ایک زمانہ تھا کہ زمین کا نصف حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا تھا۔
انسانوں نے شہر بسائے اور دوسری ضرورتوں کے لیے جنگلوں سے درخت کاٹے تو
جنگلوں کا رقبہ کم ہوتا گیا۔ اِس وقت جنگلات کرۂ ارض کے ایک تہائی حصے پر
محیط ہیں اور دنیا کے ہر گوشے میں پائے جاتے ہیں۔ جیسے ہی آپ کسی جنگل میں
قدم رکھتے ہیں آپ کے پھیپھڑے تازہ ہوا سے بھر جاتے ہیں۔ آپ کے حواس گویا
بیدار ہو جاتے ہیں اور آپ اپنے اردگرد موجود رنگا رنگ حیات سے آگاہ ہوتے
ہیں لیکن جنگل ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں آپ کو علم نہیں ہوتا کہ اگلے قدم
پر آپ کے سامنے کیا آنے والا ہے۔ آپ ہر قدم پر اک نئے جہان سے پہلی بار
آگاہ ہوتے ہیں۔ جنگل ہی وہ جگہ ہے جہاں آپ کو فطرت کے عطا کردہ بے پایاں
سکون اور راحت کا احساس ہوتا ہے۔ جنگل میں جا کر آپ ٹیکنالوجی، سائنس اور
تیز رفتاری کی دنیا سے کٹ جاتے ہیں۔ جنگل میں آپ کو خیال افروز تنہائی کا
عمیق احساس ہوتا ہے۔
اگرچہ جنگلات مختلف اقسام کے ہوتے ہیں تاہم سب کی مشترک اور نمایاں ترین
خصوصیت یہ ہے کہ ان میں درختوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور مختلف اقسام
کے جانور اور پرندے یہاں بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ ماہرین نے جنگلات کو تین
حصوں میں بانٹا ہوا ہے: پہلا حصہ جنگل کا فرش، دوسرا حصہ اَنڈر سٹوری اور
تیسرا حصہ کینوپی۔ جنگل کا فرش مٹی، مردہ پودوں، جانوروں، جنگلی پھولوں اور
گھاس پر مشتمل ہوتا ہے۔ انڈر سٹوری چھوٹے درختوں اور جھاڑیوں پر مشتمل ہوتا
ہے۔ اسے جھاڑیوں والا حصہ بھی کہا جاتا ہے۔ کینوپی نامی حصہ درختوں کے پتوں
اور ٹہنیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ جنگل کا غالب ترین حصہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے
مطابق جنگلات کی چار اقسام ہیں: استوائی جنگلات، منطقۂ معتدلہ کے برگ ریز
درختوں والے جنگلات، منطقۂ معتدلہ کے سدابہار درختوں والے جنگلات اور قطبِ
شمالی کے جنگلات۔ استوائی جنگلات خطِ استوا کے گرد پائے جاتے ہیں۔ ان
جنگلات میں دوسرے تمام جنگلات سے زیادہ انواع کے درخت پائے جاتے ہیں۔ ان
جنگلات کا درجۂ حرارت سارا سال 20 درجے سیلسیئس سے 25 درجے سیلسیئس تک
رہتا ہے۔ ان جنگلات میں سرما کا موسم گویا آتا ہی نہیں۔ ان جنگلات میں 254
سینٹی میٹر سالانہ بارش ہوتی ہے۔ استوائی جنگلات میں پائے جانے والے درخت
82 سے 115 فٹ تک اونچے اور چوڑے پتوں والے ہوتے ہیں۔ ان جنگلات میں مختلف
اقسام کے پرندے، چمگادڑیں، بندر، سانپ اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیں۔
منطقۂ معتدلہ کے برگ ریز درختوں والے جنگلات امریکہ، کینیڈا، مغربی یورپ،
روس کے کچھ حصوں، چین اورجاپان میں پائے جاتے ہیں۔ ان جنگلات میں چاروں
موسم آتے ہیں۔ موسمِ گرما، بہار اور خزاں میں بارش جب کہ موسمِ سرما میں
