کئی دنوں بعد 10 اکتوبر کو نماز
ظہر سے فارغ ہوکرمیں نے فیس بک ا کاؤنٹ لاگ آن کیا تو نیوز فیڈ پر عزیز
دوست احمد بن نذر کی پوسٹ پرسب سے پہلے نگاہ پڑی ، جس میں وہ ایک جواں سال
فاضل ، اور اپنے رفیق ہمدم شہباز ندیم کے موت کے خبر کچھ اس انداز سے دے
رہے تھے جس سے پتہ چل رہاتھاکہ اس موت نے ان کی زنذگی پر گہرا اثر کیا ہے ،
وہ رنج والم کی گہری وادی میں غوطہ زن ہیں ،ان کے جملے نے مجھ پر بھی گہرا
اثر کیا ۔میں بھی شدت غم سے نڈھال ہوگیا ۔رنج والم کی کیفیت سے دوچار تھا
ہی لیکن پوسٹ کی اگلی سطر میں ایک اور موت کی خبر نے میرے جسم پر زلزلہ
طاری کردیا ، ایسا لگا کہ صاعقہ آسمانی مجھ پر آگڑی ہے ، میرے پاؤں تلے سے
مٹی سے کھسک گئی ہے،یہ اطلاع تھی پاکستان سے تعلق رکھنے والے میرے مخلص
دوست محمد نوید ارشد کے انتقال پرملال کی ۔ اس خبر کو پڑھ کر میں سوچنے
سمجھنے سے بالکلیہ قاصر ہوگیا ۔سمجھ میں نہیں آسکا کہ یہ معاملہ آخر کیا ہے
۔اگر احمد نے پوسٹ کے ساتھ تصویر نہ لگا رکھی ہوتی شاید میں تذبذب کا شکار
رہتا کہ یہ کوئی اور نوید ہے۔ میں نے لگے ہاتھوں فیس بک پر بھائی نویدکے
اکاؤنٹ کو سرچ کیا جہاں ان کے ٹائم لائن پر کئی سارے لوگوں کے شئیر کردہ
پوسٹ سے ان کے موت کے بارے میں کچھ تفصیلی معلومات ملی ۔لیکن اب بھی میری
تشنگی باقی تھی کہ موت کیسی ہوئی ، کب ہوئی ، نمازہ کب ادا کی گئی ،جس کا
تذکرہ کسی صاحب نے نہیں کررکھا اتفاق سے اسی دوران فیس بک پر میرا رابطہ ان
کی کزن سے ہوگیا جس نے بتایاکہ 9 اکتوبر کو صبح دس بجے’’ سی پی او‘‘ ٹھیک
کرتے ہوئے بجلی کا کرنٹ لگنے سے ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ، انا
ﷲ و انا والیہ راجعون۔رات میں تجہز وتکفین ہوئی ہے ۔
میرے اور نوید ارشد کے تعلقات کوئی زیادہ پرانے نہیں ہیں اس تعلق کا پس
منظر ایک مضمون ہے جسے میں نے آج سے ایک گیارہ ماہ قبل لکھاتھا ، میر ا وہ
مضمون ’’درالعلوم دیوبند پر خطرات کے منڈلاتے بادل ‘‘روزنامہ عزیزالہند میں
شائع ہواتھا ، جس پردہلی ، مغربی یوپی، میوات اور پانی پت کے علاقوں سے
تقریبا 150 سے زائد لوگوں نے فون کرکے مبارکبادی پیش کی تھی جس میں میرٹھ
کے ڈی ایس پی جناب ساجد حسین سمیت کئی اہم ترین لوگ شامل تھے ۔بہر حال اسی
مضمون کے پس منظر میں بھائی نوید نے بھی مجھ سے فیس بک کے ذریعے رابطہ کیا
،مضمون کی انپیج فائل انہوں طلب کی ، اس مضمون پر ان کا سب سے بڑا اعتراض
میرے اس جملے پہ تھا جومیں لکھا تھا کہ دارالعلوم جہاد اور دہشت گردی کی
تعلیم نہیں دیتا ہے ،انہوں نے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے مجھے میل کیا کہ
آپ نے دارالعلوم کے حوالے سے کذب بیانی سے کام لیا ہے ، دارالعلوم کی غلط
تاریخ آپ نے بیان کی ہے ، دارالعلوم کے قیام مقصد ہی جہاد ہے پھر آپ نے اس
کا انکارکیسے کردیا ؟۔میں نے انہیں لکھا کہ جب دارالعلوم کا قیام ہواتھا اس
وقت واقعی یہ بھی ایک مقصد تھا اور دارالعلوم کو اس مقصدمیں کامیابی ملی ،
