الحمد ﷲ! دین اسلام کی
تبلیغ اور اشاعت مختلف صورتوں سے ہورہی ہے اور امت کی اصلاح کی جد وجہداور
تدبیریں ہورہی ہیں، جس کے نتیجے میں اﷲ کے فضل وکرم سے ظاہری صورتیں، مثلاً
وضع قطع، لباس، حج، نماز، زکوٰۃ، روزہ وغیرہ میں اﷲ تعالیٰ کے احکامات زندہ
ہورہے ہیں، لیکن اعمال کی روح اور باطنی اصلاح کے بغیر اﷲ کا تعلق نصیب
نہیں ہوتا اور اسلام کی حقیقت اور قدریں نمایاں نہیں ہوتیں،بزرگان دین
فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ پورے دین میں داخل ہوجاؤ۔ مسلمانوں
کی اعانت اور امداد دین کی پختگی میں وابستہ ہے۔ آج حال کا امر ہے کہ
مسلمان اپنی روحانی قدریں پہچانیں، تاکہ ہمیں روحانی طاقت وقوت نصیب ہوجائے
اور ہم دنیا کے فریب میں ایمان کو نہ چھوڑیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا
ارشاد ہے:’’اﷲ رب العزت تمہاری صورتوں اور کھالوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ
تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے‘‘۔ تو قلب رب العالمین اور احکم الحاکمین کے نظر
فرمانے کا مقام ہے، اس شخص پر تعجب ہے جو اپنے چہرہ کا اہتمام کرتا ہے جو
مخلوق کے دیکھنے کی چیز ہے، اس کو دھوتا اور گندگیوں اور میل سے صاف کرتا
اور حتی الوسع اس کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ مخلوق کسی عیب پر
نہ مطلع ہو اور اپنے اس قلب کا اہتمام نہیں کرتا جو رب العالمین کے نظر
فرمانے کا مقام ہے، کسی عیب اور برائی ، گندگی اور آفت کو اس میں نہ دیکھے،
بلکہ اس کو تو فضیحتوں، گندگیوں اور برائیوں میں ڈالے رکھتا ہے، اگر
مخلوقات میں سے کوئی اس کو دیکھ لے تو اس سے علیحدگی اور جدائی اختیار کرلے
اور اس کو چھوڑ دے۔قلب ایسا بادشاہ اور رئیس ہے کہ اطاعت اور فرمانبرداری
کے قابل ہے اور تمام اعضاء انسانی اس کے تابع اور ماتحت ہیں، لہٰذا جب
متبوع میں صلاحیت پیدا ہوگی تو تابع میں یقینی طور پر ظاہر ہوگی اور جب
بادشاہ راہ راست اختیار کرے گا تو اس کی رعایا خود راہ راست پر آجائے گی
اور اس چیز کو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد بخوبی بیان کردیتا ہے کہ
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاجس کا خلاصہ و مفہوم یہ کہ :۔’’بدن میں گوشت
کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہو تو سارا بدن درست ہوتا ہے اور وہ خراب ہو تو
سارا بدن خراب ہوجاتا ہے، ہوشیار رہو کہ وہ قلب ہے‘‘۔ (ابن ماجہ،ج:۵،ص:۷۶۴)
دنیا دار الامتحان ہے، یہ زندگی اﷲ تعالیٰ کی امانت ہے، اس کو ہم اپنی مرضی
کی مطابق نہیں گزارسکتے، مگر ہرکام میں دیکھنا ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ کا کیا
حکم ہے؟ اور حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کا کیا طریقہ ہے؟․․․زندگی موت ہے اور موت
زندگی کی ابتداء ہے جو اصل اور ابدی ہے، لہٰذا اس دنیا میں انسان کی ابدی
زندگی سنوارنے کے لئے دو طریقے ہیں، اول: دل۔ اور دوم: جسم۔دل جسم کا
بادشاہ ہے، اگر وہ سنور گیا تو پورا جسم یا یوں کہئے پوری زندگی سنور گئی
اور اگر وہ خراب یا فاسد ہوگیا تو پوری زندگی خراب ہوجائے گی۔ دل کا تعلق
براہ راست اﷲ تعالیٰ سے ہے،دل احساسات کی کائنات ہے، دل مسکن الٰہی ہے۔
انبیاء کرام علیہم السلام، اولیاء کرامؒ نے ہمیشہ لوگوں کے دلوں پر محنت کی۔
دل میں اﷲ تعالیٰ اپنے سوا کسی غیر کو، محبت کی نسبت، خوف کی نسبت، امید
اور یقین کی نسبت نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایمان دل کی کیفیت کا نام ہے اور جسم
سے اس کا اطاعت الٰہی کی صورت میں ظہور ہوتا ہے۔ایک بزرگ ارشاد فرماتے ہیں:
’’جس طرح رات دن کا فرق ہے، اسی طرح نور وظلمت کا فرق ہے۔ نور حقیقی کے
ظاہر ہوجانے کے بعد (یعنی اپنے اعمال نظر آجانے کے بعد) رات اور دن کے فرق
کی طرح دین اور دنیا کا فرق معلوم ہوگا۔ دن کی روشنی اعمال میں کامیابی
دکھاتی ہے اور دنیا کی چیزوں سے متنفر اور صراط مستقیم کا راستہ دکھاتی ہے۔
سورج کی روشنی بغیر محنت آجائے گی ، لیکن اعمال دکھانے والی روشنی محنت سے
آتی ہے اور جب یہ روشنی نصیب ہوگئی تو پھر مطلب حاصل ہوگا۔ اس روشنی کے
حصول کے بعد نہ سود کے نزدیک جائے گا، نہ کسی کو دھوکہ دینے کا سوال پیدا
ہوگا اور نہ رشوت یا دیگر منکرات کے قریب جائے گا، جو کام کرے گا مرضی مولیٰ
کی خاطر کرے گا، اگر کسی کو دوست بنائے گا تو بھی اسی کی مرضی مطلوب ہوگی
اور اگر کسی کو دشمن سمجھے گا تو بھی اسی کی رضا کے لئے ‘‘۔
|