برف باری ہوتی ہے۔ ان جنگلات میں ہر سال 77 سینٹی میٹر سے 153 سینٹی میٹر
تک بارش ہوتی ہے۔ ان جنگلات میں میپل، شاہ بلوط اور شیتل کے درخت پائے جاتے
ہیں۔ صنوبر اور دوسرے سدابہار درخت بھی ان جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔ ان
جنگلات میں پائے جانے والے جانوروں اور پرندوں میں شامل ہیں سرخ لومڑی،
شاہین اور ہُدہُد۔ منطقۂ معتدلہ کے سدا بہار درختوں والے جنگلات ساحلی
علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان جنگلات کا درجہ حرارت معتدل ہوتا ہے۔ یہاں
سارا سال بارش ہوتی ہے۔ ان جنگلات میں دیار، شمشاد، صنوبر اور چیڑ کے درخت
پائے جاتے ہیں۔ ان جنگلات میں پائے جانے والے خشکی اور تری کے جانور اور
پرندوں میں شامل ہیں ہرن، ریچھ، الو، بارہ سنگھے، گلہریاں، بطخ اور سامن
مچھلی۔ قطبِ شمالی کے جنگلات کرۂ ارض کے انتہائی شمالی حصے میں پائے جاتے
ہیں۔ یہ جنگلات کینیڈا، شمالی ایشیا، سائبیریا اور سکینڈے نیویا (ڈنمارک،
ناروے، سویڈن، فن لینڈ) میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے جنگلات میں سے تقریباً دو
تہائی سکینڈے نیویا میں پائے جاتے ہیں۔ ان جنگلات میں موسمِ سرما بہت لمبا
جب کہ موسمِ گرما بہت مختصر ہوتا ہے۔ یہاں برف باری زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں ہر
سال 38 سینٹی میٹر سے 102 سینٹی میٹر تک بارش ہوتی ہے۔ یہاں پائے جانے والے
بیش تر درخت سدابہار ہوتے ہیں۔ ان میں دیار، چیڑ، صنوبر وغیرہ کے درخت شامل
ہیں۔ یہاں ایسے جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں جو لمبے موسمِ سرما میں جی
سکتے ہیں جن میں برفانی بھیڑیئے، برفانی خرگوش، برفانی ریچھ اور برفانی
لومڑیاں شامل ہیں۔ آئیے تخیل کو تحریک دینے والے الفاظ کے ذریعے دنیا کے
خوب صورت ترین جنگلوں کی ’’سیر‘‘ کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ دلچسپ رپورٹ
دنیا میگزین کی شائع کردہ ہے جو ہماری ویب کے قارئین کی معلومات میں اضافے
کے لیے یہاں شائع کی جارہی ہے-
|
1۔ ساگانو بیمبو فاریسٹ
بانسوں کا یہ پرشکوہ اور دلکش جنگل جاپان کے شہر کیوٹو کے مضافات میں واقع
ہے۔ یہ جنگل کیوٹو شہر کے شمال مغرب میں ٹینریو جی معبد کے نزدیک واقع ہے۔
یہ تقریباً سولہ مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ کیوٹو سے سیاح بذریعہ
ریل صرف آدھے گھنٹے میں اس خوب صورت جنگل تک پہنچ سکتے ہیں۔یہ جنگل جس
علاقے میں واقع ہے اس کا نام ہے اراشی یاما۔ یہ علاقہ جاپان کے ہائی آن
دَور (794-1185) سے سیر و تفریح کا مرکز چلا آ رہا ہے۔ اُس زمانے کے
نوابین و اُمرا فطرت کے حسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس جنگل کی سیر تواتر
و تسلسل سے کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں جاپان کے لوگ بدھ مت اور تاؤمت سے
بہت متاثر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فطرت سے نزدیک تر ہو گئے تھے۔ بانس بنیادی
