سرور عالم راز‘ ایک منفرد اصلاح کار

تجربہ اور مشاہدہ‘ زندگی میں لازمے اور لوازمے کا درجہ رکھتے ہیں۔ کھوج اور غور و فکر کی عادت اور حس‘ تخیل کی بلند پروازی میں‘ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ شخصی اعتبار سے‘ اس کی مختلف سطحیں‘ نوعیتیں اور حیثیتں ہو سکتی ہیں۔

ایک شخص‘ دھن اکٹھا کرنے کی لگن میں ہوتا ہے‘ وہ ہر بات اور معاملے کو‘ دھن آمد کی عینک سے دیکھے گا۔

اقتدار دوست‘ سب پر سے گزر کر‘ کرسی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

حسن جمع کرنے والا‘ اڑیل سے اڑیل لڑکی کو‘ رام کر لے گا۔ اس نوع کی بیسیوں جہتیں ہیں۔ ان سب کی طرح‘ تخلیق کار کی‘ اپنی دنیا اور اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ وہ نئی اور الگ سے‘ تخلیق پیش کرنے کی فکر میں ہوتا ہے۔ یہ معاملہ‘ کوئی کل پرسوں سے تعلق نہیں رکھتا‘ یہ تو‘ ہمیشہ سے چلا آتا ہے۔ مارکونی کل پرسوں سے تعلق رکھتا ہے۔ آج شاید لوگ اسے زیادہ نہیں جانتے ہوں گے۔ ریڈیو کے بعد‘ وائرلس کی ایجاد سے موبائل فون تک آ جائیے‘ پتا نہیں‘ کیا کچھ نظر آئے گا۔ ان کی روح میں‘ مارکونی زندہ ہے‘ اور زندہ رہے گا۔

ادبی تخلیقات‘ سائنسی تخلیقات سے‘ کسی طرح کم حیثیت کی حامل نہیں ہیں۔ سماجی‘ معاشرتی اور سائنی معاملات کو‘ اظہار کی زبان‘ ان ہی کے حوالہ سے‘ میسر آتی ہے۔ پریکٹیکل اپنی جگہ‘ تھیوری کو‘ بھلا کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔

دیکھے‘ سنے محسوس کیے گیے یا پھر ردعمل کے انشراع کی خواہش کو‘ دبایا نہیں جا سکتا اور یہ دبنے کی چیز بھی نہیں۔ اسے جتنا دبایا جائے گا‘ یہ اسی تناسب سے ابھرے گی۔ یہ غیرفائدہ مند چیز نہیں۔ اس سے دوطرفہ فائدہ میسر آتا ہے۔ تخلیق کار کا‘ عدم انشراح کے باعث‘ فکری ہاضمہ خراب نہیں ہوتا۔ دوسری طرف قاری کے ہاتھ‘ ہاتھ ہلائے اور مشقت اٹھائے بغیر‘ حکمت اور سو طرح کے تجربات لگتے ہیں۔ موجود مسائل اور حالات و واقعات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ معاملات پر ردعمل کی کئی صورتیں سامنے آتی ہیں۔ عصری ضرورتوں کا علم ہوتا ہے۔ رویے سامنے آتے ہیں۔ گویا انشراح‘ ہر حوالہ سے‘ پرچے میں پہلا سوال لازمی‘ کی سی اہمیت‘ ضرورت اور حیثیت رکھتا ہے۔

انشراح کی دو ہی صورتیں رہی ہیں۔ بولار اور مقرر بول کر‘ من کا بوجھ ہلکا کر لیتا ہے۔ قلم کاغذ سے متعلق شخص لکھ کر‘ اپنے اندر اٹھنے والے طوفان کو‘ روک دینے کی سعی کرتا ہے۔ اس روک کی کوئی بھی‘ صنف بیان ہو سکتی ہے۔ یہ درست ہے‘ ہر جذبہ‘ خیال اور ردعمل اپنے ساتھ‘ اپنی زبان لے کر جنم لیتا ہے۔ اظہار کی نشت وبرخواست کے زیراثر‘ سننے والا اثر لیتا ہے۔ اظہار کا معیاری سلیقہ ہی‘ خوش گوار تاثر کا موجب بنتا ہے۔ اسی کے حوالہ سے‘ اس کی شدت سامنے آتی ہے۔ بڑے بڑے فکری انقلاب‘ اسی کا نتیجہ رہے ہیں۔ جنگوں کی جیت کا سبب بھی رہے ہیں۔ خوب صورت اور اعلی درجے کا پکوان‘ اگر طریقہ سلیقہ سے نہ پیش کیا گیا ہو‘ تو آدھے سے زیادہ ذائقہ‘ رفوچکر ہو جاتا ہے۔ معمولی پکوان کی عمدا پیش کش‘ اسے معمولی رہنے نہیں دیتی۔ گویا اظہار۔۔۔۔۔ خیال‘ لفظ اور استعمال سے نتھی ہے۔ ان تینوں کی کارگزاری کے زیر اثر‘ قاری یا سامع کی رائے بنتی ہے۔

