بسم اللہ پڑھنے کی حکمت
(Jaleel Ahmed, Hyderebad)
بسم اللہ سے بندشوں کا حل
بندہ کو معلوم ہوا کہ عبقری کا خاص نمبر آرہا ہے تو دل میں داعیہ پیدا ہوا
کہ چونکہ ہر چیز کی ابتدا بسم اللہ سے ہوتی ہے۔ اس لیے اس رسالہ کے شروع
میں تسمیہ (یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم) کے فضائل‘ ثمرات اور خواص لکھے
جائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا نام لیکر قلم اٹھایا اور اسی اللہ کے نام سے
تسمیہ کے متعلق یہ چند کلمات زیب قرطاس کررہا ہوں۔ اس آیت کا عام فہم ترجمہ
یہ ہے کہ ’’شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔‘‘
بسم اللہ قرآن کریم کی آیت ہے:۔ اس پر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ بسم
اللہ الرحمن الرحیم قرآن شریف میں سورۂ نمل کا جزو ہے اور اس پر بھی اتفاق
ہے کہ سورۂ توبہ کے علاوہ ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ لکھی جاتی ہے۔
ہر اہم کام بسم اللہ سے شروع کرنے کا حکم:اہل جاہلیت کی عادت تھی کہ اپنے
کاموں کو بتوں کے ناموں سے شروع کیا کرتے تھے اس رسم جاہلیت کو مٹانے کیلئے
قرآن کی سب سے پہلی آیت جو جبرائیل علیہ السلام لیکر آئے اس میں قرآن کو
اللہ کے نام سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا کہ اقراء بسم ربک۔۔۔(العلق پ30)
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ قرآن کے سوا دوسری تمام آسمانی کتابیں
بھی بسم اللہ سے شروع کی گئیں ہیں اور بعض علماء نے فرمایا کہ بسم اللہ
الرحمن الرحیم قرآن اور امت محمدیہ کی خصوصیت میں سے ہے۔ (قرطبی‘روح
المعانی)
نبی کریم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ ہر اہم اور نیک کام جو بسم اللہ سے شروع
نہ کیا جائے وہ بے برکت رہتا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ گھر کا
دروازہ بند کرو تو بسم اللہ کہو‘ چراغ گُل کرو تو بسم اللہ کہو‘ برتن ڈھکو
تو بسم اللہ کہو‘ غرض کھانا کھاتے‘ پانی پیتے‘ وضو کرتے‘ سواری پرسوار ہونے
اور اترتے وقت بسم اللہ پڑھنے کی ہدایات قرآن و حدیث سے بار بار آئی ہے۔
(معارف القرآن جلد اول ص ۷۴)
بسم اللہ کی برکت:ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے
راویت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ چھ ساتھیوں کے ساتھ کھانا تناول فرمارہے تھے
کہ اتنے میں ایک دیہاتی آدمی آیا اور دو ہی لقموں میں سارا کھانا چاٹ لیا
تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ شخص بسم اللہ پڑھ لیتا تو یہ کھانا تم سب
کیلئے کافی ہوجاتا۔تفسیر کبیر میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے آدھی بسم
اللہ پڑھی تھی یعنی ’’بِسْمِ اللہِ مَجْرٖىھَا وَمُرْسٰىہَا(ھود41)‘‘ تو
طوفان سے نجات پائی تو جو شخص پوری عمر مکمل بسم اللہ پڑھتا رہے وہ نجات سے
کیسے محروم رہ سکتا ہے؟
کھانے میں برکت کا نبویﷺ نسخہ: اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی
کریم ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم
کھانا کھاتے ہیں مگر پیٹ نہیں بھرتا ہے‘ آپ ﷺ نے ایک سے پوچھا کہ شاید تم
لوگ الگ الگ کھاتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں الگ الگ کھاتے ہیں تب حضور
علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک ساتھ کھالیا کرو اور ابتداء میں بسم اللہ پڑھ
