حجاج کو طیبہ کی حاضری مبارک:خدایا! ایں کرم بارِ دگر کن
(Ghulam Mustafa Rizvi, India)
آزادی فطری تقاضا ہے۔ غلامی کی زنجیریں جس دن ٹوٹتی ہیں؛آزادی کا
سویرا پھوٹتا ہے، اس دن کی یاد منائی جاتی ہے۔ دنوں کی اسلامی اہمیت ہے،
ایام اﷲ سے اس کی عظمت کا اظہار ہے۔ ملکی و قومی تاریخ کا دھارا ہرسال
تجدیدِ ایامِ خاص کرکے اپنی تاریخ کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ہماری تاریخ کا
محور ارضِ حرمین ہے۔ سرزمین حجاز ہے۔ جہاں سے توحیدورسالت کا پیغام ملا اور
انسانیت استبداد وظلم کے پنجے سے آزاد ہوئی۔پیغام توحید ورسالت کو دلوں کے
کانوں سے سنا گیا،اور روح نے محسوس کیا۔ حج کی سعادت محسنِ انسانیت پیغمبر
اعظم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارشادات کی تعمیل ہے۔ اورمکہ معظمہ عظیم
پیغمبروں کی یادگار و عظمت کا نشانِ اعظم ہے ۔ ہر سال حج کیا جاتا ہے۔ اپنی
تاریخ کے صدیوں پرانے نقوشِ تابندہ کی یادیں تازہ کی جاتی ہیں۔ان سے ملنے
والے درس کو اگلی نسلوں تک منتقل کیا جاتا ہے۔انسانیت کے نجات دہندگان اور
آزادیِ انسانیت کے محسنوں کی یادگار ہے فریضۂ حج ۔لاریب!جس کی قبولیت کی
سند ہے ارضِ طیبہ کی حاضری۔
صحابہ کی مقدس زندگیاں مشعلِ راہ ہیں۔ وہ بارگاہ محبوبِ خدا میں حاضر ہوتے،
مسائل پیش کرتے، بے مثل استفادہ کرتے، کرم خاص سے نوازے جاتے، وہ علوم حاصل
کرتے جن کی مثال نہیں، وہ صحبت ملی کہ جس نے انھیں ’’صحابیت‘‘ کا بے مثال
منصب عطا کیا۔ آقائے کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی
صحابۂ کرام روضۂ اقدس پر مدعا پیش کرتے، حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی
والہانہ نسبت و تعلق اوربارگاہِ اقدس سے الطاف کریمانہ کے حصول کا سلسلہ
بعد کو بھی اسی طرح جاری رہا جیسا حیاتِ ظاہری میں تھا۔ حج جیسی عظیم سعادت
کے بعد روضۂ پاک پر حاضری حج کی قبولیت کی دلیل ہے۔ اس پر ہر دور کے
مسلمانوں کا عمل رہاہے۔کعبے کی عظمت طیبہ کے چاند سے ہویدا ہوئی۔ ولادت گاہِ
نبوی کی عظمت نسبت و تعلق کی وجہ سے بے مثل ہے، طیبہ کی عظمت درِ مصطفی صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ کے سبب بے مثال ہے۔ ان مقامات سے نسبت نے امت مسلمہ کو سُرخ
رو وکامراں رکھا ہے۔ حج کی سعادت کے بعد عزمِ طیبہ سعید بختوں کی معراج ہے،
عشق کی زبان ایمانی جذبے کو امام احمد رضا کے الفاظ میں اس طرح جِلا دیتی
ہے
حاجیو! آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے کعبہ کا کعبہ دیکھو
طیبہ سے رشتۂ غلامی نے مسلمانوں کو جہاں بانی عطاکی۔ دنیا کو ظرفِ علم اور
طرزِ تمدن اسی نسبت نے عطا کیا۔ جنھیں متمدن ہونے کا دعویٰ ہے وہ قعرِ مذلت
میں بھٹک رہے تھے۔یورپ گندگیوں کی آماج گاہ اور غیر انسانی رویوں کا مسکن
