خوفو کا عجیب و غریب مقبرہ٬ حیرت انگیز حقائق

خوفو نہ تو جنگجو تھا اور نہ ہی فاتح‘ اس نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کوئی خاص کام نہیں کیا۔ وہ قانون ساز یا عالم بھی نہیں تھا لیکن خوفو نے اس بات کا اہتمام ضرور کیا کہ ہزاروں سال گزرنے کے بعد جب ان گنت بادشاہوں اور شاہی خاندانوں کا نام مٹ جائے تو لوگ اِسے یاد رکھیں۔

اس نے ایک مقبرہ تعمیر کیا‘ ایسا پرشکوہ کہ انسانی ہاتھ اس سے بہتر شاید ہی کوئی دوسرا بناسکے۔ یہی شاہکار اِسے نقش دوام دے گیا۔ خوفو کا ہرم دریائے نیل کے مغربی کنارے سے پانچ میل دور الجزیزہ (Giza) نامی گاؤں کے قریب واقع ہے۔ یہ ہرم گویا ایک مصنوعی پہاڑ ہے۔ خوفو نے اسے ’’اخت‘‘ یعنی ’’عظیم الشان‘‘ کا نام دیا۔ یہ نام اس عمارت کی تعمیر کے پچاس صدیوں بعد بھی ہرم پر موزوں بیٹھتا ہے۔
 

image


خوفو کو تاریخ کا حصہ بنے پانچ ہزار سال گزر چکے۔ وہ مصر کا مشہور فرعون گزرا ہے۔ اس کا دور حکومت ۲۹۰۰سے ۲۸۷۵ قبل از مسیح رہا۔ مطلب یہ کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کے وزیر کی حیثیت سے کام کیا تو یہ ہرم کافی قدیم ہو چکا تھا۔ وہ یقیناً اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اُسے دن کے وقت دمکتے اور رات کو ستاروں سے باتیں کرتے دیکھتے ہوں گے۔

ہرم کے قریب ایک معبد بھی تھا جہاں پروہت دن رات اس بادشاہ کی مناجات کیا کرتے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں یہ ہرم آج کی نسبت زیادہ اونچا تھا۔ کیونکہ گزشتہ صدیوں میں اس ہرم کے پتھر قلعہ قاہرہ اور محل تعمیر کرنے میں استعمال کر لیے گئے۔ نرم چونے کے پتھروں یا پالش کیے ہوئے گرینائٹس نے اس کی بالائی سطح کو ڈھکا ہوا تھا لیکن اب ان کا بھی وجود باقی نہیں۔

اس کی ٹوٹی پھوٹی سطح اب بھی متاثر کن ہے۔ ماضی میں ہرم۴۸۱ فٹ بلند تھا۔ اب اس کی بلندی ۴۵۵ فٹ رہ گئی ہے۔ اس کے نچلے حصے کی چوڑائی ایک سے دوسرے کونے تک ۵۶ فٹ ہے۔ اس کا رقبہ ساڑھے بارہ ایکڑ ہے۔ اس کی تعمیر میں پتھر کے ۲۳ لاکھ بلاک استعمال کیے گئے۔ ہر پتھر کا وزن اڑھائی ٹن کے قریب ہے۔ وقت اور انسان کے ہاتھوں شکست و ریخت کے باوجود اس کا رقبہ ۸ کروڑ ۵۰ لاکھ مربع فٹ تک پہنچتا ہے۔

یہ دیوہیکل عمارت کوئی مندر نہیں کہ دیوتاؤں کی عظمت کا ثبوت پیش کرے۔ یہ شاہی دربار یا دفاعی نوعیت کی عمارت بھی نہیں‘ صرف ایک مقبرہ ہے۔ پھر بھی خوفو اپنے محل کی کھڑکیوں سے اسے تعمیر ہوتا دیکھ کر یقینا بہت خوش ہوتا ہو گا۔ تاہم خوشی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ فن تعمیر کی محبت نے اسے یہ عظیم عمارت بنانے پر اکسایا ‘بلکہ اس کو بنانے سے اسے احساس تحفظ ملا۔