ہندوستان کو آزادی ملی اور انگریزوں نے یہاں سے راہ فرار اختیارکیا ، لیکن
سردست ہندوستان میں اب جہاد کی ضرورت نہیں ہے ۔حالیہ دنوں میں حکومت ہند
سمیت پوری باطل طاقتیں دہشت گردی کے نام پر دارالعلوم کو بدنام کررہی ہے
اوراس کے خلاف محاذ آرائی قائم کررہی ہے ۔ہم نے اس نظریہ کی تردید کی ہے ۔
جس کے بعد انہوں نے سکوت اختیار کیااور اس مضمون کو اپنے زیر ادارت شائع
ہونے والے ماہنامہ خدام الدین میں شائع کیا۔
اس کے بعد میرے اور ان کے رابطے مسلسل بڑھتے رہے ،ان کی شیریں کلامی نے نہ
چاہتے ہوئے بھی مجھے ان سے بے حد قریب کردیا ، ہمیشہ انہوں نے محبت بھرے
لہجے میں گفتگو کی۔ مختلف مسائل پر ہماری اور ان کی اکثر گفتگو ہوتی رہی ،
بارہا انہوں نے پاکستان آنے کے دعوت بھی دی، پاکستان کی میگزین میں میرے
کئی سارے مضامین بھی انہوں نے شائع کرایے ۔بصیرت آن لائن کے وہ مستقل قاری
تھے ،پاکستان میں بہت حد تک اپنے حلقے میں انہوں نے اس کا تعارف بھی کرایا۔
مجھے بھی پابندی سے پڑھتے تھے ،جب کبھی میرے کالم کا ناغہ ہوتا فورا وجہ
دریافت کرتے ۔
وہ پاکستان میں اپنے ہم عمروں میں انتہائی مقبول تھے ، بہت کمر عمرمیں
انہوں نے بہت کچھ کیا ہے اور بہت کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے تھے ، کئی اسلامی
میگزین میں وہ ادارت کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔علماء سے انہیں خاص محبت
تھی ، وہ ہندوستان کے حوالے سے عام پاکستانیوں سے الگ ہٹ کر سوچتے تھے ، ان
کی تحریر او رگفتگوسے کبھی پتہ نہیں چلا کہ وہ ہندوستان کو دارالحرب سمجھتے
ہیں اور اس کے خلاف جہاد فرض ہے ۔
وہ گذشتہ کئی سالوں سے میڈیا ورکشاپ منعقد کررہے تھے سال رواں کے پروگرام
کا پورا خاکہ تیار کرکے انہوں مجھے بھیجا کہ آپ چیک کرلیں ، میں نے ایک
دوست کے حکم کی تعمیل میں اسے پڑھاتو ان کے پروگرام کی ترتیب اور موضوعات
کے انتخاب کو دیکھ حیران رہ گیا ، ان کے پروگرام کا پورا خاکہ اسلامی صحافت
پر مبنی تھا اور ان کی تحریر سے یہ ثابت ہورہا تھا کہ وہ اپنے سینے میں
ڈھڑکتا ہو ا دل رکھتے ہیں ۔ملت کے تئیں فکرمند او رحسا س ہیں ، وہ بہت کچھ
کرنے کے پاک جذبات سے سرشار ہیں، اسلامی صحافت کا فروغ ان کی زندگی کا مشن
ہے ، انہوں نے مجھ سے اپنی اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ میڈیا ورکشاپ میں
ہم ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعے آپ کا لکچر چاہتے ہیں ۔ اور اس کے لئے انتظام
کررہے ہیں ، ہندوستان سے پاکستان ویڈیوکانفرنس ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے
اور وہ بھی ایک عام آدمی کے لئے ۔ساتھ ہی میں نے بھی انہیں کسی مصلحت کے
تحت ایسا کرنے سے منع کردیا ۔
ہندوستان میں رہتے ہوئے کسی پاکستانی سے سوشل سائٹ پر رابطہ میں رہنا ہم
ہندوستانیوں کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے کیوں کہ ہندوستان کی خفیہ ایجنیساں اس