تھا۔ افریقہ وحشت کی تاریکیوں کا اسیر تھا، ہند شرک و ظلمت کا مسکن اور
جزائر غرب انسانیت سے عاری تھے، طیبہ سے نسبت اور محبت رسالت صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کا کمال تھا کہ غلامانِ مصطفی نے انقلاب برپا کیا۔ ایمان کی کشت
شاداب ہوئی۔ اسلامی علوم کی روشنی دور تک پہنچی اورایک صدی کے اندر اندر
یورپ و افریقہ، ایشیاو بیش تر علاقے نغمۂ توحیدورسالت سے گونج اُٹھے۔ طیبہ
سے تعلق نے مسلمانوں کو فتوحات وقیادتِ عالم کا تمغۂ افتخاربخشا۔ایسی عظیم
زمیں سے مسلمان کا رشتہ جسم کا نہیں روح کا ہے، اور جب روح اسیرِ بارگاہِ
ناز ہوجائے تونسیم بطحا سے دل کی کلیاں کھل اٹھٹی ہیں۔ حاضریِ طیبہ کی تمنا
عود کر آتی ہے، اور جامیؔ کے الفاظ میں تمنائے ارضِ بطحا یوں لفظوں کا
پیرہن زیب کرتی ہے
مشرف گرچہ شد جامیؔ زلطفش
خدایا! ایں کرم بارِ دگر کن
جن کی تاریخ تاریکی کی نذر ہے وہ کھنڈرات کھنگال رہے ہیں۔ صحرا نوردی کر
رہے ہیں۔ عہدِزوال کی کڑیاں مثلِ سراب ’’عہدِ زرّیں‘‘ کے بہ طور پیش کر رہے
ہیں۔موہن جوداڑو اور ہڑپا کے تہذیبی آثار انسانی قبا کے جھومر نہیں، فراعنۂ
مصر اور قیصر وکسریٰ کے استبداد و ظلم سوہانِ روح ہیں، لیکن اسلام کی
مقبولیت سے حواس باختہ ان وحشت زدہ غیر انسانی آثار کو ’’متمدن‘‘ وقابلِ
فخر قرار دے رہے ہیں جہاں انسانیت خانوں میں بٹی اور قبیلوں میں منقسم تھی؛
جہاں حسنِ زن ہوا وہوس کی نذر تھا اور پچھڑے ہوؤں کو نیچ و شودر سمجھا جاتا
تھا۔مساوات کا تصور کسی سنگین جرم سے کم نہ تھا۔ ہماری تاریخ کا دھارا روشن
ہے۔ ہماری عقیدتوں کی دنیا ویران نہیں۔ ارضِ بطحا سے وہ روشنی ملی جس نے
عالم کو نور نور کر دیا۔ اسی مدینہ امینہ سے ہمارا رشتہ ہے۔ جہاں انسانیت
کی برہم زلفیں سنورتی ہے۔ علم کا نصیبہ جاگتا ہے۔ علمِ خصوصی سے آراستہ ذات
معلم کائنات بنا کر بھیجی گئی۔وہ بے مثل علم جس نے غیب کا ادراک کیا اور
توحید کا درس دیا۔اس بارگاہِ ناز سے مسلمان کا ایسا تعلق ہے کہ اگر اس رشتہ
وتعلق کی استواری صحیح سے کرلی جائے تو پھر اقوام عالم میں ہم ہی غالب ہوں
گے۔ ہمارے اتحادکا سرچشمہ بارگاہِ محبوبِ کائنات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
ہے جہاں حاضری سے حجاج شادکام ہورہے ہیں، کرم والطاف اور عنایات واکرام سے
نوازے جا رہے ہیں۔سعادتوں کا یہ سلسلہ صبح قیامت تک جاری رہے گا، قبولیت حج
کی ضمانت لینے کے لیے عشاق بارگاہِ سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں
قافلہ در قافلہ حاضر ہوتے رہیں گے، جودوسخا کی بارش ہوتی رہے گی۔ آج پھر ہم
اپنے رشتوں کی استواری مکینِ گنبد خضرا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کرلیں
تو اقوامِ عالم پر غالب آسکتے ہیں اور کھویا ہوا وقار پا سکتے ہیں
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ﷺ |
|