عیدالاضحیٰ کا دن ہمارے لیے انتہا سے زیادہ اہم ہے۔ ہماری
روشن تاریخ کا ایک ایک زریں باب اسی عظیم دن سے وابستہ ہے۔ یہ دن ہمیں وہ
عظیم واقعہ یاد دلاتا ہے، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے اشارے
پر اپنے جگر پارے کے حلقوم پر چھری رکھ دی تھی۔ صرف اﷲ کی رضا کی خاطر اور
اس کے حکم کی تعمیل میں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ
اپنے بیٹے کو خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کر رہے ہیں۔ اس خواب کو انہوں نے اﷲ
تعالیٰ کی طرف سے اس بات کا اشارہ سمجھا کہ وہ بیٹے کی قربانی چاہتا ہے۔
چنانچہ انہیں ایک لمحہ تردد نہیں ہوا۔ البتہ بیٹے کو اس اجر میں شریک کرنے
کے لیے کہ تنہا باپ کا اجر نہ ہو بلکہ بیٹا بھی اس اجر میں شریک رہے۔ انہوں
نے بیٹے سے ذکر کیا کہ بیٹا میں نے یہ خواب دیکھا ہے۔ بیٹا، انتہائی سعادت
مند بیٹا، فوراً تیار ہوگیا۔ اس نے اپنی گردن پیش کردی۔ کہا : ’’اے میرے
والد محترم! آپ ایک لمحہ کی تاخیر نہ کیجئے، آپ ہمیں صبر وعزیمت کا پیکر
پائیں گے‘‘۔ چنانچہ انہوں نے بیٹے کو لٹا دیا اور اس کی گردن پر چھری رکھ
دی۔
|
|
یہ دن ہمیں اسی عظیم واقعہ کی دلاتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ عبدیت کیا چیز ہوتی
ہے۔ رب کی بندگی کیا چیز ہوتی ہے اور جب بندہ اپنے رب سے بندگی کا عہد کرتا
ہے تو اس کا مطلب کیا ہوا کرتا ہے۔ یہ دن ہمیں وہ عظیم واقعہ یاد دلاتا ہے
جب اﷲ تعالیٰ نے اس مثالی بندگی اور بے مثال سرفروشی سے خوش ہوکر قربانی کی
سنت کو قیامت تک آنے والے تمام اہل ایمان کے لیے سنت قرار دے دیا۔ تمام اہل
ایمان کے لیے سنت قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت
اسماعیل علیہما السلام سے ایک چھوٹی سی زندگی، ایک محدود زندگی طلب کر کے
ایک ایسی ابدی اور سرمدی زندگی عطا فرمائی جو عزت و کرامت کی انتہا پر ہو۔
آج زمین کے چپے چپے پر جہاں بھی مسلمان آباد ہیں، جہاں بھی قربانی ہورہی ہے،
وہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے نام گونج رہے ہیں۔ یہ
عزت اور یہ سرفرازی اسی قربانی کا نتیجہ ہے جو انہوں نے اپنے رب کے لیے پیش
کی۔ قربانیو ں کا یہی مزاج ہوا کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربانی پیش
کرنا کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ کو اس سے زیادہ کوئی چیز پسند
نہیں۔چنانچہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے جب پے در پے قربانیاں پیش
کیں اور قربانیوں کا ایک سلسلہ لگا رہا تو اس کے نتیجے میں اﷲ تعالیٰ کی
رحمتیں ان کے اوپر جھوم جھوم کر برسیں اور پھر وہ عزت، وہ قوت، و ہ سطوت،
وہ کرامت عطا کی جو شاید انہوں نے کبھی سوچی بھی نہ ہوگی۔ پوری زمین میں ان
کو غلبہ عطا کیا اور ان کے ذریعہ سے زمین کو امن کا گہوارہ بنادیا اور
انہیں ہمیشہ کے لیے لافانی کردیا۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے جو
قربانیاں پیش کی تھیں ان ہی قربانیوں کا یہ ثمرہ تھا کہ اسلام کو انتہائی
محدود مدت میں ایسا عظیم اقتدار، ایسا ملک عظیم حاصل ہوا جس کی تاریخ میں
کوئی مثال نہیں ملتی۔
|
|
یہ دن ہمیں وہ عظیم واقعہ یاد دلاتا ہے جب اس قربانی کے نتیجے میں حضرت
ابراہیم علیہ السلام کو سارے انسانوں کی امامت کا تاج پہنایا گیا۔ اﷲ تعالیٰ
نے اس عظیم قربانی کے پیش کرنے کے بعد فرمایا: ’’میں تمہیں تمام انسانوں کا
امام بناتا ہوں‘‘۔ اور اسی امامت کی علامت اور نشانی کے طور پر انہیں اس
بات کا حکم ملا کہ وہ بیت اﷲ کی تعمیر کریں۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کریں، خانہ
کعبہ ایک طرف اﷲ تعالیٰ کی بندگی کا مرکز ہے، دوسری طرف حضرت ابراہیم اور
حضرت اسماعیل علیہما السلام کی قربانیوں کی یادگار ہے۔ چنانچہ اس کو بیت اﷲ
بھی کہتے ہیں اور مقام ابراہیم بھی کہتے ہیں۔ وہ مقام ابراہیم بھی ہے، بیت
اﷲ بھی ہے۔
یہ دن ہمیں وہ عظیم واقعہ یاد دلاتا ہے جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل
علیہما السلام نے خانہ کعبہ کی بنیادیں چنتے ہوئے امت مسلمہ کے لیے دعا
فرمائی تھی۔: جس وقت وہ خانہ کعبہ کی بنیادیں چن رہے تھے ان کی زبانو ں پر
یہ کلمات جاری تھے کہ ’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بندگی کے جذبے سے سرشار
کردے اور ہماری نسل میں ایک امت مسلمہ کو وجود بخش۔ اس سے پہلے کتنی ہی
قومیں آتی رہیں، کتنی ہی قومیں آئیں اور چلی گئیں، کتنے انبیاء کی قومیں
آئیں اور گئیں، لیکن انہیں امت مسلمہ ہونے کا شرف نہیں حاصل ہوا، انہیں امت
مسلمہ کا لقب نہیں دیا گیا۔ ہم بھول گئے کہ امت مسلمہ کیا چیز ہے، امت
مسلمہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح کوئی ایک قوم نہیں ہے، امت مسلمہ کیا ہے،
اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
|
|
یہ امت مسلمہ عام قوموں کی طرح کوئی قوم نہیں بلکہ یہ وہ امت ہے جس کا ان
بزرگوں نے خواب دیکھا تھا، جس کی انہوں نے آرزو کی تھی۔ یہ وہ امت ہے جو
اصولوں اور نظریات کی امت ہو، جو اپنے سامنے ایک عظیم مقصد رکھتی ہو ، اس
مقصد کے لیے جینا اور مرنا جانتی ہو، اس مقصد کے لیے اپنا سب کچھ لٹانا
جانتی ہو، وہی مقصد اس کا اوڑھنا بچھونا ہو، وہ وہ کام کرے جو انبیاء کرام
علیہم السلام کے کرنے کا کام ہے۔ چنانچہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ امت مسلمہ اس
وقت وجود میں لائی گئی جب ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور جب
یہ امت مسلمہ وجود میں آگئی تو پھرنبیوں کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ وہ کام جو
اﷲ تعالیٰ نبیوں اور رسولوں کے ذریعے لیتارہا ہے اس امت کے ذمے کردیا گیا۔
اس کا مطب یہ ہے کہ یہ امت مسلمہ جو اس زمین پر پائی جاتی ہے یہ عام قوموں
کی طرح کی کوئی قوم نہیں ہے، جو اپنی خواہشات کے پیچھے، اپنے جذبات کے
پیچھے ، اپنی تمناؤں کے پیچھے، اپنے آپ کو برباد کرے، اپنی طاقتو ں اور
اپنی توانائیوں کو ضائع کرے، اپنے وسائل و ذرائع کو برباد کردے، یہ امت وہ
امت ہے جو ایک عظیم فکر کی حامل ہے، جو اپنے رب کی طرف بلانے والی ہے، اس
زمین پر اﷲ کی پیغامبر ہے، نور کی پیامی ہے، جس کا کام یہ ہے کہ زمین میں
جہاں جہاں تاریکی دیکھے اس کو دور کرے، جگہ جگہ ایمان کی شمعیں روشن کرے،
لوگوں کو اﷲ سے جوڑے، اﷲ سے قریب کرے، وہ اسی کام کو اپنا اوڑھنا بچھونا
بنالے۔ قربانی کے موقع پر آپ جو دعا پڑھتے ہیں:۔۔۔ ’’میری نماز بھی، میری
قربانی بھی،میرا مرنا بھی ،میرا جینا بھی صرف اﷲ کے لیے ہوگا جو رب
العالمین ہے‘‘۔ ہمارا مرنا اور جینا اﷲ کے لیے ہوگا اس کا کیا مطلب ہے؟ اس
کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی خاطر نہیں جئیں گے، اپنی خواہشات کی خاطر نہیں
جئیں گے، ہمارے اپنے کوئی مقاصد نہیں ہوں گے، ہمارا مقصد بس یہ ہوگا کہ
اپنے رب کے پیغام کو عام کریں، ہمارا مقصد بس یہ ہوگا کہ ہم اس دین کو عام
کریں جو اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے اور جس کے بارے میں اسی نے فرمایا ہے:‘‘
دین تو اﷲ کے نزدیک بس اسلام ہے‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کی یادگار کے طور پر یہ دن منایا جاتا ہے، ان
کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا ہے: ’’ان ا براہیم لحلیم اواہ منیب‘‘۔
’’ابراہیم حد سے زیادہ بردبار تھے‘‘۔ حد سے زیادہ ان کے اندر دردمندی تھی،
حد سے زیادہ اپنے رب سے لو لگانے والے تھے۔ اگر یہاں پر ظلم و جبر ہے،
زیادتیاں ہیں اور ساری برائیاں پائی جاتی ہیں تو وہ برائیاں صرف اس وجہ سے
ہیں کہ ہم میدان سے غائب ہیں، ہم نے اپنے کام کو یاد نہیں رکھا اور اس کام
کے لیے ہم نے حرکت نہیں کی۔ اس کے لحاظ سے کوئی سنجیدہ اور اہم فیصلہ کرنے
کے لیے تیار ہوں۔ جب جانور کی قربانی کریں، تو اس قربانی میں آپ سنجیدہ ہوں،
اس کے لحاظ سے اپنی زندگیوں کو بدلیں، اپنے کاموں کو بدلیں، اپنے پروگراموں
کو بدلیں، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خوابوں کی تکمیل کے لیے جدوجہد
کریں۔ |