بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
بیت اللّٰہ:
بیت اﷲ شریف اﷲ تعالیٰ کا گھر ہے جس کا حج اور طواف کیا جاتا ہے۔ اس کو
کعبہ بھی کہتے ہیں۔ یہ پہلا گھر ہے جو اﷲ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے
زمین پر بنایا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے: اِنَّ اَوَّلَ بَےْتٍ وُّضِعَ
لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وُّہُدًی لِّلْعَالَمِےْن اﷲ
تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں
ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت والا ہے۔ (سورۃ آل عمران) بیت اﷲ مسجد
حرام کے قلب میں واقع ہے اور قیامت تک یہی مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ چوبیس
گھنٹوں میں صرف فرض نمازوں کے وقت خانہ کعبہ کا طواف رکتا ہے باقی دن رات
میں ایک گھڑی کے لئے بھی بیت اﷲ کا طواف بند نہیں ہوتا ہے۔ بیت اﷲ کی
اونچائی ۱۴ میٹر ہے جبکہ چوڑائی ہر طرف سے کم وبیش ۱۲ میٹر ہے۔ حضرت عبد اﷲ
بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ
کی ایک سو بیس (۱۲۰) رحمتیں روزانہ اس گھر (خانہ کعبہ) پر نازل ہوتی ہیں جن
میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر، چالیس وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور بیس
خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں پر ۔ اگر بیت اﷲ کا قریب سے طواف کیا جائے تو
سات چکر میں تقریباً ۳۰ منٹ لگتے ہیں، لیکن دور سے کرنے پر تقریباً ایک سے
دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ طواف زیارت (حج کا طواف) کرنے میں کبھی کبھی اس سے
بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ بیت اﷲ پر پہلی نظر پڑنے پر جو
دعا مانگی جاتی ہے وہ اﷲ تبارک وتعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی سنت
کے مطابق بیت اﷲ شریف کو ہر سال غسل بھی دیا جاتا ہے۔
بیت اللّٰہ کی تعمیریں:
بیت اﷲ کی مختلف تعمیریں ہوئی ہیں، چند مشہور تعمیریں حسب ذیل ہیں: ۱) حضرت
آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل سب سے پہلے اس کی تعمیر فرشتوں نے کی۔ ۲)
حضرت آدم علیہ السلام کی تعمیر ۔ ۳) حضرت شیث علیہ السلام کی تعمیر۔ ۴)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے
ساتھ مل کر کعبہ کی از سر نو تعمیر کی۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل
علیہما السلام کی بیت اﷲ کی تعمیر کو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی، چنانچہ اﷲ
تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں اس واقعہ کو ذکر کیا ہے: وَاِذْ ےَرْفَعُ
اِبْرَاہِےْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَےْتِ وَاِسْمَاعِےْلُ، رَبَّنَا
تَقَبَّل مِنَّا، اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِےْعُ الْعَلِےْمُ (سورۃ البقرۃ
۱۲۷) اس وقت کا تصور کرو جب ابراہیم بیت اﷲ کی بنیادیں اٹھارہے تھے اور
اسماعیل بھی (ان کے ساتھ شریک تھے اور دونوں یہ کہتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے
پروردگار! ہم سے (یہ خدمت) قبول فرمالے۔ بیشک تو، اور صرف تو ہی، ہر ایک کی
سننے والا، ہر ایک کو جاننے والا ہے۔ ۵) عمالقہ کی تعمیر ۶) جرہم کی تعمیر
(یہ عرب کے دو مشہور قبیلے ہیں)۔ ۷) قصی کی تعمیر جو حضور اکرم ﷺ کی
پانچویں پشت میں دادا ہیں۔ ۸) قریش کی تعمیر، اس وقت نبی اکرم ﷺکی عمر ۳۵
سال تھی اور آپ ﷺ نے اپنے ہی دست مبارک سے حجر اسود کو بیت اﷲ کی دیوار میں
