بسم اﷲ الرحمن الرحیم
محمد حنیف جالندھری سیکریٹری جنرل وفاق المدارس العربیہ پاکستان
عید کے موقع پر پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے ڈی چو ک اسلام آبادمیں دھرنے کے
دوران نماز عید ادا کی گئی ۔اس نماز عید میں امامت کا اعزاز علامہ طاہر
القادری کے حصے میں آیا۔یہ نماز عید دنیابھر کی عید گاہوں میں پڑھی جانے
والی نماز عید سے کئی اعتبار سے مختلف تھی ۔ایک تو اس اعتبار سے کہ اسے
کیمروں کی مدد سے دنیا بھر میں دکھایا گیا ،اس کے مناظر اخبارات وجرائد کی
زینت بنے ،عید کا یہ اجتماع کئی زاویوں سے سوشل میڈیا پر گردش کرتا رہا ۔اس
عید اجتماع نے بحث مباحثے کے کئی دَر وا کیے ،سوالات کی بہت سی فصلیں
اُگائیں ،تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں کو ہی نہیں بلکہ عام لوگوں کو بھی
بہت کچھ کہنے سننے کا موقع دیا ۔نماز عید کا یہ اجتماع جہاں سیاسی اور
سماجی اعتبار سے زیر بحث رہا وہیں اس کے حوالے سے مذہبی اور شرعی نوعیت کے
جن سوالات نے جنم لیا ان کے حوالے سے عوام الناس نے علماء کرام سے رجوع کیا
،ہم سے بہت سے لوگوں حتی کہ مساجد کے ائمہ وخطباء نے رجوع کیا ،ہم نے اس
معاملے میں مفتیان کرام کو تحقیق کرنے کو کہا ،مختلف مکاتب فکر کے رہنماؤں
کی آراء معلوم کیں اور یہ صرف اسی معاملے میں نہیں ہوا بلکہ ہمارا ہمیشہ سے
یہ معمول رہا ہے کہ جب بھی کوئی معاملہ سامنے آئے تو متعلقہ شعبے سے رجوع
کیا جاتا ہے ،اس پر دیگر مکاتب فکر کے سنجیدہ اہل علم کی آراء معلوم کی
جاتی ہیں اور بعد ازاں اس کے بارے میں کسی قسم کی رائے کا اظہار کیا جاتا
ہے ۔رفتہ رفتہ بات دارالافتاؤں اور علماء کرام کی نجی مجالس سے نکل کر
میڈیا میں چلی گئی ،ایک خالصتا ً سیدھا سادا سا دینی مسئلہ بریکنگ نیوز بن
گیا ،بریکنگ نیوز میں بات ذرا سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش ہوتی دکھائی دی تو
اس پر ہم نے اہل علم کی رائے کا فقط اس لیے اظہار کیا تاکہ صورتِ مسئلہ
واضح ہو اور عوام الناس کسی قسم کی غلط فہمی میں نہ رہیں ۔
اس سارے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے چند ضروری امور پیش نظر رہیں
(1)……ہم خالصتاً علمی ،تحقیقی اور تعلیمی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یاد
رہے کہ اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیے گئے اس ملک کے
آئین سے لے کر سیاست تک اور حکومت سے لے کر تجار ت تک کسی معاملے سے دین کو
بے دخل نہیں کیا جا سکتا اس لیے جس ملی ،قومی ،سیاسی ایشو میں دینی اور
شرعی امور زیر بحث آئیں گے تو اس میں عوام الناس لازمی طور پر مستند اور
قابلِ اعتماد اہلِ علم سے رجوع کریں گے اور قوم کی ہر مرحلے پر رہنمائی
کرنا اور شرعی مسائل میں سیاہ سفید کو الگ الگ کرکے پیش کرنا علماء کرام کی
ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو ہمیشہ ہی سرانجام دیا جاتا رہا ہے اور
انشااﷲ مستقبل میں بھی منبر ومحراب اور افتاء وارشادکے شعبے کبھی بھی عوام
الناس کو مایوس نہیں کریں گے ۔
(2)قومی رہنماؤں اور سیاسی زعماء کو چاہیے کہ وہ احتجاج کریں ،دھرنے دیں
،سیاست کریں یا حکومت لیکن ایک بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ وہ دین کو
،دینی احکام کو دانستہ یا ناداستہ کبھی بھی بھی بازیچہ اطفال مت بنائیں
۔دین کے بارے میں اس قدر ناقص معلومات کہ جو مضحکہ خیز صورت حال اختیار کر
جائے ،ایسا طرز عمل جس سے دین سے بالکل ہی لاتعلقی کا تاثر اُبھرے‘ نہایت
ہی افسوسناک ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ حدودِ اسلامی کو ظالمانہ سزائیں
قراردینے کے بیان سے لے کر اذان بج رہا ہے تک اور ایک وزیر کی طرف سے قرآن
پاک کے تیس پاروں کوچالیس قرار دینے تک ،قادیانیوں کو اپنا بھائی قرار دینے
سے لے کر قادیانیت نوازی تک جب بھی کسی قومی سطح کے،کسی بھی پارٹی کے
رہنماء نے دینی معاملات میں دانستہ یا نادانستہ طور پر کوئی پھلجھڑی چھوڑی
ہے تو بلااختلاف ِمسلک ‘ملک کے تمام اہل علم نے اس پر فوری گرفت کر کے قوم
کے سامنے حقیقی تصویر پیش کرنے کا اہتمام کیا اور انشااﷲ آئندہ بھی اس کا
اہتمام کیا جاتا رہے گا یہ الگ بات ہے کہ آہستہ آہستہ سیاسی کلچر تبدیل ہو
رہا ہے اور اب تحمل ،بردباری اور دینی احکامات کے احترام کی جگہ پرتشدد
جذبوں اور بداخلاقی نے لے لی ہے لیکن اس کے باوجود اہلِ علم بلاخوف لومۃ
لائم اپنا فرض منصبی نبھاتے رہیں گے ۔
(3)ہمارے ہاں کچھ عرصے سے جو یہ روش فروغ پا رہی ہے کہ ہمار الیڈ ر ہر خطا
اور غلطی سے مبر ا اور دوسرا لیڈ رسراپا شر وفساد ……یہ طریق بھی کسی طور پر
درست نہیں۔خطائیں انسانوں سے ہی سرزد ہوتی ہیں اس لیے اپنے لیڈ ر سے محبت
اور اس کی عقیدت انسان کو اس حد تک اندھانہ کرکے رکھ دے کہ انسان اچھائی
اور برائی کی تمیز کھو بیٹھے ۔وہ اپنے ہر عمل کو حرف آخر اور ناقابل اصلاح
جانے اور دوسرے کے ہر قدم پر حرفِ نکیر ہی نہیں بلکہ لٹھ لیے چڑھ دوڑے یہ
کسی طور پر درست نہیں ۔ایسے لوگ جو کسی سے عقیدت ومحبت رکھتے ہیں وہ اتنی
سی گنجائش ضرور رکھیں کہ جبُ ان کے قائدین سے دینی اعتبار سے کوئی خطا سرزد
ہو تو وہ ان کی دنیا بچانے کے لیے اپنی آخرت اور اپنا دین برباد کرنے کی
غلطی کے مرتکب نہ ہو ں ۔
(4)علامہ طاہر القادری بے شک خود کو شیخ الاسلام قرار دیتے ہوں لیکن وہ یاد
رکھیں کہ بہر حال وہ انسان ہیں اور ان سے خطا سرزد ہو سکتی ہے۔ان کے مفتی
صاحب کی طرف سے جو رد عمل سامنے آیا ہے اس کا شرعی بنیادوں پرجائزہ آگے چل
کر پیش کیا جائے گا لیکن یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ ہمارا علامہ صاحب
موصوف سے کسی قسم کا ذاتی،سیاسی یا شخصی نزاع نہیں محض ایک دینی مسئلہ بیان
