افلاطون کے تنقد شعر کے متعلق
نظریات کو‘ بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ وہ ناصرف حظ کی اہمیت سے آگاہ تھا‘ بلکہ
خود بھی تخلیقی صلاحتیں رکھتا تھا۔ وہ شعر کی اثر آفرینی سے‘ آگاہ ہونے کے
ساتھ ساتھ‘ خود بھی شاعر تھا۔ اس نے اپنے استاد کے زیر اثر‘ اپنا کلام تلف
کر دیا‘ اور شاعری کی مخالفت کا علم اٹھایا۔ اس کے نزدیک شاعر پست اور منفی
جذبات ابھارتے ہیں۔ شاعری لاقانونیت کو جنم دیتی ہے۔ وہ شاعری کو‘ لاشعوری
عمل کا نام دیتا تھا۔ شاعر وہ ہی کچھ قلم بند کرتا ہے‘ جو شاعری کی دیوی
اسے سجھاتی ہے۔ گویا شاعری کی بنیاد عقل پر نہیں اٹھتی۔
اس کے نزدیک ۔۔۔۔۔ مثالی ریاست۔۔۔۔ کے حاکموں کے لیے‘ شاعری کی تعلیم مضر
اثرات کی حامل ہے۔ اس کے خیال میں‘ شاعر اچھا اور بااخلاق شہری بننے کی راہ
میں‘ روکاوٹ بنتے ہیں۔ اس کا یہ بھی خیال تھا‘ کہ شاعر خود اپنے کلام کی
وضاحت سے معذور ہوتے ہیں جب کہ نقاد اور شارح‘ مختلف معنی اخذ کرتے ہیں‘ جن
کی صحت پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ افلاطون شاعری کی تمثیلی اور علامتی
حیثیتوں کو‘ یکسر رد کرتا ہے۔ وہ کہتا تھا‘ کہ شاعری کا زمانہ لد گیا ہے‘
اب فلسفے کا عہد ہے‘ اور فلسفہ ہی صداقتوں اور علوم سے آگاہ کر سکتا ہے۔
افلاطون کا دوسرا نقطہ یہ تھا‘ کہ شاعری اخلاقیات مضر اثر ڈالتی ہے۔ صحیح
اخلاقیات کے لیے‘ الوہی قوتوں کا درست تصور پیش کیا جائے۔ اس کا خیال تھا‘
کہ دیوتا جو تمام تر خوبیوں کا مظہر ہوتے ہیں‘ انہیں لڑتے جھگڑتے‘ اور
انسانوں پر ظلم ڈھاتے‘ دیکھانا درست نہیں۔ افلاطون؛ شاعری کو تین اصناف میں
تقسیم کرتا ہے: بیانیہ‘ رزمیہ اور ڈرامائی شاعری۔ اسے رزمیہ اور ڈرامائی
شاعری میں‘ نقل کا عنصر نظر آتا تھا۔ اس کا خیال تھا‘ کہ ان اصناف میں‘
شاعر خود کو مختلف کرداروں کی شکل میں‘ پیش کرتا ہے۔ وہ ناظرین اور سامعین
کو‘ موقع دیتا ہے‘ کہ وہ خود کو اس میں ضم کر دیں۔ اس کے نزدیک نقالی اور
تقلید‘ فرد کے لیے غیر صحت مند چیزیں ہیں۔ خاص طور پر‘ بزدل‘ بدمعاش‘ مجرم
اور پاگل اشخاص کی نقالی‘ اور اس میں ضم ہونا‘ یا اثرات لینا‘ نقصان دہ ہے۔
یہ نقالی ایک سطح پر جا کر فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔
اس کا ایک اعتراض یہ بھی تھا‘ کہ شاعری انسان کے‘ جذباتی پہلوؤں کے لیے
نقصان دہ ہے۔ شاعر احساسات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔ وہ زندگی کا خود
