(شہادت عثمان پر منفرد پر اثر تحریر)
نبی اکرمﷺ کی نورانی مجلس جاری تھی کہ دروازے پر دستک ہوتی ہے پوچھا جاتا
ہے کون؟ باہر سے آواز آتی ہے آپﷺ کا جانثار ابوبکرؓ۔۔۔حکم ہوتا ہے اند ر آ
جاؤ پھر دستک ہوئی پوچھا گیا کون؟ جواب آیا آپ کا غلام عمرؓ۔۔۔۔۔حکم ہوا
اندر آ جاؤ پھر تیسری بار دروازے پر دستک ہوتی ہے تو پوچھا جاتا ہے کون؟
جواب آتا ہے عثمان ؓ ۔۔۔۔فرمایا کملی والے نے ٹھہر جاؤ آقا کریم ﷺ اپنی
ننگی پنڈلی مبارک کو ڈھانپتے ہیں اور اپنی بیٹھی حالت کو تبدیل کر کے حکم
فرماتے ہیں آ جائیے اہل مجلس آقائے دو جہاں ﷺ سے عرض کرتے ہیں آقا ﷺ حضرت
ابوبکرؓو عمرؓ آئے تو آپ نے اپنی پنڈلی مبارک نہ ڈھانپی اور بیٹھی حالت کو
تبدیل بھی نہ فرمایاحضرت عثمانؓ آئے تو آپﷺ نے یہ عمل کیوں کیا؟۔۔۔۔اس میں
کیا راز ہے؟ تو مدنی کریمﷺ نے فرمایا اے میرے صحابہ اﷲ کے فرشتے بھی عثمان
سے حیا کرتے ہیں میں محمدﷺ کیوں حیاء نہ کروں حضورﷺ کے اس عظیم صحابی کے
کیا کہنے جن کے بارے میں میرے حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے پا س چالیس
بیٹیاں بھی ہوتیں تو یکے بعد دیگر میں محمدﷺ ،عثمانؓ کے نکاح میں دے دیتا
کیونکہ میں نے عثمانؓسے زیادہ باحیاء شخص کہیں نہیں دیکھایہ خصوصیت صرف
عثمان غنیؓکو ہی حاصل ہے کہ نبی ﷺکی دوبیٹیاں آپؓ کے نکاح میں آئیں کسی بھی
نبی کا امتی یہ اعزاز حاصل نہ کر سکا متعدد بار جنتی ہونے کی بشارت بزبان
نبوت آپ کو نصیب ہوئی جب اپنی دولت دین پر نچھاور کرنے کی حد کر دی تو آمنہ
کے در یتیم مدنی کریمﷺ نے یہاں تک فرما دیا عثمان آج کے بعد کوئی عمل کرے
یا نہ کرے عثمان جنتی ہے۔
حضورﷺ نے ایک مرتبہ حضرت عثمان ؓ سے فرمایا اے عثمان اﷲ تجھے خلافت کی قمیض
پہنائے گا لوگ اتارنا چاہیں گے مت اتارنا یہاں تک کہ مجھ سے آ ملو اس ارشاد
مبارک کے بعد حضرت عثمان غنیؓ اور صحابہ اکرام ؓ کا یقین محکم ہو گیا تھا
کہ حضرت عثمانؓ ایک دن ضرور مسلمانوں کے خلیفہ بنیں گے شیخین کے عہد خلافت
میں حضر ت عثمان غنیؓ نے خلفاء اسلام کے حکم کے مطابق خدمات سر انجام دیں
جب حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو امام عدل و حریت سیدنا
عمر فاروقؓ نے عشرہ مبشرہ میں سے چھ نامور شخصیات کو نامزد کر کے انہی میں
سے خلفیہ کے انتخاب کا حکم دیا یہ چھ اصحاب رسول حضرت عثمان غنیؓ،حضرت
عبدالرحمن ؓ بن عوف،حضرت طلحہؓ،حضرت زیدؓ،حضرت سعید بن زیدؓ تھے بالا خر
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے خفیہ جید صحابہ کرامؓ سے رائے لیکر حضر عثمان
غنیؓ کو خلیفہ نامزد کر دیا (موجودہ دور کا نظام جمہوریت اسلامی نظام خلافت
کی ضد ہے لیکن بعض احباب جمہوریت کو جبراً اسلام کا لباس پہنانے کی لا حاصل
کوشش کررہے ہیں نبی اکرمﷺ کی مقدس جماعت صحابہ کرامؓ اپنے وقت کے جید،اہل
الرائے صحابہ کرامؓ سے رائے لے کر خلیفہ بناتے تھے تو خلیفتہ المسلمین
رعایا کے حقوق کے معاملے میں اﷲ سے ڈرتا تھا مگر آج الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