لفظ کا استعمال‘ باقاعدہ ایک فن ہے۔ لکھنے اور بولنے والے پر‘ اس کی ناصرف تفہیم واضح ہونا ضروری ہے‘ بلکہ اس کے استعمال کا موقع محل کا بھی علم ہونا چاہیے۔ بہت سے‘ ہم معنی یا معنی قریب لفظ موجود ہوتے ہیں‘ وہاں کون سا لفظ استعمال کرنا مناسب رہے گا‘ اس امر سے آگہی ہی تو فن ہے۔ مشق بلاشبہ بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے‘ لیکن اس کے لیے کسی اچھے حرف کار سے متعلق ہونا‘ بھی لازمہءخاص ہے۔

شاعری نثر سے‘ ہٹ کر اور الگ تر فن ہے۔ شاعری‘ جہاں شعری اظہار کا سلیقہ ہے‘ وہاں آہنگ اور توازن کو بھی‘ کسی سطح پر‘ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عناصر ہر دو میں‘ تفریق و امتیاز کا سبب بنتے ہیں۔ آہنگ اور توازن کے بغیر‘ لطف میسر نہیں آسکتا۔ گویا ہر کہا گیا‘ بےسلیقہ اور بےطریقہ لطف اور اثر کے حوالہ سے‘ لایعنی سا رہے گا۔ کیا کیا جائے‘ بےسلیقہ اور بےطریقہ کہے پر‘ واہ واہ کرنے کا دور آ گیا ہے۔ یہ ہی نہیں‘ لفظ کے استعمال کرنے کے طور و اطوار کے جانو‘ رہے ہی کب ہیں۔ شعری اوازن سے آگاہ لوگ‘ خود کو عصر حاضر کے استاد کہنے لگے ہیں۔ اوازن سے آگاہی کافی نہیں‘ لفظ کا استعمال‘ اپنی جگہ اہیمیت رکھتا ہے۔ ایسے ہنرمند باقی نہیں رہے۔ تب ہی تو‘ بےسواد کلام کے مجموعے بازار میں چلے آئے ہیں۔ ایسے پر‘ کچھ لکھنے کے احکامات ملتے رہتے ہیں۔ بعض احکامات تو گراں گزرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے‘ اپنا آدمی ہے‘ ذرا ٹھوک کر اور بھرواں کرکے لکھ دیں۔ انکار ممکن نہیں ہوتا‘ لہذا وہاں‘ صرف متعلقہ شاعر کا نثری قصیدہ تحریر کرنا پڑتا ہے۔

اردو انجمن پر‘ عرصہ سے میرا آنا جانا ہے۔ یہ بڑے ہی‘ خوب صورت اور خوش خیال لوگوں کی دنیا ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر‘ شاعر اور نثر نگار سے ملاقات ہوتی ہے۔ یہاں آرا اور مشورے ہی دستیاب نہیں ہوتے‘ محبتیں بھی فکری کھیسے لگتی ہیں۔ سچی اور خدا لگتی بات تو یہ ہی ہے‘ کہ یہ لوگ‘ آسانی سے ملنے کے نہیں ہیں۔ اسماعیل اعجاز‘ تنویر پھول ‘ سرور عالم راز‘ عامر عباس‘ مشیر کاظمی‘ وی پی جی وغیرہ سے لوگ‘ کہاں اور کدھر ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا انداز ہے۔ جناب سرور عالم راز سے‘ میرا کافی پرانا ناسہی‘ ایک معقول عرصہ سے قلمی رشتہ ہے۔ وہ میری اٹکل پچو تحریروں پر‘ قلم اٹھاتے رہتے ہیں۔ یہ ان کی محبت ہے ‘جو میری ناچیز تحریروں کو‘ خاطر میں لاتے ہیں۔ وہ میری ہی نہیں‘ دیگراحباب کی تحریروں پر بھی‘ اپنی رائے دیتے رہتے ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے‘ کہ وہ لفظوں کے استعمال کا طور سکھاتے ہیں۔ انہیں لفظ کی اہمیت معلوم ہے۔ وہ لفظ کے استعمال کے سلیقے سے‘ خوب خوب ہیں۔