پر پوری نگاہ رکھتی ہے ۔اس لئے گفتگو کے دوران بہت سارے امور کا خیال رکھنا
ہوتا ہے۔بھائی نوید نے میرے ساتھ ہمیشہ ان چیزوں کا خیال کیا ، مجھ سے
انہوں نے کبھی بھی طالبان ، جہاد اور متنازعہ امور پر بات نہیں کی ۔ ہرچند
کہ وہ جذبہ جہاد سے سرشار اور طالبان حامی تھے ۔ان کی موت سے چند دنوں قبل
ان کی اور چھ دیگر ساتھیوں کی فیس بک آئی ڈی فیس بک انتظامیہ کی طرف سے ہیک
کرلی گئی تھی جس کی وجہ یہی تھی کہ ان لوگوں نے ٹائم لائن پر جہادی پوسٹر
شائع کیا تھا۔جس کے بعد انہوں نے دوسر ی آئی ڈی بنائی تھی ۔ کئی سارے امور
پر میرا نظریہ ان سے مختلف رہا لیکن انہوں نے کبھی شکایت نہیں کی ۔ان کی سب
سے بڑی خواہش ہمارے تئیں یہ تھی کہ کسی طرح پاکستان کے سفر کے لئے کوئی
موقع ہاتھ لگ جائے اور ہم دونوں کی روبرو ملاقات ہوجائے لیکن افسوس صد
افسوس کہ اس خواہش کی تکمیل سے پہلے ہی وہ اپنی دھرتی سے رخت سفر باندھ گئے
اورپاکستان میں میری آمد کا انتظار بھی نہیں کرسکے ۔
بھائی نوید ارشد ایک بھولے بھالے اور نیک سیرت انسان تھے ، حسن اخلاق ان کی
فطرت کا حصہ تھا ،بچپن کی زندگی سے گذر کر ابھی انہوں نے جوانی کی دہلیز پر
قدم ہی رکھا تھا ۔چوبیس یا پچیس سال کی تقریبا عمر رہی ہوگی ۔ایک سال قبل
12 اکتوبر2013 میں ان کی شادی ہوئی تھی۔یعنی 12 اکتوبر 2014 کو ان کی شادی
کی پہلی سالگرہ تھی لیکن سالگرہ صرف تین روز قبل 9 کو ہی وہ راہ عدم مسافر
ہوگئے اور اپنی شادی کا یک سالہ سفربھی مکمل نہیں کرسکے ۔اگست میں اﷲ نے
ایک بیٹے سے نوازا تھا جس کا نام انہوں نے شاید اسامہ رکھا تھا میری دعا ہے
کہ یہ بچہ سدا پھولے پھلے ، اﷲ پاک اس کی زندگی میں خیر و برکت عطافرمائے ،ان
کا وطنی تعلق ہندوستان کے مدھیہ پردیش میں ضلع کرنول سے تھا جہاں سے آزادی
سے قبل ان کے آباء اجداد پاکستان ہجرت کر گئے تھے ۔ لاہور سے قریب ایک گاؤں
میں ان کا گھر تھا ۔خاندانی حسب ونسب کے اعتبار سے وہ راجپوت تھے۔وہ جمعیۃ
علماء اسلام کے رہنماء تھے ، پاکستان کی سیاسی ، سماجی ، صحافتی اور تعلیمی
سرگرمیوں پر خاص نگا ہ رکھتے تھے ۔ملی مسائل کے تئیں وہ ہمیشہ فکرمند رہتے
تھے۔ لاہور میں وہ مجلہ خدام الدین اور دیگر کئی میگزین کے لئے بھی کام
کرتے تھے۔اپنی موت سے چند دنوں قبل وہ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسف پہ کچھ
کام کرنا چاہ رہے تھے۔ اﷲ تعالی اہل خانہ کو صبر جمیل عطافرمائے ، ان کی
قبرکو روضۃ من ریاض الجنۃ بنائے،جنت الفردوس میں انہیں اعلی مقام عطافرمائے
، آمین ثم آمین۔
میرے دوست نوید ارشد! آپ کی محبت آپ کی شفقت ، آپ کی عنایت اور حسن رفاقت
ہمیشہ مجھے یادآئے گی ، دودلوں کی قربت کے درمیان حائل دوملک کی سرحد اس
دنیا میں ملاقات سے مانع بنی رہی لیکن کل آخرت میں یہ سرحد ہمارے لئے رکاوٹ
نہیں بنے گی ،انشاء اﷲ تعالی ہماری ملاقات ہوگی ،ہمارا خواب شرمندہ تعبیر
ہوگا ، ہم دونوں ایک دوسرے سے گلے ملیں گے ۔
آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتاہی رہے گا |