عام عوام کو سربراہ مملکت بنانے کا اختیار دے کر جاہل ،مجنوں بھنگی،چرسی کی
رائے کو عالم دین، صاحب تقویٰ معاشرے کے اہل الرائے کے مقابل کھڑا کر دیا
ہے جو کہ کھلی گمراہی ہے بعض لوگ کم علمی کی بنیاد پر اطاعت خلیفہ کی بیعت
کو خلیفہ کے انتخاب میں ووٹ کو تشبیہہ دیتے ہیں جو کہ بالکل درست نہیں ہے
جب اہل الرائے خلیفہ مقرر کر دیں تو عوام اطاعت کی بیعت کرتے ہیں نہ کہ
منتخب کرنے کی اسی علمی غلطی کی وجہ سے مغالطہ دیا جاتا ہے جو کہ درست نہیں
ہے عوام الناس کو چاہیے کہ جمہوریت جیسے باطل،کفریہ ،شرکیہ یہود و ہنود کے
نظام کو چھوڑ کر اسلامی نظام خلافت قائم کرنے کے لئے صحابہ کرامؓ کے عمل کو
از سر نو زندہ کریں)حضرت عثمان غنیؓ 24ہجری میں سر یرآرائے خلافت ہوئے تو آ
پکو شروع میں22لاکھ مربع میل کے ایسے خطے پر حکومت کرنے پڑی جس میں بیشتر
ممالک فتح ہو چکے تھے لیکن یہاں مسلمان مستحکم نہ تھے خطرہ تھا کہ یہ
ریاستیں دوبارہ کفر کی آغوش میں چلی جائیں گیں لیکن خلیفہ سوم نے12دن
کم12سال تک44لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطے پر اسلامی سلطنت قائم کی
حضرت عثمان غنیؓ کے پہلے 6سال فتوحات اور کامرانیوں کے ایسے عنوانات سے
عبارت ہیں جن پر اسلام کی پوری تاریخ ہمیشہ فخر کرتی رہے گی خلافت اسلامیہ
کے تاجدار ثالث نے فوجوں اور عسکری قوتوں کو جدید بنیادوں پر استوارکیا آپ
ہی کے دور میں حضرت سیدنا امیر معاویہؓنے شام سے اسلام کا پہلا بحری بیڑا
تیار کر کے بحر اوقیانوس میں لشکر اتار دیا اس طرح پاپائے روم پر سکتہ طاری
کر کے آپ ؓ کی فوجوں نے فرانس اور یورپ کے کئی کئی ملکوں میں اسلام پہنچا
دیا ہندوستان اور افریقی ممالک میں محمدی ﷺ سورج کی کرنیں بھی آپ ہی کے دور
میں پہنچی تھیں اسلامی فوجوں نے عثمانی دور ہی میں سندھ مکران،طبرستان اور
متعدد ایشیائی ممالک فتح کئے تھے
حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت کے آخری سالوں میں آپؓ کی پے در پے کامیابیوں
نے یہودونصاریٰ کو ناک چنے چبوا دیئے تھے وہ کسی طرح بھی عہد عثمانی کی
وسعت اور ہمہ گیری کو برداشت نہ کر سکتے تھے سامنے آ کر جنگ لڑنے کے ساتھ
ساتھ یہودیوں نے منافقوں کا ایسا لشکر تیار کیا جو حضرت عثمان ذوالنورینؓ
پر اقرا پروری اور خیانت کا الزام لگانے لگا اور دجل و فریب کے بہی خواہوں
نے مصر سے ایک سازش کا آغاز کیا ساڑھے سات سو بلوائی ایک خط کا بہانہ بنا
کر مدینہ منورہ پہنچے بغاوت کا ایسا وقت طے کیا گیا جب مدینہ منورہ کے تمام
لوگ حج پر گئے ہوئے تھے۔
صرف چند افراد یہاں موجود تھے ایسے وقت میں امیرالمومنین کو خلافت سے
دستبردار کروا کر اپنے مزموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے من مانی کاروائی کے
ذریعے اسلام کے قصر خلافت پر شب خون مارنا ،رسول اﷲ ﷺ کے شہر کو آگ اور خون
میں مبتلا کر کے اسلام کے مرکز کو پارہ پارہ کرنا اور فتوحات و کامیابیوں