لیا کرو تو کھانے میں برکت ہوجائے گی۔
بسم اللہ باب رحمت ہے: حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم کی آیت‘ آیت رحمت ہے یہ داخلے کا دروازہ ہے جب
مسلمان قرآن کریم کی ابتدا کرنا چاہتا ہے اور تلاوت شروع کرنا چاہتا ہے تو
وہ اس دروازے سے داخل ہوتا ہے کیونکہ یہ آیت‘ آیت رحمت ہے اس میں اللہ
تعالیٰ کی دو صفت رحمت بیان کی گئی ہیں ایک الرحمن دوسری الرحیم‘ یہی وجہ
ہے کہ اس کو اللہ پاک نے تمام سورتوں کے شروع میں رکھا ہے اور پڑھنے کا حکم
دیا ہے مگر سورۂ توبہ یا سورۂ برأت میں اس کے پڑھنے کا حکم نہیں ہے اس لیے
کہ سورۂ برأت کے شروع میں جو مضامین ہیں اس کے اندر اللہ کے غضب کا اظہار
ہے اور جہاں پر اللہ کے غضب کا اظہار ہو اللہ کے قہر کا اظہار کیا جارہا ہو
وہ موقع آیت رحمت کی تلاوت کا نہیں ہے۔ (خطبات احتشام ص ۶۸ جلد اول)
بسم اللہ پڑھنے کی حکمت: آپ اندازہ لگائیے کہ اسلام کی کیسی حکیمانہ
تعلیمات ہیں کہ جب تم کام شروع کرو تو ان تین کلمات کو ادا کرلیا کرو یعنی
اللہ‘ الرحمن‘ الرحیم اور یہ تین کلمے ایسے ہیں کہ جیسے تین محکمے ہوں اور
تین محکموں سے گزرے بغیر تمہارا کام ہو نہیں سکتا‘ کیوں کہ اللہ کا لفظ کہہ
کے بتلایا کہ وہ خالق کائنات ہیں‘ سارے جہاں کو پیدا کرنے والا ہے‘ ہر چیز
کو پیدا کرنے والا ہے اور جب آپ کوئی کام شروع کرتے ہیں تو سب سے پہلے
اسباب و اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے کھانے بیٹھیں گے… کیا کھائیں گے… بھائی
گندم ہوگی تو کھائیں گے… مکان بنانا شروع کریں… ارے بھائی اینٹیں ہونگی تو
بنائیں گے زمین ہوگی سیمنٹ ہوگی‘ سریا ہوگا‘ تب ہی تو بنائیں گے تو سب سے
پہلے سامان کی ضرورت ہے اس لیے اے انسانوں کام کو شروع کرنے سے پہلے اس
خالق کائنات کو یاد کرو جس نے یہ سارے اسباب اور سامان پیدا کیے اگر اللہ
تعالیٰ سازو سامان کو پیدا نہ کرتا تو آپ کسی کام کی ابتدا نہیں کرسکتے۔
آگے فرمایا کہ سارے اسباب بھی ہیں لیکن اللہ کی طرف سے اس کام کی توفیق
نہیں ہے تو یہ اسباب بھی بیکار ہیں اس لیے فرمایا کہ اگر تمہیں توفیق بھی
چاہیے تو اللہ کیساتھ اس کی صفت رحمٰن بھی پکارو۔ گویا کہ تم دوسرے محکمے
سے کہہ رہے ہو کہ اے اللہ! سازو سامان کو پیدا کرنے والا بھی تو ہے اور اس
سامان کو استعمال کرنے کی توفیق دینے والا بھی تو ہی ہے۔ اسباب بھی مہیا
ہیںاور توفیق بھی دیدی اور کام ہوگیا مگر پورا نہیں ہوا کیوں…؟
ہر کام کا مقصد اور بسم اللہ:اس لیے کہ ہر کام کی ایک غرض اور ایک مقصد
ہوتا ہے مثلاً مکان بنایا کس لیے؟ رہائش کیلئے لیکن اگر شداد کی طرح مکان
بن کے تیار ہوجائے اور قدم رکھنا بھی نصیب نہ ہو تو کیا فائدہ؟ تو معلوم
ہوا کہ تیسری منزل اور محکمہ یہ ہے کہ جس مقصد کیلئے کام کیا گیا ہو وہ
مقصد بھی حاصل ہو اگر ہاتھ میں جلیبی بک گئی… تو آپ کہیں گے کہ سامان بھی
اللہ نے دیا توفیق بھی اللہ نے دی اور جو مقصد تھا وہ بھی پورا ہوگیا۔اب
معلوم ہوگیا کہ واقعی دنیا کا کوئی کام بھی نہیں ہوسکتا جب تک کہ ایک انسان
ان تین محکموں سے نہ گزرے اور ان تین منزلوں سے اپنے آپ کو نہ گزارے۔تو خیر
اسلام کی تعلیم کتنی حکیمانہ تعلیمات ہیں دعا کیجئے کہ اللہ پاک ہمیں عمل
کرنے کی توفیق دے۔ (خطبات احتشام ص۷۸)
عبقری میگزین سے اقتباس |
|