طور پر گھاس ہے لیکن بانس کی بعض اقسام اتنی اونچی ہوتی ہیں کہ بانس بالکل
درختوں جیسے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ساگانو بیمبو فاریسٹ میں تو کرۂ ارض کے
خوب صورت ترین بانس اگے ہوئے ہیں۔ ان کی اونچائی 150فٹ تک ہے۔ ان کی تعداد
ہزاروں میں ہے۔ ان بلند ترین بانسوں کا نظارہ دیکھنے والوں پر سحر طاری کر
دیتا ہے۔ یہ جنگل جاپان کے چند معروف اور اہم ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
سیر و تفریح کے دل دادہ لوگ موسمِ خزاں میں خصوصاً اس علاقے کی سیر کرنے
آتے ہیں کیوں کہ یہاں اس موسم میں چیری کے پھول کھِلتے ہیں۔ ساگانو بیمبو
فاریسٹ نہ صرف بانسوں کے دلکش نظارے کی وجہ سے معروف ہے بلکہ یہ جنگل ایک
منفرد سبب سے بھی مشہور ہے۔ اس کی شہرت کا وہ منفرد سبب یہ ہے کہ جب ہوا ان
ہزاروں اونچے اونچے بانسوں سے گزرتی ہے تو ایک نہایت دلنشیں آواز پیدا
ہوتی ہے جو اپنی انفرادیت کے باعث اس دنیا کی بجائے غیر ارضی آواز محسوس
ہوتی ہے۔ جاپانی حکومت نے اس آواز کو ’’جاپان کی سَو لازماً محفوظ کی جانے
والی آوازوں‘‘ میں شامل کیا ہے۔ یہ آواز تب پیدا ہوتی ہے جب ہوا چلنے سے
بانسوں کے پتے تنوں سے ٹکراتے ہیں۔ یہ آواز موسیقی کی نفیس ترین دُھنوں سے
زیادہ مَدُھر اور پُراثر ہے۔ اس جنگل کے بانسوں کے بارے میں لوگوں کا عقیدہ
ہے کہ یہ انہیں کائنات کی منفی قوتوں کے شر سے محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ جنگل
پہاڑوں کے اردگرد واقع ہے۔ پہاڑوں کی چوٹی تک جانے والا راستہ اس جنگل سے
گزرتا ہے۔ یہ راستہ انسان پر جادو کر دیتا ہے۔ اس راستے پر کیا جانے والا
سفر انسان کو لافانی اور بے بدل مسرت دیتا ہے۔ اس راستے کے اردگرد کے مناظر
اتنے حسین ہیں کہ انسان کا دل سکون کے گہرے احساس سے معمور ہو جاتا ہے؛
ایسا سکون جو روح تک اثر کرتا ہے۔ جاپانی حکومت نے پہاڑ کی چوٹی پر
’’ماؤنٹین پارک‘‘ بنایا ہے۔ یہ پارک بھی اپنے فطری حسن کے باعث بہت معروف
ہے۔ اس جنگل سے متعلق ایک دل چسپ سائنسی حقیقت یہ ہے کہ جس زمانے میں
ایڈیسن اپنے بلب کے فِلامنٹ کے لیے بانسوں پر تجربے کر رہا تھا تو اس نے اس
جنگل کے بانسوں سے استفادہ کرنے پر بھی غور کیا تھا۔ ان بانسوں سے مختلف
چیزیں بھی بنائی جاتی ہیں جنہیں سیاح بہت شوق سے خریدتے ہیں۔ اس کے علاوہ
اس جنگل کے بانسوں کو عمارتوں کی تعمیر میں، جاپانی فنونِ لطیفہ میں،
ٹیکسٹائل مصنوعات میں اور کاغذ سازی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ساگانو بیمبو
فاریسٹ میں اگے ہوئے بانسوں کا رنگ ہرا ہے۔ جب سورج کی روشنی میں آپ
آسمان کی طرف دیکھیں گے تو بانسوں سے چھَن کر آتی دھوپ کی کرنیں اک عجب
نظارہ پیش کریں گی۔ اس علاقے کا موسم واقعتاً ایسا ہے کہ پیش گوئی نہیں کی
جا سکتی کہ کب مطلع صاف ہوگا اورکب بارش برسنے لگے گی۔ اس جنگل میں 200
میٹر پر محیط واکنگ ٹریک بنایا گیا ہے جو اونچے اونچے ہرے بانسوں کے گھنے
