ایک آدمی ڈاکٹر کے کلینک میں
داخل ہوا اور اسکے دونوں کان جلے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نے وجہ پوچھی تو اس نے
کہا کہ میں بیگم کے کپڑے استری کر رہا تھا جب فون آیا تو جلدی میں بغیر
سوچے کان پر استری رکھ لی۔ ڈاکٹر نے کہا ٹھیک ہے مگر یہ دوسرا کان کیوں جلا
ہوا ہے تو آدمی نے جواب دیا فون دوبارہ بجا تھا۔
بجنے بجانے کی بات کی جائے تو عقل مشکل میں اور دانت سردی میں ایسے بجتے
ہیں کہ آپکو کام کرنے جوگا نہیں چھوڑتے چھوڑ چھاڑ کر سب کچھ بیٹھ جانا اور
کچھ نہ کرنے کا جو ٹرینڈ ہے اسکو عرف عام میں دھرنا کہاجاتا ہے۔ دھرنے میں
مرنے کے دعوے اسی طرح کئے جاتے ہیں جیسے عاشق و معشوق یہ دعوے کرتے دکھائی
دیتے ہیں جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ دھرنے میں مرنے کے وقت آگے آگے لیڈ کرنے
والے مرنے والا سبجیکٹ کسی اور کو سمجھتے ہوئے خود محفوظ اور محصور ہو جاتے
ہیں۔
انسان کی عقل بھی محصور ہو جائے تو کسی کام کا نہیں چھوڑتی خواہ عمر کوئی
بھی ہو اگر آپ نے عقل کی عمر نہیں بڑھائی تو کوئی فائدہ نہیں کہ آپکی عمر
کتنی ہی کیوں نہ ہوجائے آپ خود کو نظریات اور خیالات جو کہ فرسودہ ہون گے
ان میں محصور سمجھیں گے۔ سمجھ اور عقل کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ ایک
ہی وقت میں یہ کم خوش نصیب انسانوں کو ہی ملتے ہیں کیونکہ جب وقت ہوتا ہے
تو عقل نہیں ہوتی اور جب عقل ہوتی ہے تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔
دو دو ہاتھ کرنا ہر دور میں ہی ایسا طریقہ سمجھا جاتا ہے جو کہ آپکو آگے
اور بلندی تک لے جائے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہاتھ جو پتھراؤ اور زبان
کے الجھاؤ کے کام ذیادہ آئیں کبھی بھی ترقی یافتہ نہیں بنا سکتے۔ ترقی
یافتہ انسان تب ہی بنتا ہے جب خود پر تجسس اور شعور کے دروازے کھولے جائِں
اور یہ دروازے کھولنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کچھ پڑھے لکھے یہ ضروری
نہیں کہ ہمیشہ ہی سکول و کالج ہی علم کے در تک لے جاتے ہیں آج جب علم سمٹ
کر انٹرنیٹ سے ایک کلک پر ہے۔
جب ایک کلک کرکے آپ ان لوگوں تک سے ملنے کا شرف پاسکتے ہیں جو کہ اپنی فیلڈ
کے خاصے پڑھے لکھے اور زبردست لوگ مانے جاتے ہوں جو کہ شعور اور ادارک کے
لحاظ سے بلند تر سطح پر ہوں مگر ان تک جانے کی بجائے انتخاب انکا کیا جائے
جنکی اپنی ہی حالت بے حد پتلی ہو یہی وجہ ہے کہ چوک پر بیٹھ کر دوسروں کو
قسمت کا حال بتانے والے زندگی چوک میں ہی گزار جاتے ہیں کیونکہ زندگی کا
طریقہ بدلنے کی جستججو سے ذیادہ انکو کسی الہ دین کے چراغ کی ضرورت ہوتی ہے۔
آج اگر الہ دین کے چراغ ہوتے تو دحرنا ٹرینڈ کو فروغ دینے والے دھرنے کی
جگہ اس چراغ کو رگڑ کر ہی اس مقام و جگہ تک پہنچ گئے ہوتے جہاں تک پہنچنے
کے لئے دھرنے دئے جاتے ہیں اب بھلا بتاؤ کہ ہر شخص دحرنے کو زندگی کی وہ
فون کال سمجھ رہا ہے جو زندگی میں انقلاب لے آئے گی۔ انقلاب دھرنے لائے مگر
اس طرح کے دھرنے نہیں۔ نہیں کرنا کچھ تو سو موقع اور ذرائع بھی فارغ ۔ اگر
نہیں رہنا فارغ تو صفر موقع اور ذریعہ میں بھی انسان طریقہ نکال لاتا ہے۔
طریقہ ترقی کا یہ ن کرکے بھی سبق نہ سیکھا جائے اور بہت شوق سے دوسرا کان
بھی دوسری کال پر لال کر لیا جائے ورنہ یہ نہ ہو کہ انسان کو آخر میں بے
سرو ساماں یہی سوچنا پڑے کہ کاش صیح کال پر الرٹ ہوا ہوتا۔ یہ کال قدرت دے
رہی ہے مگر اس کال کو ملانے کے لئے پہلے خود ہاتھ پیر چلانا پڑتے ہیں۔ خدا
بھی انکی ہی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آُپ کرتے ہیں۔ دھرنے میں بیٹھ کر نہیں۔
زور بازو سے جدوجہد کرکے۔ |