لگایا تھا۔ ۹) ۶۴ھ میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ نے حطیم کے حصہ کو
کعبہ میں شامل کرکے کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی اور دروازہ کو زمین کے قریب
کردیا، نیز دوسرا دروازہ اس کے مقابل دیوار میں قائم کردیا تاکہ ہر شخص
سہولت سے ایک دروازہ سے داخل ہو اور دوسرے دروازے سے نکل جائے۔ حضور اکرم ﷺ
کی خواہش بھی یہی تھی۔ ۱۰) ۷۳ھ میں حجاج بن یوسف نے کعبہ کو دوبارہ قدیم
طرز کے موافق کردیا، یعنی حطیم کی جانب سے دیوار پیچھے کو ہٹادی اور دروازہ
اونچا کردیا، دوسرا دروازہ بند کردیا۔ ۱۱) ۱۰۲۱ھ میں سلطان احمد ترکی نے
چھت بدلوائی اور دیواروں کی مرمت کی۔ ۱۲) ۱۰۳۹ھ میں سلطان مراد کے زمانے
میں سیلاب کے پانی سے بیت اﷲ کی بعض دیواریں گر گئیں تھیں تو سلطان مراد نے
ان کی تعمیر کرائی۔ ۱۳) ۱۴۱۷ھ میں شاہ فہد بن عبد العزیزنے بیت اﷲ کی ترمیم
کی۔
غلاف کعبہ:
بیت اﷲ شریف جو بے حد واجب التعظیم عبادت گاہ اور متبرک گھر ہے، اسے ظاہری
زیب وزینت کی غرض سے غلاف پہنایا جاتا ہے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ سب سے پہلے
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پہلا غلاف چڑھایا تھا۔ اس کے بعد عدنان نے
کعبہ پر غلاف چڑھایا تھا جو نبی اکرم ﷺ کے بیسویں پشت میں دادا ہیں ۔ یمن
کے بادشاہ (تبع الحمیری) نے ظہور اسلام سے سات سو سال قبل کعبہ پر غلاف
چڑھایا۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ حضور اکرم ﷺ نے فتح مکہ
کے دن یمن کا بنا ہوا کالے رنگ کا غلاف کعبہ شریف پر چڑھایا۔ آپ ﷺ کے بعد
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے سفید کپڑا چڑھایا۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ
عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے اپنی اپنی خلافت کے زمانے میں نئے
نئے غلاف بیت اﷲ (کعبہ) پر چڑھائے۔ خلافت بنو امیہ کے ۹۱ سالوں کے اقتدار
کے زمانے میں اور پھر بنو عباس کے پانچ سو سال کے زمانے میں بھی یہ سلسلہ
باقاعدہ جاری رہا، کبھی سفید رنگ کا کبھی سیاہ رنگ کا ، مگر ۵۷۵ھ سے آج تک
غلاف کالے ہی رنگ کا چڑھایاجاتا ہے۔ ۷۶۱ھ سے قرآن کریم کی آیات بھی غلاف پر
لکھی جانے لگیں۔ موجودہ زمانے میں عام طور پر ۹ ذی الحجہ کو ہر سال کالے
رنگ کا غلاف تبدیل کیا جاتا ہے۔ گزشتہ زمانوں میں مختلف تاریخوں میں غلاف
تبدیل کیا جاتا تھا، کبھی ۱۰ محرم الحرم، کبھی ۲۷ رمضان اور کبھی ۸ یا ۹ یا
۱۰ ذی الحجہ۔
حطیم:
یہ دراصل بیت اﷲ ہی کا حصہ ہے، لیکن قریش مکہ کے پاس حلال مال میسر نہ ہونے
کی وجہ سے انہوں نے تعمیر کعبہ کے وقت یہ حصہ چھوڑکر بیت اﷲ کی تعمیر کی
تھی۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کعبہ شریف میں داخل ہوکر
نمازپڑھنا چاہتی تھی۔ رسول اﷲ ﷺ میرا ہاتھ پکڑکر حطیم میں لے گئے اور
فرمایا: جب تم بیت اﷲ (کعبہ) کے اندر نماز پڑھنا چاہو تو یہاں (حطیم میں)
کھڑے ہوکر نماز پڑھ لو۔ یہ بھی بیت اﷲ شریف کا حصہ ہے۔ تیری قوم نے بیت اﷲ
(کعبہ) کی تعمیر کے وقت (حلال کمائی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ) اسے (چھت کے
بغیر) تھوڑا سا تعمیر کرادیا تھا۔ چونکہ حطیم بیت اﷲ کا حصہ ہے، لہذا طواف
حطیم کے باہر سے ہی کریں، اگر حطیم میں داخل ہوکر طواف کریں گے تو وہ معتبر
نہیں ہوگا۔ بیت اﷲ کی چھت سے حطیم کی طرف بارش کے پانی کے گرنے کی جگہ
(پرنالہ) میزاب رحمت کہی جاتی ہے۔
حجر اسود:
