ایک شیر کی شادی میں ایک چوہا
بھی پی کر خوشی سے ناچ رہا تھا تو ایک شیر نے پوچھا چوہے، توجنگل کے بادشاہ
کی شادی میں کیوں ناچ رہا ہے تو چوہے نے جواب دیا کہ میں بھی شادی سے پہلے
شیر ہی تھا ۔ ویسے تو پاکستان میں سیاسی شیر بھی خاصا مشہور ہے اور آجکل تو
خاص طور پر زورو شور سے پٹ رہا ہے۔ مگر آج بات ہے کچھ گھر کے شیر کی جو کہ
ہر گھر میں پایا جاتا ہے مگر یہ بات شیر خود ہی جانتا ہے کہ وہ کتنے فیصد
چوہا اور کتنے فیصد شیر ہے؟
شیر جو کہ گھروں کے شیر ہیں ان میں اکثریتی کی حالت خاصی نحیف و نزار،
کندھے جھکائے، آنکھیں شرمنگی سے جھکائے، آواز بھی لو ٹیون پہ رکھے اور ابتر
حالت میں نظر آتی ہے۔ گھر کی نظر آتی حالت اکثر شیروں کی حالت کے بالکل بر
عکس ہوتی ہے۔ ہوتی ایسی ہے جیسی کہ اوپر بیان کئے گئے شیر کی ہے اس سے
بالکل اُلٹ۔ اُلٹ تو اس شیر کی بیگم گھر کا نظام سکتی ہے اگر شیر کسی بھی
حکم کی سرتابی کرتا پایا جائے۔ اسی لئے سر ہاں میں ہلانے کی پریکٹس ہی شادی
کے کچھ وقت بعد سے خاصی پکی ہوجاتی ہے کہ آخر تک آتے آتے گرن آٹو میٹک
طریقے سے اوپر و نیچے ہی ہلتی رہتی ہے۔
ہل جل تو انسانی زندگی کا ایک حصہ ہی ہے انسان کو ہلتے جلتے رہنا بھی چاہئے
کیونکہ بہت سی بیماریوں سے بچنا نصیب ہوتا ہے اور انسان شیرنی کے عتاب سے
بھی بچ جاتا ہے کیونکہ شیرنی کود کوئی کام کرے یانہ کرے مگر شییر کو چین سے
نہیں بیٹھنے دے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شیر اکثر سلم اور شیرنیاں اکثر فربہ
ہی نظر آتی ہیں۔ مگر پھر بھی دنیا سے کوچ کر جانے والوں میں پہلا نمبر عام
طور پر شیروں کا ہی لگتا ہے بہت سے لوگوں کی رائے میں ایسا ہونا ہی شیر کے
لئے ذیادہ بھلے کی بات ہو گی آخر کو کب تک شیرنی کی چنگھاڑ برداشت کی جائے
شاید اسی وجہ سے شیرنیوں کی آواز بھی پھٹے ڈھول جیسی ہی ہو جاتی ہے۔
ہونے کو تو دنیا میں کیا کچھ نہیں ہو سکتا مگر شیروں کو انکے حقوق اور گھر
میں برابری کی سطح کے حقوق ملنا دنیا کا مشکل ترین قریب قریب مناممکن کا م
ہے اور یہ بھی ناممکن بات ہے کہ انکے حقوق کے لئے کوئی ان جی اوز یا ادارے
کام کرنا شروع کریں آخر کو ایک طویل عرصے سے صرف و صرف شیرنیوں کو ہی حقوق
دینے کے لئے انکی خاطر ہی فنڈ ریزنگ اور ظلم و ستم کے خاتمے اور حقوق سے
آگاہی کا دن منایا جارہا ہے جبکہ شیروں کو تو کوئی پوچھتا بھی نہیں کہ آخر
کو وجود زن سے ہی ہے تصویر کائنات میں رنگ۔
اس کائنات میں رنگ دونوں اصناف کی وجہ سے ہی ہے اور زندگی کا پہیہ بھی خوشی
و شادمانی و فرحت کی طرف اسی صورت میں دوڑتا ہے جب ایک دوسر کا خیال اور
حقوق و فراءض کی ادائیگی و کچھ دل سے ایک دوسرے کا خیال کرنے کا خیال کیا
جائے نہ کہ صرف ایک فریق کو دبانے اور دوسرے کے حقوق کو نظر انداز کرکے کسی
پاتا میں ڈالنے اور صرف دوسروں کو فرائض یاد دلانے میں ہی توانائیاں صرف کر
دی جائیں تو زندگی ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسی کہ نہیں ہونی چاہئے۔۔۔۔۔۔۔تکلیف
دہ، مشکل، ناقابل برداشت، بیزار |