فریب تصور دیتا ہے‘ جس سے ہجانی صورت پیدا ہوتی ہے‘ جو انسان کی صلاحیتوں
کے لیے‘ نقصان دہ ہوتی ہے‘ اور نظم و ضبط میں خرابی کا موجب بنتی ہے۔ جذبات
عقل پر حاوی ہو جاتے ہیں۔
ٹامس لو پیکوک‘ شاعری کے ضمن میں کہتا ہے‘ کہ شاعر مہذب قوم میں وحشی ہے۔
وہ خیالوں میں زندگی بسر کرتا ہے۔ شاعری کو ترقی دینا‘ مفید مطالعے کی طرف
سے‘ توجہ کم کرنا ہے‘ اور بےمقصد کام پر وقت برباد کرنا ہے۔
ہیگل رومانوی تحریک سے سخت متنفر تھا۔ اس کے نزدیک‘ شاعری قنوطیت پھیلانے
کا سبب بنتی ہے‘ اور انسانی جدو وجہد میں‘ رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ انسان
خیالی دنیا میں کھو کر‘ عملی زندگی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ وہ اپنے ہی‘
حقوق کی حصولی میں بھی‘ تساہل پسندی سے کام لیتا ہے۔ ہیگل کے نزدیک‘ فرد
میں‘ معاشرت سازی کے جذبات ہونا چاہیں۔ فرد اپنی جبلتوں کو الگ رکھ کر‘
بہتر طور پر‘ فرائض انجام نہیں دے سکتا۔ فرد کو ہر حال میں‘ معاشرے کی خدمت
کرتی چاہیے‘ اور اسے ہر حال میں معاشرے کا زیردست ہونا چاہیے۔ ہیگل کے خیال
میں‘ شاعر اپنے قلم کو‘ معاشرے کا پابند نہیں بناتا اور معاشرے کی عصری
ضرورتوں کو‘ شاعری کی اساس نہیں بناتا۔ گویا شاعری میں‘ اس کی انفرادیت
باقی رہتی ہے۔
ویکو نے کہا‘ کہ پورے ترقی یافتہ ذہن میں‘ شاعری کے لیے کںئی جگہ نہیں۔
شاعری حقائق پر مبنی نہیں ہوتی۔ اس میں‘ شاعر فرضی تصورات سے‘ کام لیتا ہے۔
وہ زندگی کی حقیقتوں کی‘ ترجمانی نہیں کرتا‘ بلکہ مبالغہ آرائی سے کام لیتا
ہے۔ وہ حقائق کو‘ پس پشت ڈال دیتا ہے۔ ترقی یافتی ذہن‘ حقائق قبول کرتے
ہیں۔ حقائق‘ سائنس اور معاشرتی علوم ہی دستیاب کر سکتے ہیں۔ وہ مزید کہتا
ہے‘ کہ شاعری تہذیبی روایات کو آگے بڑھانے‘ اور ترقی دینے میں مدد نہیں
کرتی۔ اس کے مطابق‘ شاعر کا علم مستند نہیں ہوتا۔ اس کی شاعری کی بنیاد‘
غیر حقیقی تصورات پر استوار ہوتی ہے۔ ویکو کے مطابق‘ معاشرے کو ترقی دینے‘
معاشی اور معاشرتی زندگی میں تبدیلیاں لانے‘ اور اسے بہتر بنانے کے لیے‘ ان
علوم کو عام کیا جائے‘ جو زندگی کے حقائق کو پیش کرتے ہیں۔
گوسن نے‘ شاعری کے غیراخلاقی اور مضررساں پہلو کے خلاف‘ احتجاجی رسالہ
لکھا۔ اس رسالے میں‘ اس نے شاعری پر اعتراض کیا‘ کہ شاعری جھوٹ کی ماں ہے‘
اور ہر قسم کے دروغ کا ماخذ ہے۔ یہ انسانی کردار کو بیمار خواہشات کے