جھُنڈوں میں سے گزرتا ہے۔ اس راستے کی دونوں اطراف میں بانسوں کی باڑھ
لگائی گئی ہے۔ اس لیے اس ٹریک پر سے گزرتے ہوئے جنگل میں اگے بانسوں کو
قدرے فاصلے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس جنگل کی ایک اور انوکھی خصوصیت بانسوں
کی مہک بھی ہے جو اس جنگل کی سیر کرنے والوں پر سحر طاری کر دیتی ہے۔ |
|
2۔ جائنٹ سِکوئیا نیشنل فاریسٹ
یہ جنگل امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں جنوبی سیرانیواڈا کے پہاڑوں میں
واقع ہے۔ اس جنگل کو یہاں اگے ہوئے جائنٹ سِکوئیا کے عظیم الشان درختوں کی
وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔ جائنٹ سِکوئیا نامی درخت دنیا کا سب سے اونچا
درخت ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا یہ سب سے اونچا درخت صرف آدھا انچ
لمبے بیج سے اگتا ہے! مکمل پروان چڑھنے کے بعد اس درخت کی اونچائی 250 فٹ
تک پہنچ جاتی ہے۔ بعض درخت ایسے بھی ہیں جو 300 فٹ سے بھی زیادہ اونچے ہیں۔
اس درخت کی ایک اور صفت بھی ہے۔ اس کا تنا دوسرے تمام درختوں کے تنوں کی
نسبت بہت موٹا ہوتا ہے۔ جائنٹ سِکوئیا نیشنل مونیومینٹ میں ایک جائنٹ
سکوئیا ایسا بھی ہے جس کے تنے کا گھیر 35 فٹ ہے۔ چھ آدمی ایک دوسرے سے سر
جوڑ کر لیٹیں تو اس کے گرد لپٹ سکتے ہیں۔ اس جنگل کی حدود میں جائنٹ
سِکوئیا درختوں کے 33جھنڈ ہیں۔ یہ جنگل 4829 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط
ہے۔ جائنٹ سِکوئیا نیشنل مونیومینٹ کا ڈیزائن امریکہ کے ایک صدر ولیم
جیفرسن کلنٹن نے اپریل 2000ء میں تیار کیا تھا اور یہ منصوبہ اگست 2012ء
میں تکمیل کو پہنچا۔ دنیا کا سب سے اونچا اور سب سے بڑے تنے والا درخت
’’بُول ٹری‘‘ بھی اسی جنگل میں ہے۔ یہ درخت 269 فٹ (82 میٹر)اونچا ہے۔ اس
کے تنے کی موٹائی 35 فٹ (11 میٹر) ہے۔اس جنگل کی دوسری قابلِ ذکر خصوصیات
میں شامل ہیں دریائے کرن (kern) اور دریائے کنگز کی وادیاں، بوائڈن غار،
بالچ پارک، کئی پہاڑی جھیلیں اور ٹراؤٹ مچھلی سے بھری کئی ندیاں۔ جنرل
شرمن نامی درخت بھی اسی جنگل میں موجود ہے۔ یہ دنیا کا واحد ایک تنے والا
سب سے اونچا درخت ہے۔ اس کی اونچائی 275 فٹ (83.8 میٹر) ہے۔ اس کے تنے کا
گھیر7.7 میٹر (25 فٹ) ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی عمر 2300 سے 2700 سال ہے۔
|
|
3۔ ریڈ وُڈ نیشنل پارک
یہ دنیا کے بلند ترین درختوں پر مشتمل جنگل ہے۔ یہ کیلی فورنیا کے شمال
مغربی گوشے میں واقع ہے۔ ریڈ وُڈ نیشنل پارک 445 مربع کلومیٹر رقبے پر محیط
ہیں۔ اس جنگل میں بہت سے ایسے جانور بھی موجود ہیں جن کی بقا کو ماہرین کے
مطابق خطرات لاحق ہیں۔ ان میں شامل ہیں براؤن پیلی کَن، ٹائیڈ واٹر گوبی،
چِنوک سامن، شمالی دھبے دار الو، سٹیلرز سی لائن۔ امریکی حکومت نے ان
جانوروں، درختوں اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے 5 ستمبر 1980ء کو
اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے دیا جب کہ 30 جون 1983ء کو اسے انٹرنیشنل
بایوسفیئر ریزرو قرار دیا گیا۔اس جنگل کی ثقافتی اہمیت یہ ہے کہ یہاں قدیم
امریکی باشندے آج بھی آباد ہیں۔ وہ لگ بھگ 3000 سال پہلے یہاں آئے تھے۔
یہاں کوسٹ ریڈوُڈ نامی درخت پائے جاتے ہیں جو دنیا کے سب سے زیادہ لمبی عمر
پانے والے درخت ہیں۔ 1963ء میں ’’ٹال ٹری‘‘ کہلانے والے ایک درخت کی
اونچائی 367.8 فٹ (112.1 میٹر) ناپی گئی تھی۔ اس کا تنا 14 فٹ (4 میٹر)موٹا
تھا۔ ریڈوُڈ نامی درخت 2000 سال تک زندہ رہ سکتے ہیں بہ شرطے کہ اس دوران
انہیں آتش زنی سے محفوظ رکھا جائے۔ امریکہ کی لاتعداد فلموں میں اس جنگل
کے مناظر دکھائے جا چکے ہیں۔ Star Wars Episode VI: Return of the Jedi میں
سیارہ اینڈور کے مناظر اس جنگل کے ٹال ٹریز ریڈ وُڈ گروو میں فلمائے گئے
تھے۔ یہ جنگل Rise of the Planet of the Apes نامی فلم میں بھی دکھایا گیا
ہے۔ ان فلموں کے علاوہ Walking with Dinosaurs, Dinosaurs Alive! میں بھی
یہ جنگل دکھایا گیا ہے۔
|
|
4۔ شوارزوالڈ یا بلیک فاریسٹ
یہ جنگل جنوب مغربی جرمنی میں بیڈن ورٹمبرگ کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔ یہ
6009 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ اس کی چوڑائی 16.0934 کلومیٹر سے
40.2336 کلومیٹر تک ہے۔ اس کے مغرب اور جنوب میں وادیٔ رائن واقع ہے۔ اس
جنگل کو بلیک فاریسٹ کا نام رومیوں نے دیا تھا جس کا سبب یہ تھا کہ اس جنگل
میں اگے ہوئے طویل قامت صنوبر کی قسم کے نہایت گھنے درخت دھوپ کی روشنی اس
جنگل کی زمین تک نہیں پہنچنے دیتے تھے۔اس جنگل میں پینڈولم والے گھڑیال
’’کُکو کلاک‘‘ تیار کیے جاتے ہیں جن کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر گھنٹے بعد کوئل
کی آواز سنائی دیتی ہے اور ایک کوئل گھڑیال کے اندر سے نکل کر باہر آ
جاتی ہے۔ وادیٔ کنزگ نے اس جنگل کو دو حصوں میں بانٹا ہوا ہے۔ اس جنگل کے
روایتی پیشوں میں شامل ہیں بڑھئی کا کام، گھڑی سازی اور آلاتِ موسیقی کی
تیاری۔
|
|
5۔ جیوژائیگو وادی
جیوژائیگو وادی کے معنی ہیں ’’نو(9) بستیوں والی وادی۔‘‘ اسے یہ نام اس لیے
دیا گیا ہے کہ اس کے ساتھ نو(9) تبتی بستیاں آباد ہیں۔ یہ عوامی جمہوریۂ
چین کے صوبے سیچوان میں صوبائی دارالحکومت چینگ ڈو کے شمال میں 330کلومیٹر
کی دوری پر واقع ہے۔ یہ سطحِ مرتفع تبت کے مِن پہاڑوں میں واقع ہے۔ یہ
نیشنل پارک 720 کلومیٹر پر محیط ہے۔ یہ وادی آبشاروں، دل کش جھیلوں اور
برف سے ڈھکی چوٹیوں کے لیے معروف ہے۔ اس کی اونچائی 2000 میٹر سے 4500 میٹر
تک ہے۔ یونیسکو نے 1992ء میں اسے عالمی ورثہ قرار دیا تھا جب کہ 1997ء میں
اسے ورلڈ بایوسفیئر ریزرو قرار دیا گیا۔ تبتی اور چیانگ نسلوں کے لوگ صدیوں
سے اس جگہ آباد ہیں۔ 1979ء تک یہاں سے درخت بڑی تعداد میں کاٹے جاتے رہے۔
آخر چینی حکومت نے درختوں کی کٹائی پر پابندی لگا دی اور 1982ء میں اسے