اکثر بہت خوب‘ ویری نائس‘ جاری رکھیں‘ سے کلمے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ جناب سرور عالم راز کا کمال یہ ہے‘ کہ وہ تحریر چھوٹی ہو یا بڑی‘ کا بڑی دل جمی‘ احتیاط اور محبت سے مطالعہ کرتے ہیں۔ پھر جو ان کی رائے بنی ہو‘ برملا اظہار کر دیتے ہیں۔ کسی کو‘ ان کی بات اچھے لگے یا بری‘ یہ الگ سے بحث ہے‘ تاہم ان کی آرا اوراصلاحیں‘ ہوتی بڑے کمال کی ہیں۔ اس خلوص اور دیانت داری سے‘ آرا اور اصلاحیں دینے والے کہاں رہ گیے ہیں؛ قحط کی سی صورت پائی جاتی ہے۔

اظہار خیال کے ضمن میں ان کا موقف بڑا واضح اور دل لگتا ہے۔ کہتے ہیں:
اردو انجمن میں بے لاگ اور بے تکلف تنقید ہوتی ہے۔ یہاں رسمی :واہ واہ: کا دستور نہیں ہے۔ لیکن اس تنقید سے کبھی بھی کسی کی تنقیص یا توہین ہرگز مقصود نہیں ہوتی ہے۔ یہ ایک دوستوں کی محفل ہے سو کسی بات کا کبھی برا نہ مانیں۔ آپ بھی بے تکلف لکھیں۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ دوسروں پر آپ اپنی بے لاگ رائے اورتبصرہ لکھیں۔ اس سے ہی نئی سوچ کی راہ کھلتی ہے۔

اب میں ان کی چند اصلاحیں پیش کرتا ہوں۔ ان کے مطالعہ سے‘ ان کے لفظوں کے استعمال کی ہنرکاری کا سلیقہ‘ کھل کر سامنے آجائے گا۔ انصاف کا تقاضا یہ ہی ہے‘ کہ میں بات کا آغاز اپنی ذات سے کروں۔ سب جانتے ہیں‘ میں شاعر نہیں‘ ماعر ہوں‘ اظہار خیال کے لیے الٹی سیدھی لکیریں کھنچ کر‘ دل کی بھڑاس نکال لیتا ہوں۔ نظم۔۔۔۔ میں نے دیکھا۔۔۔۔ کے بارے لکھتے ہیں:

آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ جب تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے پڑھے ہوئے مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں اور میں پھر نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں گرفتار ہو جاتا ہوں۔

اس سے کھلتا ہے‘ کہ وہ آزاد شاعری کے قائل نہیں ہیں۔ اظہار کا یہ سلیقہ پچیدگی پیدا کرتا ہے اور اس نظم کا قاری‘ فکری الجھاؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا۔۔۔۔ نظم ہے بھی یا نہیں‘ میں اس ذیل میں کچھ عرض کرنے سے قاصر ہوں۔

ساتھ میں‘ حوصلہ افزائی بھی کر دی ہے‘ تاکہ میں اپنی ماعری سے تائب ہو کر میدان ہی نہ چھوڑ جاؤں۔ انہوں نے‘ کسی حد تک سہی اس کے گوارا ہونے کے عنصر کی طرف‘ اشارہ بھی کر دیا ہے۔ ان کے ہر لفظ سے‘ شفقت اور محبت ٹپکتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا‘ اس سے بڑھ کر‘ رائے دینے کا طریقہ و سلیقہ رہا ہو گا۔

