پیپر
ہوچکے تھے ۔ گرفتاری ہوگئی۔ یہ اذیت ناک دور تھا۔ باقی پیپرز حوالات میں
ہوئے پھر بھی الحمدﷲ پوری یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔ یونیورسٹی کی طرف سے گولڈ
میڈل ملا۔ اﷲ کا کرم ہے کہ مجھے بی اے میں بھی گولڈ میڈل ملا ۔ میں نے
گورنمنٹ کالج میں ٹاپ کیاتھا۔
س: تعلیمی کیرئیر اتنا شاندار رہا محنتی تھے ؟
ج:اﷲ تعالیٰ کی مدد شامل حال رہی ہے۔ آج بھی طلباء سے نشستوں میں بار بار
کہتاہوں ۔ سب سے پہلے اپنے تعلیمی کیرئیر پر توجہ دیں ۔ اس زمانے میں ہم
کلاس بھی باقاعدگی سے لیتے تھے دوسری سرگرمیوں میں بھی سرگرم رہتے تھے۔
س:پہلی تحریر کب لکھی تھی ؟
ج: پہلی تحریر میں نے فسٹ ائیرمیں لکھی تھی ۔ جو لیٹرٹو ایڈیٹر روزنامہ
نوائے وقت میں شائع ہوئی تھی۔ اسی دور میں جب میں انٹر کا طالب علم تھا۔
ہفت روزہ آئین میں مضامین لکھنے شروع کیے۔ اسی زمانے میں اخبارات میں لکھنا
شروع کردیا۔ اُردو ڈائجسٹ میں افسانے بھی لکھے۔ میرا زیادہ مطالعہ سیرت
نبوی ؐ اور صحابہ کرام ؓ کے متعلق تھا تو دوستوں کی رائے بنی کہ صحابہ کرام
ؓ کے واقعات پر کتاب لکھی جائے۔ میں نے آئین میں مضامین کا سلسلہ شروع کیا۔
بیس صحابہ کرام ؓ کے حالات وواقعات پر مشتمل کتاب چھپی ’’روشنی کے مینار
‘‘یہ بہت مشہور ہوئی سینکڑوں ایڈیشن شائع ہوئے ۔ یہ میری پہلی کتاب تھی ۔
س:اب تک کتنی کتابیں لکھ چکے ہیں ؟
ج:الحمدﷲ ۴۰کے لگ بھگ کتابیں لکھ چکاہوں۔ جن میں سے تین سفرنامے ہیں۔(۱)
حضرت بلال کے دیس میں ۔(۲)نگری نگری پھر مسافر ، دیارغیر میں اپنوں کے
درمیان ۔چار افسانوں کے مجموعے ،دختر کشمیر ،سرسوں کے پھل ، سربکف سربلند ،اس
کے علاوہ عزیمت کے راہی ،تحفہ رمضان ، رسول رحمت ؐ تلواروں کے سائے میں ،
روشنی کے مینار ،روشن قندیلیں ، معجزات سرور عالم ؐ،سیرت مصطفی ﷺ،موتی ،
سالارکاراوں ،میرحجاز،دریچہ زنداں میں ، سکارف والی گڑیا (بچوں کی کتاب )
وغیرہ ۔
|
|
س:کتنے سال بیرون رہے کس سلسلے میں رہے ؟
ج:میں بارہ سال کینیا میں رہا اسلامک سنٹر کے لیے کام کیا۔ مولانا مودودی ؒ
کے حکم سے گیاتھا۔ ۱۹۸۵ء میں میاں طفیل محمدؒ کے حکم سے واپسی ہوئی۔
س:مولانا مودودی ؒ سے قربت رہی ہے؟
ج:جی ہاں یہ میری خوش بختی ہے۔ زمانہ طالب علمی سے مولانا کی محفلوں کا حصہ
رہاہوں۔ جب تفہیم القرآن جلد پنجم چھپ کر آئی تو مولانا کافی کمزور تھے۔
مجھے کہنے لگے تفہیم القرآن کا انڈیکس بنانا میری نظر آپ پر پڑی ہے۔ مولانا
نے مجھے کام سمجھایا ۔ میں نے کرکے دکھایا تو مولانا مودودیؒ کی شاگردی
کااعزاز حاصل کیا۔
س:بچوں کے لیے کتنی کتب شائع ہوچکی ہیں ؟
ج:ادارہ معارف اسلامی کے پاس بچوں پر کوئی کتاب نہ تھی۔ دوستوں کا اصرار
تھامیں نے انکار بھی کیا لیکن بھرپور اصرار کے بعد اب سکارف والی گڑیا کے
نام سے کتاب شائع ہوئی ہے۔ باقی سات آٹھ کتابیں تکمیل کے مراحل میں ہیں۔
دوستوں نے اچھی تجاویز دیں ہیں۔ میں نے کوشش کی ہے اﷲ قبول فرمائے۔
س:اچھی تحریر لکھنے کے لیے کیا کیا جائے ؟
ج:نفس مضمون جس کے بارے میں کوئی لکھنا چاہتاہے ۔ اس کے بارے میں یعنی اس
کے نشیب و فراز کا علم ہوناچاہیے۔ علمی موضوع ہے تو اس کا ماخذ معلوم ہونا
چاہیے۔ تحقیق ہونی چاہیے۔ زبان پر قدرت ہونی چاہیے۔ صرف الفاظ نہیں۔ محاورے
،اشعار کا موقع محل کے مطابق استعمال ہونے چاہیے۔ باقاعدگی سے لکھنا
چاہیے۔اس سے تحریر میں بہتری آتی ہے۔ لکھنے والے کے لیے مطالعہ بنیادی چیز
ہے۔
س:ادب کی موجودہ صورت حال کو کیسے دیکھتے ہیں ؟
ج:دیکھیں ہرچیز میں زوال ہے ادب پر بھی اثر پڑ رہاہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے
زبان کو خراب کرنے میں اتنا حصہ ڈالا ۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں ٹیکنالوجی کی
اہمیت اپنی جگہ کتاب کا کوئی نعم البدل نہیں۔
س:بچوں کے ادب کی صورت حال سے مطمئن ہیں؟
ج:ظاہر ہے بچوں کے ادب میں بہتری کی ضرورت ہے۔ اب تو ساری توجہ انگریزی کی
طرف ہے ۔ اُردو کو دیس نکالا کیاجارہاہے۔ انگریزی کی اہمیت سے انکار مگر
اُردو ہماری قومی زبان ہے۔ آپ بچوں کو اچھا ادب مہیا کریں ، قومی زبان میں
ان کو اصلاحی چیز یں دیں ،غیر محسوس طریقے سے ۔
س:بچپن میں شرارتی تھے ؟
ج:وہ بچپن ہی کیا جس میں شرارت نہ ہو ۔ ہاں مگر شرارتیں ایسی نہیں تھیں کہ
کسی کو تکلیف ہو۔
س:پسندیدہ شاعر کون ہیں ؟
ج:علامہ اقبال ؒ پسندیدہ شاعر ہیں۔ ان کے بعد ماہرالقادری ،الطاف حالی اور
موجودہ دور میں نعیم صدیقی ؒ ۔ |