نیشنل پارک کا درجہ دے دیا۔ 1984ء میں اسے سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا۔ اس
وقت سے یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔
|
|
6۔ مونٹ ورڈے کلاؤڈ فاریسٹ ریزرو
یہ جنگل کوسٹا ریکا میں واقع ہے۔ اسے یہ نام قریبی قصبے مونٹ ورڈے کے نام
پر دیا گیا ہے۔ کلاؤڈ فاریسٹ کا رقبہ 10500 ہیکٹر (26000 ایکڑ) ہے۔ ہر سال
70000 سیاح اس ریزرو کی سیر کرنے آتے ہیں۔ اس جنگل کی ایک منفرد خصوصیت یہ
ہے کہ یہاں درختوں اور پودوں کی 25000 سے زیادہ، ممالیا جانوروں کی 100،
پرندوں کی 400 اور خزندوں یعنی رینگنے والے جانوروں کی 120 انواع پائی جاتی
ہیں۔ ان کے علاوہ ہزاروں اقسام کے کیڑے مکوڑے یہاں پائے جاتے ہیں۔ اسی باعث
نہ صرف سیاح بلکہ سائنس دان بھی کثیر تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ یہ جنگل
دنیا کے حیاتی تنوع کے 2.5 %کا حامل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کوسٹا ریکا کرۂ
ارض کے %0.03 حصے پر محیط ہے جب کہ وہ دنیا کے مجموعی حیاتی تنوع کے 5 %کا
حامل ہے۔اس جنگل سے ہونے والی پوری کی پوری آمدنی تعلیمی اور تحقیقی مقاصد
پر خرچ کی جاتی ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ کونٹی
نینٹل ڈیوائیڈ یہاں واقع ہے جس پر آپ یوں کھڑے ہو سکتے ہیں کہ آپ کا ایک
پاؤں کیریبیئن سائیڈ پر رکھا ہوگا اور دوسرا پاؤں پیسیفک سائیڈ پر۔ اپنے
دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ یادگار تصویر کھنچوانے کے لیے یہ مقام بہت معروف
ہے۔
|
|
7۔ ڈینٹری رین فاریسٹ
یہ جنگل آسٹریلیا کے شمال مشرق میں کوئینز لینڈ کے ساحلی علاقے میں واقع
ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کرہ ارض پر پایا جانے والا سب سے پرانا ٹروپیکل رین
فاریسٹ ہے۔ یہ بِلا تعطل پچھلے گیارہ کروڑ سال سے موجود چلا آ رہا ہے۔ یہ
جنگل 12000 مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہے۔ اس کا نام ایک آسٹریلیائی
ارضیات دان اور فوٹوگرافر رچرڈ ڈینٹری (1832-1878)کے نام پر رکھا گیا تھا۔
آسٹریلیا کے مینڈکوں، رینگنے والے جانوروں اور تھیلی دار جانوروں
مارسوپیال کی 3 %انواع جب کہ آسٹریلیا کی چمگادڑوں اور تتلیوں کی 90 %انواع
اس جنگل میں پائی جاتی ہیں ۔ آسٹریلیا میں پائے جانے والے پرندوں کی
مجموعی انواع میں سے 7 %اس جنگل میں پائی جاتی ہیں۔ کیڑے مکوڑوں کی
12000انواع بھی اس جنگل میں پائی جاتی ہیں۔ یہ تمام تر حیاتی تنوع
آسٹریلیا کے خشکی کے مجموعی رقبے کے صرف 0.1 %حصے میں پایا جاتا ہے۔ کرۂ
ارض پر پھول دار پودوں کی مجموعی طور پر 19 قدیم ترین انواع پائی جاتی ہیں
جن میں سے 12 انواع ڈینٹری میں موجود ہیں۔ اس طرح یہ پھول دار پودوں کی
قدیم ترین انواع کا دنیا کا سب سے بڑا مرکز بن گیا ہے۔ پودوں کے یہ قدیم
خاندان پھول دار پودوں کے آغاز و ابتدا سے متعلق بہت سے ایسے سوالوں کے
