بےغم اگر زندگی چاہو

ایک مولوی صاحب سے کسی نے کہا کہ میری بیوی دو ہفتے سے میکے گئی ہوئی ہے اور واپس آنے کا نام نہیں لے رہی ۔ مولوی صاحب نے آگے سے فرمایا "ماشاءاللہ، سبحان اللہ۔۔۔۔پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتیں جھٹلاؤ گے"۔ بیوی ویسے تو وہ نعمت ہے جو جب تک میسر نہ ہو اس وقت تک اس سے ذیادہ عظیم نعمت کوئی دوسری نعمت لگتی ہی نہیں۔ جب مل جائے تو اس سے ذیادہ بڑی نعمت مگر ن کی جگہ ز کے ساتھ پڑھیں، کوئی نہیں لگتی۔

بہت عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ جو اس مخلوق کی ایک تعداد کو جھیل سکتے ہیں اور اس سے بھی ذیادہ عظیم لوگ وہ ہوتے ہیں جو کہ اسکی ایک سے ذیادہ تعداد کو اس سے بھی ذیادہ خوشنودی سے جھیلنے کو تیار رہتے ہیں۔ اور ایک کے بعد ایک تعداد بڑھانے میں خوب کوشاں رہتے ہیں۔ ہاں پاکستان میں ایسا کر پانا اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ یہ لکھنا آسان ہے کیونکہ دوسری لانے پر پہلے والی کے ہاتھوں پٹنے کے بہت سے واقعات ہر ایک کی نظر سے ہی گزر چکے ہوں گے۔

جو چلے تو جاں سے گزر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔جو رکے تو بیوی سے پٹ گئے۔۔۔کیونکہ کچھ لوگوں کو پٹے بغیر آگے جانا مشکل ترین ہی دکھائی پڑتا ہے۔ دکھائی اپنے بچے سب سے معصوم اور دوسروں کی بیوی سب سے حسین دینا ایک عام سی بات ہے۔ عام سی محبوبہ اور عجوبہ مگر خوبصورت بیوی بھی عام ہی لگتی ہے۔ اب خود چاہے آم سے بھی ذیادہ عام ہوں مگر بیگم ضرور خاص ہی چھانی جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں پھر جان مشکلوں میں پڑ جاتی ہے کیونکہ مشاہدہ یہی ہے کہ خدا جب حسن دیتا ہے تو نزاکت آہی جاتی ہے اب اس نزاکت کو انجام دہی امور گھریلو میں بڑی رکاوٹ بھی سمجھا جاتا ہے۔

سمجھنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی کڑی کا سلیقہ دیکھنا ہو تو اسکی ماں کا سلیقہ دیکھنا چاہئے اب یہ اور بات ہے کہ اب ماں کو دیکھنے کی زحمت کی جاتی ہے تو وہ بھی اس چکر میں کی جاتی ہے کہ جی آخر کو بعد میں اس والدہ کی بیٹی کا ڈیل ڈول ماں کی عمر کو پہنچ کر کتنا پھیل جائے گا۔ کیونکہ لڑکے والا ہو کر انسان پھیلے نہ تو بات نہیں بنتی۔ منتی بات کو جو بگاڑے اس مخلوق کو بھی بیوی ہی کہتے ہیں کینکہ جو سنے آدھی، سنائے دوگنا تو بیوی تو نہ ہوئی نا اور یہ کام ایسا ہے جو کہ ایک بے چارہ شوہر کے قبیلے سے تعلق رکھنے والا شخص جتنا ہی نہ کرنے کا کہے پھر بھی کیا جانا بیوی اپنا بناء بتا ئے فریضہ سمجھتی ہے۔
فریضہ تو دونوں لوگوں کا ہی الگ الگ ہے اب یہ اور بات ہے کہ اب زمانہ جیسا چل رہا ہے دونوں نے ہی ایک دوسرے کا بوجھ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ بوجھ اٹھانے اور بے جا اٹھانے کے لئے گدھا مشہور ہے مگر گدھے اور دو پیروں والے گدھے میں فرق یہ ہے کہ ایک ذہنی بوجھ کچھ ذیادہ ہی اٹھاتا ہے اور نتیجے کے طور پر ہر ایک سے معاملہ بگاڑنے میں اکثر ہی پیش پیش نظر آتا ہے۔

پیش نظر اگر زندگی گزارتے ہوئے صنف کرخت یہ بات رکھے کہ صنف نازک نام کی بھی اور عقل کی بھی تھوڑی کمزور ہے سو ہر وقت چلانا، طعنے دینا، طنز کے تیر بتانا جو کام نہیں کیا وہ جتلانا، دل دکھانا اور منہ بنانا اور پھر بنوا دینا ایک پر سکون زندگی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے آخر کو نزاکت کی وجہ سے غلطی کا امکان بھی ذیادہ ہی ہے ۔
 
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 293331 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More