آپ کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا صرف ایک بار ہوا اور میں جلد ہی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ کی نظم پر دلسوزی اور خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا پیغام عام سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل اقتدار کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے ہیں کہ دینے والا تو کوئی اور ہی ہے۔

جواد صاحب کی غزل پر اظہار خیال فرمانے سے پہلے کے ابتدائی کلمے کچھ یوں ہیں:
آپ کی غزل سے ظاہر ہے کہ آپ کی مشق سخن پرانی ہے۔ نہ صرف مبادیات شاعری پر آپ کو عبور ہے بلکہ مضامین، بیان، زبان اور الفاظ و تراکیب کی نشست وبرخواست آپ کی مہارت کی غماز ہیں۔

داد میں اس سے بڑھ کر کلمے کیا ہوں گے۔

ایک شعر پر‘ کچھ اس طرح سے‘ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ بڑے باریک اور پوشیدہ سے انداز میں‘ نظر ثانی کرکے‘ تبدیلی کا مشورہ دیتے ہیں۔

آه و زاری بے کسی میں چھوڑ کر
ره رھے ھیں وه بڑے آرام سے
معاف کیجئے گا۔ اس شعر کا پہلا مصرع اپنے معنی میں بہت الجھ گیا ہے۔ قاری کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اگر نظر ثانی کر کے اسے بہتر اور زیادہ عام فہم کر سکیں تو اچھا ہوگا۔ کیا خیال ہے آپ کا؟
جواد صاحب کے مزید دو اشعار پر رائے ملاحظہ ہو:

ھم تحمل وصل کا کیسے کریں
مست ھیں جب ھجر کے آلام سے
"تحمل" اور وہ بھی وصل کا جب کہ آپ لذت ہجر سے سرشار ہیں؟ کچھ بات بنی نہیں جواد صاحب۔ اگر وضاحت کر دیں تو عنایت ہوگی کہ تحمل کا یہاں کیا محل ہے۔ شکریہ۔

رومی و جامی و سعدی نے کہا
عقل آتی ھے لبالب جام سے
یہ شعر تاثر دیتا ہے جیسے یہ بزرگ شاعر سب کے سب دخت رز کے متوالے تھے اور اسی کو عقل کا منبع جانتے تھے۔
بات نا مناسب بھی ہے اورانداز نگارش بھی جارحانہ ہے۔ میری رائے میں اس شعر کو نکال دیں یا اس پر محنت کر کے بہتر بنائیں۔

اصلاح کا یہ طور‘ بلاشبہ بڑا خوب صورت اور قابل تحسین ہے۔ اس انداز سے‘ اصلاح کا کام بھی ہو جاتا ہے‘ اور حوصلہ شکنی بھی نہیں ہوتی۔ یہ انداز دراصل سکھانے کا ہے۔

یوسف صاحب کے کلام پر دی گئی اصلاحیں ملاحظہ ہوں۔
آپ وزن میں کہیں کہیں غلطی کر جاتے ہیں۔ اس کا خیال رکھیں۔

بچھڑ کے تجھ سے جینا کوئی سہل بھی نہیں
سوائے ہجر کے اب اور کوئی حل بھی نہیں
پہلا مصرع ساقط الوزن (وزن سے خارج) ہے۔ ایک تو آپ وزن قائم نہیں رکھ سکے ہیں اور دوسرے :سہل: کو آپ نے ہ پر زبر کے ساتھ باندھا ہے جب کہ ہ ساکن ہے۔
سند میں میر تقی میر کا شعر درج کرتے ہیں:

مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اس کے بعد مشورہ دیتے ہیں:
یہ شعر اپ کو قافیہ بدل کر دوبارہ کہنا ہو گا کیونکہ اس وزن میں :سہل: نہیں لکھا جا سکتا ہے۔

اصلاح کا یہ انداز بھی ملاحظہ ہو:
تجھے تو مل ہی جائیں گے ہزاروں مجھ جیسے
بھرے جہاں میں تیرا تو کوئی بدل بھی نہیں
دونوں مصرعے وزن سے خارج ہیں۔ ایک شکل یہ ممکن ہے۔ دوسری آپ سوچئے:
ہزاروں مجھ سے تجھے مل ہی جائیں گے لیکن
بھرے جہان میں تیرا کوئی بدل بھی نہیں