کیا ہے ا س لیے وہ اس پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور فرمائیں کیونکہ انسان سے
غلطی کا ارتکاب بشریت کا تقاضا ہے لیکن اس غلطی پر اصرار افسوسناک اور قابل
مذمت ہوتا ہے ۔
(5) اس مسئلہ کے دلائل وبراہین ،اس پر نصوص اور فقہائے امت کی عبارات کے
حوالے اس قدر کثیر تعداد میں موجود ہیں کہ ایک اخباری کالم میں ان کا احاطہ
نہیں کیا جا سکتا اگر کسی کو بھی تفصیل مطلوب ہو تو وہ اپنے قریبی مستند
دارالافتاء سے رجوع کرے تاہم یہاں صرف اتنی سی بات واضح ہو کہ معذور کی
دوصورتیں ہوتی ہیں ایک وہ معذور جو رکوع سجدے پر قادرنہ ہو اور اشارے سے
نماز پڑھائے اور دوسرا وہ معذور جو اگرچہ نماز تو بیٹھ کر پڑھائے مگر رکوع
سجدہ کر سکتا ہو ۔ایسا شخص جو رکوع سجدہ کر سکتا ہو اگرچہ بیٹھ کر نماز
پڑھا رہا ہو اس کے بارے میں اہل السنت والجماعت کا موقف یہ ہے کہ اس کی
اقتداء میں تندرست لوگوں کی نماز درست جبکہ ایسا معذورجو رکوع سجدے پر ہی
قادرنہ ہو اس کے پیچھے صحیح اور تندرست لوگوں کی نماز کسی کے ہاں درست نہیں
۔نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں جو امامت کا تذکرہ ملتا ہے اس کا
تعلق اس صورت کے ساتھ ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی
لیکن رکوع،سجدہ کیا جبکہ زیرِ بحث صورت میں رکوع،سجدہ کا اشارہ کیا گیا
ہے۔اس لیے نام نہاد مفتیان کرام کو خلط مبحث سے گریز کرنا چاہیے۔
(6)اس مسئلے پر تمام مکاتب فکر کی سرکردہ مذہبی شخصیات،کہنہ مشق مفتیان
کرام اور اہل علم وفضل سے مشاورت ہوئی جن میں سے مولانا مفتی منیب الرحمن
چیئرمین رویت ہلال کمیٹی، مولانا مفتی محمد ابراہیم قادری رکن اسلامی
نظریاتی کونسل پاکستان( بریلوی )،مولانا محمد یسین ظفر( اہل حدیث ) ،مولانا
مفتی محمد عبداﷲ (دیوبندی )،شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک (جماعت اسلامی)
،علامہ نیاز حسین نقوی ( شیعہ) بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ سب نے بالاتفاق اس
کی تائیدکی بلکہ دلچسپ امر یہ ہے کہ علامہ نیاز حسین نقوی نے آیت اﷲ
سیستانی کی کتاب توضیح المسائل سے حوالہ بھی پیش کیا کہ شیعہ کے ہاں تو اس
معاملے میں زیادہ شدت ہے ان کے ہاں نہ تو رکوع سجدے پر قادرر شخص کی معذور
امام کی اقتداء میں نماز درست ہے اور نہ ہی رکوع سجدے کی بجائے محض اشارے
سے نماز پڑھانے والے کی اقتداء درست ہے ۔
اس لیے علامہ طاہر القادری کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو اپنی انا کا مسئلہ
نہ بنائیں ،نہ اسے سیاسی اور مخالفت برائے مخالفت کا رنگ دیں اور نہ ہی
بلاوجہ ہٹ دھرمی سے کام لیں بلکہ عوام الناس پر حقیقی شرعی مسئلہ واضح فرما
دیں اور ایک ایسی روایت ڈالیں کہ قومی سطح کا ہر رہنماء عوام الناس کے لیے
دینی اعتبار سے غلط بنیادیں فراہم کرنے کا ذریعہ نہ بنے۔ |