دعائیں بے تاثیر کیوں……؟؟؟

پہلے چند دعائیں ملاحظہ فرمائیں جو ہماری زندگی کے شب و روز کسی نہ کسی حوالے سے پروردگار سے مانگی جاتی ہیں…… نماز پنجگانہ ہو یا نماز جمعہ کے اجتماعات ہو یا پھر عیدین کا پر مسرت مواقع ہوں…… یا رسم قل اور رسم چالیسواں کا ختم کی محافل ہوں،یہ دعائیں ہم تواتر سے مانگتے ہیں…… اے اﷲ ! ہم ہم گناہ گار ہیں ،سیاہ کار ہیں ، بدکار ہیں،جو بھی ہیں تیرے پیارے حبیب حجرت محمد مصطفی ﷺ کی مات ہیں، اے اﷲ ! اپنے حبیب کے صدقے ہمارے گناہاں کبیر و صغیرہ معاف فرما…… اے اﷲ! ہمیں رزق حلال کھانے اور کمانے کی توفیق عطا فرما…… اے اﷲ ! ہمیں شر شیطان سے اپنی پناہ عنایت فرما…… اے اﷲ! مسلمان مغلوب ہو رہے ہیں ،کفار غالب آ رہے ہیں اپنے محبوب ﷺ کے طٖفیل مسلمان کو غلبہ عطا فرما۔ جس کا تو نے وعدہ فرما رکھا ہے…… اے اﷲ ! دنیا جہاں میں جہاں جہاں مسلمان ظلم و بربریت کا شکار ہیں انہیں امن نصیب فرمائے ،ظالموں کو نیست و نابود کر دے……اے اﷲ ہماری قلیل سی عباد ت کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرما…… اے اﷲ فلسطین و کشمیر کے مسلمانوں کو فتح عطا کر …… اے اﷲ ! تو علیم و خبیر ہے ، اپنے حبیب کی امت کو دنیا میں زلیل و رسو ہونے نہ د ے…… اے اﷲ ہم تیرے محبوب کی امت ہیں ہمیں انکی محشر میں شفاعت نصیب کرنا و غیرہ وغیرہ۔

ایسی ہی دعائیں روزنامہ کعبۃ اﷲ اور مسجد نبوی میں بھی مانگی جاتی ہیں…… قبلہ اول بیت المقدس میں بھی انہیں دعاؤں کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔لیکن مسلامنوں یعنی ہمارے مسائل ویسے کے ویسے ہی ہیں…… ہماری مشکلات میں کمی ہونے کی بجائے روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ایسا کیوں ہے؟ بعض اوقات ہم اﷲ تعالی سے شکوہ شکایت کرتے ہوئے اس حد کو بھی عبور کر جاتے ہیں،جو انسان کے شرک میں مبتلا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔مقام فکر یہ ہے کہ ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری دعائیں کیوں مستجاب نہیں ہوتیں؟ہم میں کونسی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں جو ہماری دعاؤں کے قبول ہونے میں رکاوٹ ہیں؟

ہمیں بڑے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا ہوگا کہ کیا ہم جو دعائیں اپنے پروردگار کے حضور مانگ رہے ہینں ،وہ صدق دل سے مانگی جا رہیں ہیں یا محض دکھاوے کے لیے دست دعا بلند کیے ہوئے ہیں؟ کیا جب ہم اپنے اﷲ سے دعا مانگتے ہیں کہ اے اﷲ ہمیں رزق حلال کھانے اور کمانے کی توفیق عطا فرما،تو کیا ہم رزق حلال کے لیے کوشاں بھ ہوتے ہیں یا دعا کی حد تک رہتے ہیں……کیا ہم گناہان کبیرہ و صغیرہ سے بچنے کے لیے اپنے نفس کے خلاف بھی جہاد کرتے ہیں یا یہ کام بھی اﷲ کریم کے سپرد کیا ہوا ہے کہ اگر اس نے چاہا تو رزق حلال دیگا……کیا ہم نے بیت المقدس ،فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لیے جدجہد کرنے کے لیے اپنے حکمرانوں کو مجبور کیا ہے؟یا انکی آزادی کے لیے آواز بلند کی ہے؟ ہمیں رزق حرام سے بچنے اور رزق حلال کمانے سے کون روکتا ہے؟ یقیننا آپ لوگ کہیں گے کہ شیطان روکتا ہے، شیطان کیسے روکتا ہے؟ یہ کوئی نہیں بتاتا …… شیطان آکر کہتا ہے کہ صبح سویرے اٹھ کر نماز ادا نہ کرو؟ شیطان کہتا ہے کہ ہمسایوں کے حقوق ادا نہ کرو؟ شیطان کہتا ہے کہ بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت میں سے حصہ نہ دو؟ برائی کے اڈوں پر جانے کی تلقین شیطان کرتا ہے؟…… نہیں جناب اے مسلمان ! یہ سب تیرے ذہن کیاختراع ہے، تیری اپنی سوچ ہے……سب تیرا اپنا کیا دھرا ہوتا ہے الزام شیطان کے سر تھوپنا تیری پرانی عادت ہے……اگر روز محشر حضور نبی کریم ﷺ کی شفاعت کے طلب گار ہیں تو کیا ہم اپنے آپ کو انکی شفاعت کے قابل بنارہے ہیں؟ اس حوالے سے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی اشد ضرورت ہے ،

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعائیں رب العزت کی بارگاہ میں مستجاب ہوں…… شرف قبولیت حاصل کریں تو ہمیں اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا……اپنے اندر بدلاوں لانے کی ضرورت ہے،سب سے اہم یہ کہ ہم دعائیں حلق سے اوپر اوپر سے نہ مانگیں( دعائیں مانگنے کے بعد ) انکی توقیر قائم رکھیں اور صدق دل سے اپنے رب کریم کو پکاریں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ دعائیں رد ہوں کیونکہ ہمارا پروردگار وہ ہے جو اپنے بندوں سے ستر ماؤں جتنا پیار کرتا ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم صدق دل سے دعا مانگیں اور وہ اسے شرف قبولیت عطا نہ کرے…… ثابت ہوا کہ ہماری نیتوں کا فتور ہے……سب ہمارا اپنا قصور ہے ۔ہمیں اپنی دعاؤں کو پر تاثیر بنانے کے لیے خود احتسابی کا عمل اختیار کرنا ہوگا…… اپنے کیے بداعمال کا ملبہ شیطان پر ڈال کر ہم بری الزمہ نہیں ہو سکتے…… شیطان کے وسوں سے بچنے کے طریقے بھی تو اﷲ تعالی نے اپنے حبیب کے توسط سے ہمیں بتلائے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی اﷲ سبحانہ تعالی نے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد نہیں فرمایا کہ ’’ تمہارے لیے محمد ﷺ کا اسوہ حسنہ بہترین نمونہ ہے‘‘ اس نمونے کو ہم نے ہی اپنانے سے انکار کیا ہے…… ابھی وقت ہے اے اﷲ کے محبوب نبی کی امت سنبھل جا ورنہ دوزخ تمہارا انتظار کر رہی ہے۔

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161237 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.