یہ تحفظ کسی عام دشمن سے نہیں تھا کیونکہ اس کی افواج شام یا عرب سے حملہ آور ہونے والے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھیں۔ لیکن ایک دشمن ایسا تھا جس کے خلاف کوئی ڈھال کارگر نہ تھی۔ جسے بڑے سے بڑا عظیم لشکر بھی شکست نہیں دے سکتا تھا… اور وہ دشمن موت تھی۔اُسے بخوبی علم تھا کہ سب انسانوں کی طرح فرعون بھی فانی ہیں۔ وہ دن قریب ہے جب اس کی تمام شان و شوکت اور جاہ و جلال ختم ہوگا اور وہ محض ایک لاش بن جائے گا۔
 

image

لیکن وہ موت کو بھی شکست دینا چاہتا تھا۔ اُسے دھوکا دینے کا ایک طریقہ تھا۔ مقدس کتابیں اس کے بارے میں بتاتی تھیں۔ یہ فارمولا چند پروہتوں کو معلوم تھا… ایسے گُر جو اتنے کارگر تھے کہ ان کی مدد سے روح کو جسم سے نکلنے کے بعد محفوظ کیا جا سکتا تھا۔

قدیم مصر کی دینیات عجیب و غریب ہے جسے اس کی تمام تر پیچیدگیوں اور گہرائیوں کے ساتھ شاید کبھی نہ سمجھا جا سکے۔ مصریوں کاعقیدہ تھا کہ جب تک کسی چیز کا جسم محفوظ ہے‘ تب تک دیوتا روح کو سورج کے نیچے زندہ رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اسی لیے فرعون اور دوسرے عظیم لوگ اپنی لاش کو گلنے سڑنے سے بچانے کی بھرپور کوششیں کرتے۔ اس سلسلے میں عجیب و غریب طریقے استعمال کیے جاتے۔ بعدازاں لاش کو ایسی جگہوں پر چھپا دیا جاتا جہاں اس کا سراغ نہ لگایا جا سکے۔

اہرام کی تعمیر کے عظیم دور میں یہ رسم تھی کہ ہرم کے وسط میں فرعون کی لاش ایسے کمرے میں رکھتے جسے ایک چٹان تراش کر بنایا جاتا۔ اپنے مقبرے کی تعمیر ہر بادشاہ کی بنیادی دلچسپی بن جاتی۔ وہ بادشاہ بنتے ہی اس کی تعمیر شروع کرتا اور اپنے دور حکومت میں جاری رکھتا۔ اس کی خواہش ہوتی کہ ہرم کی تعمیر کا کام اپنی زندگی ہی میں مکمل ہو جائے۔ یوں اُسے ابدی آرام کی جگہ مل سکتی تھی جہاں اس کا وجود کسی نہ کسی طرح باقی رہتا۔

جب فرعون مرتا تو اس کی لاش کو ممی بنانے والے گروہ کے حوالے کر دیا جاتا۔ وہ مقدس فارمولے کے مطابق یہ کام انجام دیتا۔ لاش دفناتے وقت مختلف رسومات ادا کی جاتیں۔ اس موقع پر قدیم مصری دیوتا اور سیرس کی عبادت ہوتی جسے قتل کر دیا گیا تھا۔ لیکن جو جادوئی عمل کے ذریعے زندہ ہو گیا تھا۔مصریوں کا اعتقادتھا، پھر وہ ان لوگوں کو زندگیاں دینے لگا جو اس کی عبادت کرتے اور جن کی ممی ایک خاص طریقے سے بنائی جاتی۔

ممی کو ایک سرنگ کے ذریعے ہرم کے اندر بنائے گئے کمرے تک پہنچایا جاتا۔ لاش کو سنگی تابوت میں رکھا جاتا۔ اس کے ساتھ کھانا، پانی، نہانے دھونے کا سامان، جادو کی چھڑی اور دشمنوں و سانپوں سے بچانے کے ٹوٹکے رکھے جاتے۔ پھر گہری سرنگ کو ریت اور بجری سے اس طرح بھرا جاتا کہ کوئی اس کا سراغ نہ لگا سکے۔

