کسی سے پوچھا گیا کہ اچھے دوست کی نشانی کیا ہے اسنے جواب
دیا کہ کھانا کھلائے تو مگر کھلوانے کی ضد نہ کرے۔
کھانے کی صلاح وہ چیز ہے جس کے لئے نہ کہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ
انسان کا پیٹ ہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسی نے زندگی کا
چکر چلایا ہوا ہے اگر یہ پاپی ہر وقت طلب نہ کرتا تو زندگی کی گاڑی اسطرح
نہ چلتی جس طرح آج چل رہی ہے۔ کیونکہ اسکی طلب اور اسکے لئے رسد نے ہی ہر
ایک کی زندگی میں بکھیڑے ڈال رکھے ہیں اور یہ رسد تادم قبر جاری رکھنی ہی
پڑتی ہے۔ بات شروع ہوئی تھی کھانے کی صلاح سے آج کے مہنگائی کے دور میں
صلاح مارنا اور یہ سوچن کہ سامنے والا ہاں نہیں کردے گا بے وقوفی ہے کیونکہ
کھانے کے لئے ہاں تو منہ میں ہی ہوتی ہے اور یہ بات بھی ہے کہ ناًں جیسی بے
وقوفی کرنی بھی نہیں چاہئے۔
کھانے کی جب بات آئے اور لاہوریوں کا ذکر نہ آئے یہ ہو نہیں سکتا اور بطور
خاص لاہور والوں کو ہی چٹورا اور کھانے کا شوقین کہا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ
ہے کہ دنیا کہ کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپکو مختلف ذائقوں کے مداح ضرور
ملیں گے۔ کہیں سوشی تو کہیں برگر، کہیں چائینز تو کہیں تھائی کوئی نہ کوئی
آئتم کسی نہ کسی کا پسندیدہ ضرور ہوتا ہے۔ کھانا کھانے کے لئے صرف دوچیزوں
کا ہونا ضروری ہے ایک کھانا اور دوسرا کھانا کھانے والا۔ پہلے والے کو بھی
آج کے دور میں سلامتی کا اتنا ہی خطرہ لاحق رہتا ہے جتنا کہدوسر والے کی
جان کو خطرہ لگا رہتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ جو بھی قیمتی چیز ہوگی اسکو
خطرہ تو درپیش ہوگا ہی۔
کھانا اگر نہ ہوتا تو آج بہت سے پیشے بھی نہ ہوتے ڈاکٹروں کا کاروبار زندگی
اکثریت کی خوش خوراکی کی وجہ سے ہی تو چل رہ ہے اسی طرح شیفس کا وجود بھی
تو خوراک کے دلدادہ لوگوں کی وجہ سے ہی ممکنہ طور پر وجود میں ہے۔
ریسٹورنٹس کے مالکان ہوں یا بہت چھوٹے درجے پر کھانا بزنس کرنے والے انکو
اس بات کا یقین ہے کہ اگر انسان اتنا نہ کھاتے تو وہ کاروبار کیسے کرتے۔
اسی طرح بے شمار ڈبہ بند یا پیکٹس بند پراڈکٹس اسی وجہ سے تو چل رہی ہیں کہ
انکی شکار بھی تو بہت سی عوام موجود ہے اسی وجہ سے تو انکا دال دلیہ چل
رہاہے۔ یہ اور بات ہے کہ منافع کی وجہ سے دال دلیہ خاصا شاہانہ قسم کا چل
رہا ہے۔
گھر والی کی ضرورت بھی تو کھانے کی وجہ سے ہی پڑتی ہے روز روز نہ تو باہر
کا کھانا کھایا جاتا ہے نہ تو پیٹ اتنا بوجھ اٹھا سکتاہے نہ بیوی۔ آخر کو
بیوی وہ واحد باورچی ہے جس کے کھانے کی برائی جتنی بھی کیوں نہ کر لی جائے
وہ برتن اٹھا کر منہ پر ماردینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی اسی لئے تو اسکو
خواہ کھانا بنانے پر کچھ بھی کہہ لیا جائے اور آس پاس سے کوئی خطرناک
ہتھیار جیسے کہ چھری وغیرہ بھی نہ ہٹائی جائے تو فرق کوئی نہیں پڑتا اور
ٹینشن لینے کی تو کوئی بات ہی نہیں۔کینوکہ یہ باورچی کہیں بھاگ بھی نہیں
سکتا۔
کھانے کی لزت اسوقت مزید بڑھ جاتی ہے جب کھانا خود نہ کھنا پڑے بلکہ کسی کی
طرف سے کھلانے کو مل جائے تو کھنا کی قدر اور مقدار میں آضافہ کرنے کا جی
ضرور چاہتا ہے۔ اب یہ موقع محل اور کھلانے والے کی جیب پر منحصر ہے کہ
اضافہ کس حد تک کیا جاسکتا ہے۔ آخر کو دل گردہ جیب کا سائز سبکا یکساں نہیں
ہوتا اسی لئے اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا بھی یقینی ہے۔
ویسے تو خوشی کا کوئی بھی تہوار ہو اسوقت یہ تو ضرور ہوگا کہ کھانے کا ذکر
اور وجود ضرور ہو اور اب تو خاص طور پر جو موقع سر پر بس آیا ہی چاہتا ہے
اسوقت تو کھانا کھانا اور مزید کھانا ہی ہوگا اور قصاب اور پڑھے لکھے قصاب
-ڈاکٹر۔ کا سیزن تو اس وقت عروج پرہونے والا ہے۔ مگر عید یہ تو خاصطور پر
انکو کھالنے کے لئے ہے جو پورا سال کھا نہیں سکتے۔
سو اس مقصد سے منہ موڑنا اس کو ناراذ کرنے کا با عث ہو گا جو کہ سبکو کھانا
دیتا ہے۔
|