حجر اسود قیمتی پتھروں میں سے ایک پتھر ہے، اﷲ تعالیٰ نے اس کی روشنی ختم
کردی ہے، اگر اﷲ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ پتھر مشرق اور مغرب کے درمیان
ہر چیز کو روشن کردیتا۔ حجر اسود جنت سے اترا ہوا پتھر ہے جو کہ دودھ سے
زیادہ سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ۔ حجر اسود کو
اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی
جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جن سے وہ بولے گا اور گواہی دے گا اُس شخص
کے حق میں جس نے اُس کا حق کے ساتھ بوسہ لیا ہو۔ حجر اسود کے استلام سے ہی
طواف شروع کیا جاتا ہے اور اسی پر ختم کیا جاتا ہے۔ حجر اسود کا بوسہ لینا
یا اس کی طرف دونوں یا داہنے ہاتھ سے اشارہ کرنا استلام کہلاتا ہے۔
مُلتزم:
ملتزم کے معنی ہے چمٹنے کی جگہ، حجر اسود اور بیت اﷲ کے دروازے کے درمیان
ڈھائی گز کے قریب کعبہ کی دیوار کا جو حصہ ہے وہ ملتزم کہلاتا ہے، حضور
اکرم ﷺ نے اس جگہ چمٹ کر دعائیں مانگیں تھیں، یہ دعاؤں کے قبول ہونے کی خاص
جگہ ہے۔
رکن یمانی:
بیت اﷲ کے تیسرے کونہ کو رکن یمانی کہتے ہیں۔ رکن یمانی کو چھونا گناہوں کو
مٹاتا ہے۔ رکن یمانی پر ستّر فرشتے مقرر ہیں، جو شخص وہاں جاکر یہ دعا
پڑھے: (رَبّنَا آتِنَا فِی الدُّنْےَا حَسَنَۃً وّفِی الْاخِـرَۃِ حَسَنَۃً
وّقِنَا عَذَابَ النّارِ) تو وہ سب فرشتے آمین کہتے ہیں ، یعنی یا اﷲ! اس
شخص کی دعا قبول فرما۔
مقام ابراہیم:
یہ ایک پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو تعمیر
کیا تھا، اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات ہیں۔ یہ
کعبہ کے سامنے ایک جالی دار شیشے کے چھوٹے سے قبہ میں محفوظ ہے جس کے اطراف
میں پیتل کی خوشنما جالی نصب ہے۔حجر اسود کی طرح یہ پتھر بھی جنت سے لایا
گیا ہے، اﷲ تعالیٰ نے اس کی روشنی ختم کردی ہے، اگر اﷲ تعالیٰ ایسا نہ کرتا
تو یہ مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتا۔ طواف سے فراغت کے
بعد طواف کی دو رکعت اگر سہولت سے مقامِ ابراہیم کے پیچھے جگہ مل جائے تو
مقام ابراہیم کے پیچھے ہی پڑھنا بہتر ہے ۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے: (وَاتَّخِذُوْا مِن مَّقَامِ اِبْرَاھِےْمَ مُصَلّٰی)
بئر زمزم:
زمزم کا پانی اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام
کی پیاس بجھانے کے لئے تقریباً ۴۰۰۰ سال قبل بیت اﷲ کے قریب بے آب وگیاہ
ریگستان میں جاری فرمایا تھا۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ لاکھوں حجاج کرام اور
زائرین لاکھوں ٹن زمزم کا پانی پیتے ہیں یا اپنے ملکوں اور شہروں کو لے کر
جاتے ہیں لیکن زمزم کا کنواں آج تک خشک نہیں ہوا۔ مسجد حرام کے ساتھ مسجد
نبوی میں بھی ہر وقت زمزم کا پانی مہیا رہتا ہے۔ آب زمزم میں ایسے اجزاء
معدنیات اور نمکیات موجود ہیں جو انسان کی غذائی اور طبّی ضروریات کو بڑے
اچھے طریقہ سے پورا کرتے ہیں۔طواف کرنے والوں کی سہولت کے لئے‘ اب زمزم کا
کنواں اوپر سے پاٹ دیا گیا ہے۔ البتہ مسجد حرام میں ہر جگہ زمزم کا پانی
بآسانی مل جاتا ہے، لہذا سنت نبوی کی اتباع میں مسجد میں کسی بھی جگہ زمزم
کا پانی پی لیں اور الحمد ﷲ کہہ کر یہ دعا پڑھیں: اللّٰھُمَّ اِنِّی
اَسْئَلُکَ عِلْماً نَافِعاً وَّرِزْقاً وَّاسِعاً وَّشِفَاءً مِنْ کُلِّ
دَاءِ اے اﷲ! میں آپ سے نفع دینے والے علم کا اور کشادہ رزق کا اور ہر مرض
سے شفایابی کا سوال کرتا ہوں۔ زمزم کا پانی کھڑے ہوکر پینا مستحب ہے۔ حضرت
عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو زمزم پلایا