کے راستے میں فوری طوری پر سد سکندری بن جانا ان کے ناپاک عزائم میں شامل
تھا35ہجری ذیعقد کے پہلے عشرے میں باغیوں نے حضرت عثمان غنیؓ کے گھر کا
محاصرہ کیا تھا حافظ عمادالدین نے البدایہ وا لنھایہ میں لکھا ہے کہ باغیوں
کی شورش میں بھی حضرت عثمان غنی ؓ نے بشارت پیغمبر ﷺ کو مدنظر رکھتے ہوئے
صبرو استقامت کا دامن نہیں چھوڑا۔
محاصرہ کے دوران آپؓ کا کھانا اور پانی بند کر دیا گیا قریباً40دن تک بھوکے
اور پیاسے 82سال کی عمر میں حضرت عثمان غنیؓ کو جمعہ18ذوالحجہ کو انتہائی
بے دردی کے ساتھ تلاوت قرآن مجید کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا تاریخ سیدنا
عثمان غنی ؓ کو مظلوم مدینہ کے نام سے ہمیشہ یاد کرتی رہے گی۔
شہادت عثمان غنیؓ پر سیدنا علی مرتضیؓ نے ارشاد فرمایا اب تم پر تباہی رہے
گی سیدنا انس بن مالک ؓ کا قول ہے کہ عثمان ذوالنورینؓ کی زندگی میں اﷲ
تعالیٰ کی تلوار میان میں تھی لیکن شہادت کے بعد ایسی نکلی کہ اب قیامت تک
برہنہ رہے گی۔سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ کہا کرتے تھے کہ اگر سب لوگ قتل عثمان
پر متفق ہو جاتے تو ان پر منل قوم لوح پتھر برستیـ ۔
حضرت حسن ؓ نے شہادت عثمان کے بعد خواب دیکھا کہ اﷲ تعالیٰ کی عدالت لگی
ہوئی ہے پروردگار کائنات اپنے عرش پر متمکن ہیں نبی اکرمﷺ تشریف لاتے ہیں
اور عرش کا ایک پایہ پکڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں پھر حضرت عمرؓ آتے ہیں اور
حضرت ابوبکرؓ کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں پھر اچانک حضرت
عثمان غنیؓ اس حالت میں عدالت میں آتے ہیں کہ ان کا کٹا ہوا سر ان کے ہاتھ
میں رکھا ہوتا ہے اور وہ اﷲ کی بارگاہ میں فریاد کناں ہوتے ہیں کہ اے
پروردگار اپنے ان بندوں سے جو تیرے آخری نبی جناب حضرت محمدﷺ کے نام لیوا
ہیں اور جو خود کو مسلمان کہتے ہیں پوچھا جائے کہ مجھے کس گناہ کی پاداش
میں قتل کیا گیا شہید کیا گیا آخر میرا کیا گناہ تھا کون سا جرم تھا؟ جس کے
بدلے میر ا سر کاٹا گیا۔اس کے بعد حضرت حسنؓ فرماتے ہیں : عثمانؓ کی اس
فریادکے بعد میں نے دیکھا کہ عرش الٰہی تھرایا اور آسمان سے خون کے دو
پرنالے جاری کر دیئے گے پھر زمین پر خون برسنے لگے
اے مسلمانان کرہ ارض غور کرو آج کا خلفشارو انتشار حضرت عثمان غنیؓ کیخلاف
باغی تیار کرنے والوں کی ذریت بد کا کارنامہ تو نہیں کہیں مسلم کے ہاتھوں
مسلم کے قتل عام کے تانے بانے اسی سازش کا حصہ سلسلہ،کڑی تو نہیں یقینا
ایسا ہے اہل فکر و نظر جانتے ہیں کہ امت مسلمہ کو پہلے اسلامی نظام خلافت
سے محروم کیا گیا اب طاقت اور دولت کے بل بوتے پر مسلم ریاستوں کو خون مسلم
سے رنگین کروانے کا سہرا موجودہ یہودوہنود کے باطل،کفریہ نظام کے سر ہے
مسلمانوں کو اپنے بلاد کے تحفظ کے لئے خلفائے راشدینؓ بالخصوص سیدنا عثمان
غنیؓ کے کردار کو زندہ کرنا ہو گا تا کہ امت مسلمہ کا قیمتی سرمایہ جنگ و
جدل کی بجائے تعمیری و فکری میدان میں قدم رکھ کر عروج ثریا پا سکے (آمین) |