بشری صاحبہ کے کلام پر اصلاح کے انداز کو دیکھیں۔

نہ پوچھو ہم سے تم کیا چاہتے ہیں
درِ کعبہ کو ہم وا چاہتے ہیں

اچھا شعر ہے۔ :ہم سےتم: کی الجھن دور ہو سکتی ہے اگر یوں کہیں کہ : نہ پوچھیں آپ ہم کیا چاہتے ہیں۔ اس طرح مصرع نسبتا صاف ہو جاتا ہے۔


کہ جھانکیں ہم جو نیچے تو فلک ہو
مقام ایسا بنایا چاہتے ہیں

اول تو :کہ: سے شعر شروع نہ کیا جائے تو بہتر ہے،
دوسرے یہ کہ پہلے مصرع میں بھرتی بہت ہے۔ یہ کم ہوجائے تو اچھا ہے۔
دوسرے مصرع میں :بنایا چاہتے ہیں: کے معنی ہوئے کہ :بنانے ہی والے ہیں: گویا ہم فلک سے اوپر پہنچ چکے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ :بنانا: کہنا چاہتی ہیں۔ سو ایک صورت یہ ممکن ہے۔ دوسری آپ سوچ ہی لیں گی:
فلک آئے نظر جو نیچے جھانکیں
مقام ایسا بنانا چاہتے ہیں

حسیں ہوتے ہیں سب ہی ایک جیسے
کوئی بھی ہو تمھی سا چاہتے ہیں

کیا آپ اپنے محبوب کے علاوہ کسی اور کو چاہتی ہیں؟ شعر سے تو یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ حسیوں میں سے کوئی بھی مل جائے فرق نہیں پڑتا کیونکہ سارے حسین ایک سے ہی ہوتے ہیں۔۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر محبوب کی ضرورت ہی کیا ہے؟

کریں ساری خدائی کو مسلماں
جہنم کو بجھانا چاہتے ہیں

قویٰ اب مضمحل ہونے لگے ہیں
قفس میں ایک موکھا چاہتے ہیں

قفس تیلیوں سے بنایا جاتا ہے اور ہر دو تیلیوں کے درمیان ایک :موکھا: موجود ہوتا ہے سو قفس میں موکھا چاہنا بے معنی ہے۔ دوسرے یہ کہ کون سے قوی مضمحل ہورہے ہیں جس کا ازالہ موکھے کی سہولت سے ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ موکھے سے صرف دیکھا جا سکتا ہے۔ سو اول تو تیلیوں کا فاصلہ یہ سہولت مہیا کرتا ہے دوسرے اگر آنکھیں کمزور ہو گئی ہیں (اور کوئی قوی قفس کے اندر کام کے نہیں ہیں) تو موکھے کی فراہمی کے بعد بھی باہر کا منظردھندلا ہی نظر آئےگا۔ میری رائے میں شعر پرنظر ثانی ضروری ہے۔

عدو تیرے کو ہم دشمن ہی سمجھیں
رقیب اپنے کو ہم کیا چاہتے ہیں

:عدو تیرے: اور :رقیب اپنے: محاورہ نہیں ہے بلکہ غیر فصیح ہے اور پڑھنے میں بھی عجیب لگتا ہے۔ پہلا مصرع :ترے دشمن کو ہم دشمن ہی سمجھیں: کیوں نہیں کہہ سکتی ہیں؟ ایک سوال یہ ہے کہ کیا محبوب کا دشمن آپ کا رقیب ہے؟ اور ہے تو کیسے؟ آپ کا رقیب تو وہ ہو گا جو آپ کے محبوب کا عاشق ہو۔ یا میں شعر غلط سمجھ رہا ہوں؟

درج کی گئی مثالیں‘ اس امر کو واضح کرتی ہیں‘ کہ شعری اسلوب و اطوار‘ شعری زبان اور اس کے لسانیاتی توازن کے حوالہ سے‘ جناب سرور عالم راز کس پائے اور درجے کے عالم ہیں۔
الله انہیں صحت و توانائی کے ساتھ سلامت رکھے۔
١ ستمبر ٢٠١٤
 

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 175088 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.