تو آپ ﷺ نے کھڑے ہوکر پیا۔ زمزم کا پانی پی کر اس کا کچھ حصہ سر اور بدن پر
بہانا مستحب ہے۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی
فائدہ اس سے حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : روئے زمین پر
سب سے بہتر پانی زمزم ہے جو بھوکے کے لئے کھانا اور بیمار کے لئے شفا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا زمزم کا پانی (مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ) لے جایا
کرتی تھیں اور فرماتیں کہ رسول اﷲ ﷺ بھی لے جایا کرتے تھے۔
مسجد حرام:
مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد (مسجد حرام) مقدس شہر مکہ مکرمہ کے وسط میں
واقع ہے۔ مسجد حرام کے درمیان میں بیت اﷲ ہے جس کی طرف رخ کرکے دنیا بھر کے
مسلمان ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ دنیا
میں سب سے پہلی مسجد مسجد حرام ہے جیساکہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر رضی اﷲ
عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺسے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلی کون
سی مسجد بنائی گئی؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسجد حرام۔ حضرت ابوذر
رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سی؟ حضور اکرم ﷺ
نے ارشاد فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے
پوچھا کہ دونوں کے درمیان کتنے وقت کا فرق ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: چالیس سال کا۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین مساجد کے علاوہ
کسی دوسری مسجد کا سفر اختیار نہ کیا جائے مسجد نبوی، مسجد حرام اور مسجد
اقصیٰ۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: میری اس مسجد میں نماز کا ثواب دیگر
مساجد کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے سوا ئے مسجد حرام کے اور مسجد حرام
میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہے۔
صفا ومروہ:
صفا ومروہ دو پہاڑیاں تھیں جو اِن دنوں حجاج کرام کی سہولت کے لئے تقریباً
ختم کردی گئی ہیں۔صفا ومروہ اور اس کے درمیان کا مکمل حصہ اب ایئرکنڈیشنڈ
ہے۔ صفا ومروہ کے درمیان حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے اپنے پیارے بیٹے حضرت
اسماعیل علیہ السلام کے لئے پانی کی تلاش میں سات چکر لگائے تھے۔ اور جہاں
مرد حضرات تھوڑا تیز چلتے ہیں یہ اُس زمانہ میں صفا مروہ پہاڑیوں کے درمیان
ایک وادی تھی جہاں سے ان کا بیٹا نظر نہیں آتا تھا، لہذا وہ اس وادی میں
تھوڑا تیز دوڑی تھیں۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی اس عظیم قربانی کو اﷲ
تعالیٰ نے قبول فرماکر قیامت تک آنے والے تمام مرد حاجیوں کواس جگہ تھوڑا
تیز چلنے کی تعلیم دی، لیکن شریعت اسلامیہ نے صنف نازک کے جسم کی نزاکت کے
مدنظر اس کو صرف مردوں کے لئے سنت قرار دیا ہے۔ سعی کا ہر چکر تقریباً ۳۹۵
میٹر لمبا ہے، یعنی سات چکر کی مسافت تقریباً پونے تین کیلومیٹر بنتی ہے۔
نیچے کی منزل کے مقابلہ میں اوپر والی منزل پر ازدحام کچھ کم رہتا ہے۔ قرب
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس پہاڑی سے ایک ایسا
جانور نکلے گا جو انسانی زبان میں بات کرے گا۔
منی:
منی مکہ سے ۴۔۵ کیلومیٹرکے فاصلہ پر دو طرفہ پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑا
میدان ہے۔ حجاج کرام ۸ ذی الحجہ کو اور اسی طرح ۱۱، ۱۲ اور ۱۳ ذی الحجہ
