یہ بات سچ ہے‘ اور آفاقی حقیقت
کے درجے پر فائز ہے‘ کہ کرسی قریب اہل قلم‘ ہر دور میں‘ ناصرف آسودہ حال
رہے ہیں‘ بلکہ کم زور طبقوں کے مجرم بھی رہے ہیں‘ کیوں کہ سچ کا مقدر‘ ان
کے ہاں‘ غلام گردش بھی نہیں رہ پاتا۔ چوں کہ شاہ کے کارناموں کو آسمانوں پر
پہنچا دیا گیا ہوتا ہے‘ اس لیے آتے وقتوں میں‘ شاہ ہی‘ سلام و پرنام کے
مستحق ٹھہرتے ہیں۔ جن کے باپ دادا‘ ان شاہوں کی استحصالی تیغ کا نشانہ رہے
ہیں‘ وہ بھی ان گماشتہ شبدوں کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی جذباتی
وابستگی‘ استحصالیوں کے ساتھ رہتی ہے۔ بدقسمتی دیکھیے‘ کرسی دور لوگ‘ اپنے
عہد میں محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ مرنے کے بعد‘ ان کا اثاثہ ردی میں بک
جاتا ہے۔ کسی کو یاد تک نہیں ہوتا‘ کہ کوئی اپنے عہد کا پکا‘ کھرا اور سچا
شہادتی بھی تھا۔
بائیں آنکھ کے نظر انداز اہل قلم نے‘ کسی بھی زبان کو‘ مختلف حوالوں سے‘
نوازا ہوتا ہے۔ ان کے تین حوالے‘ بڑی نمایاں حیثیت کے حامل ہوتے ہیں:
١- انہوں نے اپنے عہد کی سماجی اور سیاسی ناہمواریوں کو‘ فوکس کیا ہوتا ہے۔
٢- کسی ناکسی سطح پر‘ آفاقی سچائیوں کی عکاسی کی ہوتی ہے۔
٣- آفاقی اور سماجی و سیاسی زبان سے‘ اس زبان کے دامن کو مالا مال کیا ہوتا
ہے۔
قلم والا‘ ان تین حوالوں سے‘ اپنے اور آتے عہد کو نواز رہا ہوتا ہے۔ اس کی
بےتوقیری‘ ظلم اور زیادتی نہیں‘ تو اور کیا ہے۔ گولی مارو حکومتی سطح کے
ایواڑوں اور تمغوں کو‘ انہیں پیٹ بھر روٹی تو ملنی چاہیے۔ معاف کیجیے‘ میں
کہیں بھول رہا ہوں‘ شعر کچھ اسی طرح سے تھا۔
اسپ تازی شدہ مجروح بر زیر پلان
طوق زرین ہمہ در گردن خر میبینم
صدیوں پرانا یہ شعر‘ آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور پر بھی‘ فٹ آ رہا ہے۔
یار ان لوگوں کی قدر کرو۔ شاہ کو چھوڑو‘ اس سے خیر کی توقع نہ کرو۔ احسان
کرئے گا‘ تو واپسی میں ضمیر وایمان‘ کباڑ خانے میں بھی نہ رکھنے دے گا۔ قوم
کو انہیں زندگی کا جھومر بنانا چاہیے۔ انصاف کا یہ ہی تقاضا ہے۔ ان کی
توقیر کو‘ جو قومیں بالائے طاق رکھتی ہیں‘ غلطی کرتی ہیں۔ ایسے لوگ‘ کب روز
روز پیدا ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد امین‘ بنیادی طور پر فلسفہ کے استاد ہیں‘ لیکن شعروسخن سے بھی
رشتہ رکھتے ہیں۔ انہیں اردو ہائی کو کا امام کہا جاتا ہے۔ انہوں نے جاپانی
سے اردو میں ہائی کو ترجمہ کیے‘ خود بھی لکھے۔ وہ صرف اسی صنف تک ہی محدود
نہیں رہے‘ غزل اور نظم بھی ان کی فکر سے‘ مالا مال ہوئی ہے۔ ان کے ہائی کو
ہوں‘ یا نظم‘ غزل کا پرپیچ میدان ہو‘ ان کی شاعری عصری حوالوں سے جڑی رہتی
ہے۔ سیاسی اور سماجی معاملات کو‘ بڑی خوبی سے‘ بیان کر دیتے ہیں۔ مقامی
سچائیاں ہی ان کے قلم پر‘ نہیں چڑھیں آفاقی سچائیاں بھی بیان کرتے چلے
جاتے۔ ان کے کہنے کی زبان‘ انتہائی سادہ اور عام فیہم ہوتی ہے۔ ان کی یہ
سادہ زبان‘ درحقیقت سماجیات کی زبان ہے۔ ان کا مخاطب‘ اعلی طبقے کا شخص
نہیں ہوتا۔ عوامی روزہ مرہ بڑے سلیقے سے باندھتے ہیں۔
اس ذیل میں ان کے کلام میں سے‘ چند مثالیں باطور نمونہ ملاحظہ ہوں:
