’’سخاوت ِعثمانی ؓ‘‘

آج کے دن قریش کی اسمبلی کا اجلاس تھا،اراکین ِپارلیمنٹ مکہ او رحجاز کے مختلف اطراف سے فرداً فرداً اور ٹولیوں کی شکل میں دارالندوہ چلے آرہے تھے، وہ دیکھیں ابوجہل اپنے قریبی لوگوں خالد بن ولید ،اورولید بن ولید وغیرہ کے جتھے میں بڑے طمطراق سے کعبے کے قریب سے گذر کرآیا چاہتے ہیں ،اِدھر سے ابوسفیان بن حرب ؓ، اُدھر سے عاص بن وائل ،سامنے سے امیہ بن خلف ،۔ابوبکر ؓکو راستے میں دارالندوہ کے مخالف سمت میں چلتے ہوئے ابوجہل نے آوازدی ، ابوبکر۔۔۔ قوم کی مجلس ۔جواب میں انہوں نے کہا ،میں ذرہ مصروف ہوں ، اور آپ حضرات ہیں ناں ۔عمربن خطاب ؓابوجہل کے آمنے سامنے آگئے ، ابوجہل نے کہا،آپ کو بھی کوئی کام ہے ؟عمر نے کہا،’’ بھی ‘‘ کاکیا مطلب ؟انہیں ابوبکر سے ابوجہل کی گفتگو کا علم نہ تھا ،انہوں نے مزید کہا، میں تو قوم کا نمائندہ ہوں ، آہی گیاہوں ۔ ابوبکر جس راستے سے کہیں او رجگہ (دار ارقم ) جارہے تھے ، وہاں گلی کے نکڑپر قریش کے متمول ترین اور نوجوان رکنِ مجلس عثمان بن عفان ؓ کو دیکھکرانہوں نے دھیمے انداز میں انہیں آوازدی : عثمان ۔۔کہاں جارہے ہیں ؟جواب، قومی اسمبلی (دار الندوہ) ،کیا کوئی خاص مسئلے میں مشاورت ہے؟ نہیں ، حسب ِ معمول اجلاس ہے ،اگر کوئی ایسی بات ہوتی ،تو آپ ہی کو زیادہ معلوم ہوتا۔۔۔ ابوبکر صدیق ؓ کو سرجھکائے متفکر پاکر عثمان نے کہا، آپ کچھ سوچ رہے ہیں ۔ ۔ اگر مناسب سمجھیں تو مجھے بتادیں ،شاید میں آپ کی کوئی مدد کرسکوں ،ابوبکر کہنے لگے ،نہیں ، لیکن میں آپ کی بھلائی چاہتاہوں ، میں یہ نہیں چاہتاکہ میرے پاس کوئی اچھی شی ہو ، وہ میرے ہی پاس رہے ، میرے دوست اس سے محروم ہو، اور میرے سب سے بہترین دوست توآپ ہیں ، عثمان نے کہا، اور میرے بھی بہترین دوست آ پ ہیں ،عثمان کہنے لگے، اچھا بتادیجئے ،وہ کیا چیزہے ؟ ابوبکر نے کہا ،آج پارلیمنٹ جانے کے بجائے میرے ہی ساتھ چلیں ، اب دونوں دوست ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ، باتیں کرتے ہوئے دارالندوہ کے بجائے دوسری طرف رواں دواں تھے ،اس اثناء میں ابوبکر نے رک کر عثمان پر نگاہیں مرکوز کرتے ہوئے ان سے پوچھا ،اپنے بھائی کے بارے میں جناب کا کیا خیال ہے ؟ عثمان نے کہا ، کون ؟ آپ ؟ اتنے میں ابوبکر نے نیا سوال کردیا ، میں نے کبھی آپ سے جھوٹ بولاہے ؟ عثمان نے کہا، نہیں ، آپ سب لوگوں میں سچے اور مہرباں ہیں ،ابوبکر نے کہا، مجھ سے بڑے سچے محمد بن عبداﷲ ہیں ،عثمان نے کہا ، اس میں کوئی شک نہیں ، بخدا وہ’’ الصادق الأمین‘‘ سچے او رامانت دار ہیں ، تو انہیں کیا ہواہے ؟۔۔۔ آپ بتاتے کیوں نہیں ؟ ابوبکر اب عثمان کے بالکل سامنے آکرکھڑے ہوگئے ، ایک دوسرے کو اوپر سے نیچے دیکھتے رہے ، ابوبکر نے عثمان کے دونوں کاندھوں پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، جب تک آپ وعدہ نہیں کرینگے ، جو کچھ میں بتاؤں ،وہ آپ ایک راز کے طور پر اپنے پاس ہی رکھینگے ، قبول کرنے یا رد کرنے میں آپ کو اختیار ہے ، لیکن کسی کے سامنے اظہار نہیں کرینگے ،عثمان گہرے سوچ میں پڑگئے ، آنکھیں بند کرکے کہنے لگے ، رب کعبہ کی قسم ، آپ نے مجھے فکر مند کردیا۔۔۔ راز کو راز ہی رہنے دینے کا وعدہ کرتاہوں ، کیونکہ لگتاہے آپ کسی عظیم الشان مسئلے کے متعلق اخفائے راز کی یہ تاکید کررہے ہیں ، ابوبکر نے کہا’’ ھو کذلک ،امر عظیم ‘‘ جی ہاں ایسا ہی ہے ، بہت بڑی بات ہے ، عربوں نے اس جیسا امر اس سے قبل دیکھا نہ سنا ، اس میں ان کی بھلائی ہے ،دنیا وآخرت میں ، عثمان نے پہلی مرتبہ آخرت کا سن کر بھنویں اچھی طرح سمیٹ کر ، سر جوڑ کر اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حیرت واستعجاب کی تصویربن کر کہا’ ’الآخرۃ ، ماالآخرۃ ؟ ‘‘ آخرت ۔۔۔ یہ آخرت کیا ہے ؟ ؟ یہاں ابوبکر کے تفصیلی جواب کا لب ّلباب گویا علامہ اقبال مرحوم نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیاہے :
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالمِ رنگ وبو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھوگیا اک نشیمن توکیاغم
مقاماتِ آہ وفغاں اوربھی ہیں
توشاہیں ہے،پروازہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اوربھی ہیں
اسی روز وشب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زماں ومکاں اور بھی ہیں
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اوربھی ہیں