کومنی میں قیام فرماتے ہیں۔ منی میں ایک مسجد ہے جسے مسجد خیف کہا جاتا ہے۔
اسی مسجد کے قریب جمرات ہیں جہاں حجاج کرام کنکریاں مارتے ہیں۔ منی ہی میں
قربان گاہ ہے جہاں حجاج کرام کی قربانیاں کی جاتی ہیں۔
عرفات:
عرفات منی سے تقریباً ۱۰ کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ میدان عرفات کے شروع
میں مسجد نمرہ نامی ایک بہت بڑی مسجد ہے جس میں زوال کے فوراً بعد خطبہ
ہوتا ہے پھر ایک اذان اور دو اقامت سے ظہر اور عصر کی نمازیں جماعت سے ادا
ہوتی ہیں۔اسی جگہ پر حضور اکرم ﷺ نے خطبہ دیا تھا جو خطبہ حجۃ الوداع کے
نام سے معروف ہے۔ مسجد نمرہ کا اگلا حصہ عرفات کی حدود سے باہر ہے ۔ منی
ومزدلفہ حدود حرم کے اندر، جبکہ عرفات حدود حدود حرم سے باہر ہے۔ یہی وہ
جگہ ہے جہاں حج کا سب سے اہم رکن ادا ہوتا ہے، جس کے متعلق حضور اکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ وقوف عرفہ ہی حج ہے۔ وقوف عرفہ کا وقت زوال آفتاب سے غروب
آفتاب تک ہے، لیکن اگر کوئی شخص کسی وجہ سے غروب آفتاب تک نہ پہنچ سکا لیکن
صبح صادق سے قبل تک ایک لمحہ کے لئے بھی اس میدان میں پہنچ گیا تو حج صحیح
ہوگا لیکن ایک دم دینا ضروری ہوگا۔رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عرفہ کے دن
کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اﷲ تعالیٰ کـثرت سے بندوں کو جہنم سے
نجات دیتے ہوں، اس دن اﷲ تعالیٰ (اپنے بندوں کے) بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں
اور فرشتوں کے سامنے اُن (حاجیوں) کی وجـہ سے فخر کرتے ہیں اور فرشتوں سے
پوچھتے ہیں (ذرا بتاؤ تو) یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ۔ اسی طرح حضور اکرم
ﷺ نے ارشاد فرمایا: غزوۂ بدر کا دن تو مستثنیٰ ہے اس کو چھوڑکر کوئی دن
عرفہ کے دن کے علاوہ ایسا نہیں جس میں شیطان بہت ذلیل ہورہا ہو، بہت راندہ
پھر رہاہو، بہت حقیر ہورہا ہو، بہت زیادہ غصہ میں ہو، یہ سب کچھ اس وجـہ سے
کہ وہ عرفہ کے دن اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں کا کثرت سے نازل ہونا اور بندوں کے
بڑے بڑے گناہوں کا معاف ہونا دیکھتا ہے۔عرفات کے میدان میں ایک پہاڑ ہے جسے
جبل رحمت کہتے ہیں، اس کے قریب قبلہ رخ کھڑے ہوکر حضور اکرم ﷺ نے وقوف عرفہ
کیا تھا۔ پہاڑ پر چڑھنے کی کوئی فضیلت احادیث میں وارد نہیں ہوئی ہے بلکہ
اس کے نیچے یا عرفات کے میدان میں کسی بھی جگہ کھڑے ہوکر کعبہ کی طرف رخ
کرکے ہاتھ اٹھاکر دعائیں کرنی چاہئیں۔
مزدلفہ:
۹ ذی الحجہ کو غروب آفتاب کے بعد حجاج کرام عرفات سے مزدلفہ آکر عشاء کے
وقت میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ یہاں رات کو قیام فرماتے
ہیں اور نماز فجر کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہوکر دعائیں کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ
فرماتا ہے: فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوا اللّہَ عِنْدَ
الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ (سورہ البقرۃ، آیت ۱۹۸) جب تم عرفات سے واپس ہوکر
مزدلفہ آؤ تو یہاں مشعر حرام کے پاس اﷲ کے ذکر میں مشغول رہو۔ اس جگہ ایک
مسجد بنی ہوئی ہے جس کو مسجد مشعر حرام کہتے ہیں۔ مزدلفہ منی سے ۳۔۴
کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔
وادی محسر:
منی اور مزدلفہ کے درمیان میں ایک وادی ہے جس کو وادی محسر کہتے ہیں، یہاں
سے حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق گزرتے وقت تھوڑا تیز چل کر گزرا جاتا
ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اﷲ تعالیٰ نے ابرہہ بادشاہ کے لشکر کو ہلاک وتباہ
کیا تھا جو بیت اﷲ کو ڈھانے کے ارادہ سے آرہا تھا۔
جمرات:
یہ منی میں تین مشہور مقام ہیں جہاں اب دیوار کی شکل میں بڑے بڑے ستون بنے
ہوئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے حکم، نبی اکرم ﷺ کے طریقہ اور حضرات ابراہیم علیہ
السلام کی اتباع میں ان تین جگہوں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ ان میں سے جو
مسجد خیف کے قریب ہے اسے جمرہ اولیٰ، اس کے بعد بیچ والے جمرہ کو جمرہ وسطی
اور اس کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف آخری جمرہ کو جمرہ عقبہ یا جمرہ کبری کہا
جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شیطان نے ان تین مقامات پر بہکانے کی
کوشش کی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان تین مقامات پر شیطان کو
کنکریاں ماری تھیں اور اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل کو
قیامت تک آنے والے حاجیوں کے لئے لازم قرار دے دیا۔ حجاج کرام بظاہر جمرات
پر کنکریاں مارتے ہیں لیکن درحقیقت شیطان کو اس عمل کے ذریعہ دھتکارا جاتا
ہے ۔رمی یعنی جمرات پر کنکریاں مارنا حج کے واجبات میں سے ہے۔ دسویں،
گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو رمی کرنا (یعنی ۴۹ کنکریاں مارنا) ہر
حاجی کے لئے ضروری ہے۔ تیرہویں ذی الحجہ کی رمی (یعنی ۲۱ کنکریاں مارنا)
اختیاری ہے۔
مولد النبی ﷺ:
مروہ کے قریب حضور اکرم ﷺ کی پیدائش کی جگہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ۹ یا ۱۲
ربیع الاول کو نبی اکرم ﷺ رحمۃ للعالمین بن کر تشریف لائے تھے۔ اس جگہ پر
ان دنوں مکتبہ (لائبریری) قائم ہے۔
غار ثور:
یہ غار جبل ثور کی چوٹی کے پاس ہے۔ یہ پہاڑ مکہ سے چار کیلومیٹر کے فاصلہ
پر ہے اور غار ایک میل کی چڑھائی پر واقع ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ
ہجرت کے وقت اسی غار میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے ہمراہ تین دن قیام
فرمایا تھا۔
غار حِرا:
یہاں قران کریم نازل ہونا شروع ہوا تھا، سورہ اقراء کی ابتدائی چند آیات
اسی غار میں نازل ہوئی تھیں، یہ غار جبل نور (پہاڑ) پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ
مکہ مکرمہ سے منی جانے والے اہم راستہ پر مسجد حرام سے تقریباً ۴ کیلومیٹر
کی دوری پر واقع ہے۔ اس کی اونچائی تقریباً ۲ ہزار فٹ ہے۔
جنت المعلّٰی:
یہ مکہ مکرمہ کا قبرستان ہے۔ یہاں پر ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا،
صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین اور اولیاء اﷲ مدفون ہیں۔
مسجد عائشہ:
میقات اور حرم کے درمیان کی سرزمین کو حِل کہا جاتا ہے جس میں خود اُگے
ہوئے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے۔ مسجد حرام سے سب سے
زیادہ قریب حل کی جگہ تنعیم ہے جو مسجد حرام سے تقریباً ساڑھے سات کیلومیٹر
کے فاصلہ پر ہے، جہاں سے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا حج سے فراغت کے بعد عمرہ
کا احرام باندھ کر آئی تھیں،اس جگہ پر ایک عالیشان مسجد (مسجد عائشہ) بنی
ہوئی ہے، اب عرف عام میں اس علاقہ کو ہی مسجد عائشہ کہا جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ
میں رہتے ہوئے اگر کسی شخص کو عمرہ کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے تو حرم سے باہر
حل میں کسی جگہ مثلاً مسجد عائشہ سے احرام باندھا جاتا ہے۔ |