ہمارے شہر کی اب کیفیت کیا ہے بتائیں کیا
کسی کا گھر نہیں ملتا کسی کا سر نہیں ملتا
ہمارے جمح کا صیغہ ہے‘ جو اس امر کا غماز ہے‘ کہ مجموعی بات کی گئی ہے۔ لفظ
شہر مخصوص علاقے کو ظاہر کرتا ہے۔ جب کہ شاعر‘ کسی مخصوص علاقے کا شخص نہیں
ہوتا۔ ہمارے شہر کہہ کر‘ مجموعی وسیب مراد لیا گیا ہے۔ لفظ کیفیت صورت حال
کے لیے ہے۔ اب‘ اس امر کی طرف واضح اشارہ ہے کہ بات کا تعلق ماضی سے متعلق
نہیں‘ شاعر کے عہد سے ہے۔ پہلے مصرعے میں ہی دو سوالیے مختلف نوعیت کے ہیں۔
کیفیت کیا: موجود صورت حال
کیا بتائیں: گھمبیرتا کا اظہار ہے۔
دوسرا مصرعہ واضح کر رہا ہے‘ کہ لاقانونیت اور بےاصولی کا پہرا ہے۔ ظالموں‘
ڈاکووں‘ قاتلوں قبضہ گروپوں وغیرہ پر کوئی گرفت نہیں‘ انہیں کھلی چھٹی دے
دی گئی ہے۔ اس حساب سے قانون نافذ کرنے والے ادارے:
مجرموں کے سامنے بےبس ہیں۔
کیوں
قانون نافذ کرنے والے‘ مجرموں سے کم زور ہیں۔
مجرم ریاست کے بڑوں کے اپنے بندے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے بک چکے ہیں۔
ظالموں کے ساتھی ہو گیے ہیں۔
یا یہ سب‘ ریاست کے وڈیرے کر رہے ہیں۔ گھر اور سر‘ کا نہ ملنا کوئی معمولی
معاملہ یا معمولی حادثہ نہیں‘ جسے یوں ہی نظرانداز کر دیا جائے۔
اس شعر کے تناظر میں‘ یہ شعر ملاحظہ ہو۔
روشنی کس طرح چڑھ گئی دار پر
اک تحیر ہے ماتم کناں شہر میں
کس طرح
قیامت خیز سوالیہ ہے۔ روشنی کے اپنے یا اس سے متعلق سب مر گیے ہیں یا موجود
ہی نہیں ہیں۔ ہر دو صورتیں خوف ناک ہیں۔
کیا اب اطراف میں اندھیرا ہو گا۔
آواز اٹھانے والا یا روشنی کی سعی کرنے والا کوئی بھی نہ ہو گا۔
اندھیر راج‘ کم زور طبقوں یا انسانیت کا مقدر ٹھہرے گا۔
اندھیرے کے باسی‘ آتے وقتوں میں روشنی نام کی چیز کو ہی‘ بھول جائیں گے۔
تمیز و امتیاز‘ جو زندگی کا لازمہ اور ترقی کا زینہ ہے‘ باقی نہ رہے گی۔
کس طرح‘ کی تفہیم تک رسائی کی سعی کریں۔ ہر سانس دمے کے مرض میں مبتلا ہو
جائے گا۔
دوسرے مصرعے میں ردعمل بھی پیش کیا ہے۔
تحیر ہے: حیرت کے دامن میں پشیمان اور دردآلودہ چپ ہوتی ہے۔ درد سے لبریز
چپ بڑی خطرناک ہوتی ہے۔
دوسرا ردعمل ماتم ہے۔ ماتم شور سے عبارت ہے۔ معنوی تضاد کی صنعت نے‘ شعر
میں بلا کی بلاغت رکھ دی ہے۔
ماتم کناں اور تحیر‘ یہ بھی واضح کرتے ہیں‘ کہ روشنی کے جانو موجود تھے۔
اگر موجود تھے‘ تو یہ اندھیر کس طرح ہو گیا۔ روشنی دار تک کیسے پہنچ گئی۔
اس سے یہ اخذ ہوتا ہے‘ کہ حیرت زدہ بےبس تھے‘ اور جبر کے نتیجہ میں‘ رونے
دھونے کے سوا‘ کچھ ممکن ہی نہیں ہوتا۔
اب کہانی کی انتہا دیکھیں:
انسان مر چکا ہے اسے مشتہر کرو
سب سے اہم خبر ہے یہی یار‘ آج کی
سماجی‘ سیاسی اور اخلاقی حوالوں سے دیکھیے‘ کتنی بڑی سجائی بیان کر دی گئی
ہے۔
مشتہر کرو
اہم خبر
آج کی
کس اہمیت کے حامل الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے‘ صاحب درد اور باشعور شخص ہی
اندازہ کر سکتا ہے۔
بےبسی اور کسی کی حالت میں‘ انسان کا آخری سہارا‘ خدا ہوتا ہے۔ وہ تبدیلی
کے لیے‘ اس کی طرف پرامید نظروں سے دیکھتا ہے۔ ذرا یہ شعر دیکھیں۔ اس شعر