ذریعے‘ کم زور بناتی ہے‘ اور نوجوانوں کے پختہ ذہنوں کو‘ واہموں سے بھر
دیتی ہے۔ شاعری عقل کو کم زور کرتی ہے۔ گناہوں کی طرف لے جاتی ہے‘ اور سفلی
جذبات کو بےدار کرتی ہے۔ گوسن کے خیال کے مطابق‘ گویا شاعری وقت ضائع کرنے
کا نام ہے۔
لائجانس‘ افلاطون کا مداح تھا‘ اور اس کی فکر سے متاثر بھی تھا‘ تاہم وہ اس
لخاظ سے‘ اس سے مختلف بھی تھا‘ کہ وہ شاعروں کو ریاست بدر کرنے کی بات نہیں
کرتا۔ وہ سبق آموز شاعری میں‘ کیفیت آفرینی پر زور دیتا ہے۔ وہ اعلی ادب
سے‘ اس امر کا تقاضا کرتا ہے‘ کہ وہ قاری پر سحر کی سی کیفیت طاری کر دے۔
وہ الفاظ کے جادو کا قائل ہے۔ اس لیے شاعر سے تقاضا کرتا ہے‘ کہ شاعر اپنی
شاعری میں‘ ایسا جوش پیدا کرے‘ جو پڑھنے والے پر‘ دیوانگی طاری کر دے۔ گویا
شاعری اخلاقیات کی ترسیل کا اہم ترین ذریعہ بن جائے۔
میتھیو آرنلذ کے خیال میں‘ ہر انسان خیالات اور اقدار ہی سے‘ اپنی قابلیت
حاصل کرتا ہے۔ وہ کلاسیکل روایت کا حمائیتی تھا۔ اس کے خیال میں‘ رومانوی
شعرا کے ہاں‘ توازن اور اعتدال کی کیفیت موجود نہیں۔ عدم اعتدال کی بنیاد
پر‘ وہ شاعری پر کڑی تنقید کرتا ہے۔ اس لیے رومانوی تحریک سے وابستہ‘ بیشتر
شعرا کا کلام دیرپا نہیں ہے۔ آرنلڈ کا دور‘ اقدار کی ٹوٹ پھوٹ اور نودولتی
اقدار کا ترجمان تھا۔ آرنلڈ نے ان امور کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے لکھا‘ کہ
ایسے دور میں‘ نہ تو ادب کی درست انداز سے‘ تخلیق پروری کی جا سکتی ہے اور
ناہی خوش ذوق قاری پیدا کے جا سکتے ہیں۔ وہ زندگی کی اعلی اقدار کو رائج
کرنے پر زور دیتا ہے۔
مختلف ادوار میں‘ شاعری کی مختلف حوالوں سے‘ مخالفت کی گئی۔ شاعری کو‘
مخصوص حوالوں کا پابند کرنے کی بھی سعی کی گئی۔ شاعری کے خلاف‘ بعض لوگوں
نے‘ علم بغاوت بھی بلند کیا۔ ان تمام کوششوں اور دلائل کے باوجود‘ شاعری کی
راہ میں‘ دیوار نہ کھڑی کی جا سکی۔ شاعری کا دھارا‘ اپنی مخصوص رفتار سے
بہتا رہا۔ شاعر اور شاعری کے شائقین‘ موجود رہے۔ یہ چوں کہ غیرفطری نظریات
تھے‘ اسی لیے‘ انہیں کبھی پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔
اس مضمون کی تیاری کے لیے‘ ان کتب سے‘ شکریے کے ساتھ‘ استفادہ کیا گیا۔
مغرب کے تنقیدی اصول -- پروفیسر سجاد باقر رضوی -- مطبع عالیہ‘ لاہور ١٩٦٦
ارسطو سے ایلیٹ تک -- ڈاکٹر جمیل جالبی -- نیشنل فاؤنڈیشن ١٩٧٥
مغربی شعریات -- محمد ہادی حسین -- مجلس ترقی ادب‘ لاہور س ن
|