جواب فراہم کر سکتے ہیں جنہیں سائنس دان آج تک پا نہیں سکے۔ نوعِ انسان
غذا اور دوا کے لیے ان پھول دار پودوں سے استفادہ کرتی آئی ہے۔ ڈینٹری نہ
صرف سائنس دانوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے بلکہ اپنے منفرد قدرتی خواص کے
باعث عام لوگوں کے لیے بھی بہت قابلِ توجہ مقام ہے۔ اس جنگل کے مناظر من
موہ لینے والے حسن و دل کشی کے حامل ہیں۔ یہاں موجود پہاڑی سلسلے، تیز
رفتار ندیاں اور آبشاریں، گہری گھاٹیاں اور درختوں کے بے حدگھنے جھنڈ سیر
کرنے والوں کے دلوں کو گہرا سکون عطا کرتے ہیں۔
|
|
8۔ ایمیزون رین فاریسٹ
یہ دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے ۔ ایمیزون جنگل کا رقبہ 5,500,000 مربع
کلومیٹر ہے۔ایمیزون جنگل برِاعظم جنوبی امریکہ کے نو (9) ملکوں کی حدود میں
پھیلا ہوا ہے۔اس کا زیادہ حصہ برازیل میں واقع ہے۔ برازیل میں اس جنگل کا
60 فی صد حصہ، پیرو میں 13 فی صد، کولمبیا میں 10 فی صد جب کہ وینزویلا،
ایکواڈور، بولیویا، گیانا، سری نام اور فرینچ گیانا میں تھوڑے تھوڑے حصے
موجود ہیں۔ اس جنگل میں 16000 انواع کے 390 ارب درخت موجود ہیں۔ سائنس
دانوں کے مطابق یہ جنگل کم از کم ساڑھے پانچ کروڑ سال سے موجود چلا آ رہا
ہے۔ انسان ایمیزون کے خطے میں کم از کم 11200 سال پہلے آباد ہوئے تھے۔
دنیا میں جانوروں اور پودوں کی ہر دس(10) معلوم انواع میں سے نو (9) انواع
ایمیزون جنگل میں موجود ہیں۔ اس طرح اس جنگل میں جانوروں اور پودوں کی سب
سے زیادہ زندہ انواع موجود ہیں۔ ایمیزون کے خطے میں کیڑوں مکوڑوں کی پچیس
لاکھ انواع، پودوں کی دسیوں لاکھ انواع جب کہ پرندوں اور ممالیا جانوروں کی
تقریباً 2000 انواع موجود ہیں۔ سائنس دان اب تک اس خطے میں سے پودوں کی
40,000 انواع، مچھلیوں کی 2,200 انواع، پرندوں کی 1294 انواع، ممالیا
جانوروں کی 427 انواع، خشکی اور پانی میں زندگی بسر کرسکنے والے جانوروں
ایمفی بیئنزکی 428 انواع اور رینگنے والے جانوروں کی 378 انواع کی درجہ
بندی کر چکے ہیں۔ کرۂ ارض پر پائے جانے والے جاں داروں کی معلوم انواع میں
سے 20 فی صد ایمیزون جنگل میں پائی جاتی ہیں۔ دنیا میں اب جتنے جنگل مجموعی
طور سے باقی رہ گئے ہیں ایمیزون ان کے 54 فی صد حصے پر مشتمل ہے۔ دریائے
ایمیزون اسی جنگل سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس دریا کی لمبائی 6437.38 کلومیٹر ہے۔
ایمیزون جنگل کو ’’کرۂ ارض کے پھیپھڑے‘‘ کہا جاتا ہے کیوں کہ دنیا کی
مجموعی آکسیجن کا 20 فی صد یہاں پیدا ہوتا ہے۔ ایمیزون جنگل میں پائے جانے
والے پرندے دنیا کے تمام پرندوں کی ایک تہائی انواع پر مشتمل ہیں۔ سائنس
دانوں کے تخمینے کے مطابق دنیا میں پودوں، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی
انواع کی مجموعی تعداد ایک کروڑ ہے۔ ان میں سے آدھی یعنی پچاس لاکھ انواع
ایمیزون جنگل میں پائی جاتی ہیں۔ ایمیزون جنگل میں انسانوں کے کھانے کے
قابل پھلوں کی تعداد 3000 ہے۔
|
|