میں‘ امید کے ان گنت چراغ جلتے نظر آتے ہیں۔
بےبس سمجھ کے اس نے مجھے زخمی کر دیا
اس کو خبر نہیں تھی خدا میرے ساتھ ہے
ظالم کو یہ سندیسہ بھی دیتے ہیں
اس کو بہت ہی ناز تھا اپنے عروج پر
وہ بے خبر تھا تیز ہوا میرے ساتھ ہے
اس‘ بااختیار طبقوں کی طرف‘ اشارہ کرکے کہا جا رہا ہے۔
میں‘ کم زور طبقوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ میں وقت کو بھی کہا جا سکتا ہے۔
تیز ہوا‘ عروج کو نیستی کی طرف لے جاتی ہے۔
پرانی اور نئی جنریشن کے عملی گیپ کی‘ کیا عمدگی سے عکاسی کی گئی ہے۔
ہمیں انکار کی جرات کبھی ایسے نہیں ہوتی
پرانی وضع کے ہم لوگ کچھ آداب رکھتے ہیں
اس شعر میں لفظ ایسے بڑی معنویت کا حامل ہے۔ یہ دو نسلوں کے‘ عملی اور فکری
اطوار کے فرق کو‘ واضح کر رہا ہے۔ مروت اور بےباکی کا دوٹوک فرق‘ کیا ہو
سکتا ہے‘ لفظ ایسے نے کھول دیا ہے۔
ڈاکٹر محمد امین نے‘ آفاقی سچائیوں کو‘ بڑے دل لگتے انداز سے واضح کیا ہے۔
ہم اپنے واسطے دکھ درد کے اسباب رکھتے ہیں
ہم اپنے ساتھ ہی دشمن صفت احباب رکھتے ہیں
دشمن صفت احباب مرکب نے شعر کو بڑا جاندار بنا دیا ہے۔ نقصان اپنوں کے
ہاتھوں سے ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
ایک دوسری آقاقی سچائی ملحظہ ہو:
کہاں جاؤ گے ٹھہرو تو سہی بات سنو
اتنی عجلت تو نہیں اچھی پریشانی میں
پریشانی میں تحمل لازمہ ہے۔ عجلت مزید بگاڑ کی طرف لے جاتی ہے۔ شعری زبان
میں‘ انداز اپنوں کا سا اختیار کیا ہے‘ جس میں‘ ناصحانہ عنصر کی آمیزش ہے۔
کمال کی زبان استعمال میں لائی گئی ہے۔ سادہ سادہ لفظوں میں‘ ہر دور اور ہر
جگہ سے متعلق شخص کو‘ زندگی کی اہم ترین حقیقت سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
زبان کا فیلو ملاحظہ کریں:
کہاں جاؤ گے
ٹھہرو تو سہی
بات سنو
اپنوں کا سا یہ اسلوب تکلم‘ باذوق حضرات کو لطف ہی نہیں‘ ایک پیغام بھی
دیتا ہے۔ اس میں روکنے کی سعی موجود ہے۔
دوسرے مصرعے میں‘ لفظ تو کا استعمال‘ اپنا جواب نہیں رکھتا۔ ذرا پڑھیں۔ لطف
آتا ہے۔
اتنی عجلت
تو نہیں اچھی
پریشانی میں
سماج کی رسومات‘ لازمہ اور لوازمہ ٹھہری ہیں۔ ان سے خلاصی کی خواہس رکھتے
ہوئے‘ ان سے خلاصی نہیں ہو پا رہا۔ انہیں‘ سماج کی فطرت ثانیہ کا درجہ حاصل
ہو گیا۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن مثل کو‘ تجسیم دے دی گئی ہے۔
انسان کی بےبسی کی بھی حالت نہ پوچھیے
اب بھینٹ چڑھ رہا ہے رسوم و رواج کی
کی بھی‘ شعر میں بڑی معنویت کے حامل ہیں۔ ان کی جگہ کوئی اور لفظ رکھ دیں
لطف غارت ہو جائے گا۔
ڈاکٹر محمد امین کی غزل کا مطالعہ کرتے‘ میں نے محسوس کیا ہے‘ کہ وہ سادہ
زبان میں زندگی‘ اور اس کے متعلقات کو‘ اجاگر کرنے کا فن جانتے ہیں۔ یہ بھی
کہ‘ سادہ لفظوں کے استعال سے‘ فصاحت کا جادو جگاتے ہیں۔ ان کے ہاں‘ لفظ
عصری زندگی کے دقیق معاملات کو بیان کرنے میں‘ کسی قسم کی دشواری محسوس
نہیں کرتے۔ میں اتنا کچھ لکھ کر‘ تشنگی محسوس کر رہا ہوں۔ میری تشنگی ان کی
تشنگی سے‘ مختلف نہیں۔ کہتے ہیں:
یہ کیسی پیاس ہے پانی جسے بجھا نہ سکے
لگی ہے آگ بدن میں‘ ہمیں خبر نہ ہوئی
|