خوفو نے اپنی حکومت کے ابتدائی دور ہی میں عظیم ہرم کی تعمیر کا حکم دیا اور حکومت کی کل آمدن کو اس واحد مقصد کی تکمیل پر لگا ڈالا۔ یہ مقصد کیا تھا؟ دنیا کی عظیم ترین عمارت تلے ایک چھوٹے سے کمرے میں ممی بن کر ختم ہوجانا، جب کہ روح دنیا کی بھول بھلیوں میں بھٹکتی پھرے۔
 

image

خوفو کی موت کے دو ہزار سال بعد عظیم یونانی مورخ‘ ہیروڈوٹس نے مصر کا سفر کیا۔ اس نے پروہتوں سے خوفو کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ پروہتوں نے بتایا کہ خوفو ایک مکار انسان تھا جس نے تاج و تخت سنبھالتے ہی دیوتاؤں کے سامنے ہونے والی تمام قربانیاں بند کرا دیں اور معبدوں پر تالے ڈلوا دیے۔ پھر لاکھوں لوگوں کو اپنے مقبرے کی تعمیر کے لیے جبری بھرتی کر لیا۔

مقبرے پر کام کرنے والے ایک لاکھ مزدور دس دس ہزار کے گروہوں یاجتھوں کی شکل میں کام کرتے۔ ہر گروہ ایک وقت میں تین ماہ کام کرتا۔ پتھروں کو ہرم تک لانے پر دس سال صرف ہوئے۔پتھروں کی کانیں دریائے نیل کے دوسری طرف واقع تھیں۔ بڑے بڑے پتھروں کو سڑک کے ذریعے دریا تک لایا جاتا۔ سیلاب آتا تو مزدور انھیں کشتیوں سے اس چٹان کے قریب پہنچاتے جہاں ہرم کی تعمیر جاری تھی ۔

پتھر پھر اُن سیڑھیوں کے ذریعے اوپر لے جائے جاتے جن کی تعمیر پر بجائے خود دس سال کا عرصہ لگاتھا۔ وہ بھی عظیم ہرم کی طرح حیران کن تھیں۔ یوں پتھر اس سطح مرتفع تک پہنچ جاتے جہاں ہرم کی تعمیر ہونا تھی۔ ہرم کی تعمیر میں بیس سال کا عرصہ صرف ہوا۔ اسے تین فٹ لمبائی کے پالش کیے ہوئے پتھروں سے بنایا گیا۔ ان پتھروں کو اتنی نفاست سے جوڑا گیا کہ یہ جوڑ ایک انچ کے ہزارویں حصے تک درست ہیں۔

یہ یاد رہے ہرم خوفو کا شمار دنیا کے قدیم سات عجائبات عالم میں ہوتا ہے۔ اور یہ واحد عجوبہ ہے جو اب تک قائم و دائم ہے۔ یہ ۳۸۰۰ سال تک روئے ارض پہ انسان ساختہ بلند ترین عمارت رہی۔ تاایںلندن میں۱۳۱۴ء میں اولڈپالزکیتھڈریل تعمیر کر لیا گیا۔اس کی بلندی ۴۸۹خوفو کے عظیم مقبرے سے ہٹ کر اس کی ذات کے بارے میں ہمیں زیادہ معلوم نہیں۔ خیال ہے کہ وہ کسی بادشاہ کی اولاد نہیں تھا‘ بلکہ وسطی مصر کے ایک گھرانے سے اس کا تعلق تھا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پیش رو، سن فیرو کے توسط سے اس مقام تک پہنچا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے ایک درباری یا جنگجو کی حیثیت سے تخت و تاج پر قبضہ کر لیا ۔

خوفو کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ اس نے مقبروں کا ایسا ڈیزائن روشناس کرایا جسے دوسروں نے بھی نقل کیا۔ وہ مقبرے نہیں بلکہ ہرم کے تکونے ڈیزائن کا بانی تھا۔اس کی یہ کامیابی تاریخ کا حصہ بن چکی۔

ماضی میں مشہور تھا کہ ہرم خوفو میں خزانے دفن ہیں۔ اسی لیے خلیفہ مامون الرشید نے اس میں سوراخ کرا کے اندر تک جانے کا راستہ تیار کرایا ۔لیکن جب وہ اس کمرے میں پہنچے جہاں فرعون کی لاش ہونی چاہیے تھی تو وہاں سرخ گرینائٹ کا تابوت چمک رہا تھا۔ اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اُس میں سے لاش غائب تھی۔

(بشکریہ - اردو ڈائجسٹ)
YOU MAY ALSO LIKE:

The Great Pyramid at Giza, also called Khufu's Pyramid or the Pyramid of Khufu, and Pyramid of Cheops, is the oldest and largest of the three pyramids in the Giza Necropolis bordering what is now Cairo, Egypt, and is the only remaining member of the Seven Wonders of the Ancient World.