ابوبکر نے صدیقی لب و لہجے میں پیامِ اسلام عثمان کے گوش گذارکردیا اور خاموش ہوگئے ،عثمان مگر ان کی جوابی گفتگو کے اختتام سے بہت پہلے چراغ محمدیﷺ کا پروانہ بن گئے تھے ، ابوبکر کا تیر نشانے پہ لگاتھا ،عثمان کو گھائل کرگیا تھے ۔ ان کا قلب و ضمیر اس لافانی خطاب اور اس میں مضمر دائمی پیامِ نجات کے حق میں گواہی دے چکا تھا،چنانچہ آغوش ِسلام میں آکر عثمان نے ہمہ تن او رہمہ وقت دین حق او رپیامبر حقﷺ کی ہر پکار پر لبیک کہا ، اور تاحیات مال ، جاہ واثر سب ان پر نچھاور کرتے رہے ،بعد کی پوری زندگی میں ایفائے عہد، جہد مسلسل اور لازوال قربانیوں کی بے شمار مثالیں شان حق اور وابستگان دامن مصطفی ﷺکیلئے عثمان چھوڑ گئے ،یہاں تک کہ18ذی الحجہ35؁ھ کو اسی پیغام کی کما حقہ نشر واشاعت پر جان بھی قربان کردی، ان کی سیرت او رخلافت میں ہر زمانے کی طرح آج کے حاکموں ، امیروں اور مالداروں کیلئے بے شمار اسباق ہیں ، ان کا طرز عمل ،طرز سیاست اور طرز زندگی رہتی دنیا کیلئے طلبِ آخرت کے حوالے سے ایک حسین نمونہ او ربہترین آئینہ ہے ۔

کیا ہے کوئی حکمراں، سیاستداں ،وزیر ،امیر ، عہدے دار ، ذمے دار یا زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ کوئی بھی با ضمیر انسان جو آقائے نامدار، محسن انسانیت ﷺ کی طرح ان کے چنیدہ وبرگزیدہ یاروں خصوصاً ذوالنورین کی سیرت وشخصیت کا بنظر انصا ف مطالعہ کرکے اسے مشعل راہ بنائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دونوں جہاں میں سرخ روہو؟
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877823 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More