اس ہفتے کئی دل چسپ خبریں سننے
کو ملیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کو بھتے کی پرچیاں ملنے کا دل چسپ
انکشاف پریس کانفرنس کے ذریعے ہوا۔ اس بارے میں جتنے تبصرے مجھے سننے کو
ملے ہیں انھیں ضبط تحریر میں نہیں لا سکتا ، لیکن پشتو کی مثال ہے کہ عقل
مند کو اشارہ کافی ہے۔بہرحال یہ بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ انھیں بھتے
کی پرچیاں نہیں ملیں ہونگی ، لیکن رقم بہت کم مانگی گئی ہے اور پرچی دینے
والے کے دل گردے کی داد بھی دینی پڑے گی کہ سیکورٹی کے سب سے سخت حصار میں
بھی پرچیاں ان رہنماؤں تک پہنچ گئی۔مجھے سخت حیرانی ہو رہی ہے کیونکہ جتنی
مضبوط اور معیاری سیکورٹی متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کی ہے اتنی تو
پاکستان کے وزیر اعظم کی بھی نہیں ہوگی ۔ گو کہ اس کے باوجود متحدہ قومی
موومنٹ کے کئی اراکین اسمبلی اور ذمے دار ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں
لیکن جب نیوی کے ہیڈ کواٹر میں شدت پسندوں کے حامی ہوسکتے ہیں تو نائن زیرو
کوئی آسمان میں بنی جگہ تو ہے نہیں ۔تیسری دل چسپ خبر ڈی جی رینجرز کی جانب
سے سامنے آئی کہ اگر بلی کی گردن میں گھنٹی نہیں باندھ سکے تو کم از کم دُم
میں ضرور باندھ دیں گے۔ یہ نہایت واضح اشارہ بے بسی تھا کہ بلی ان کے سامنے
ہے ، گھنٹی ان کے ہاتھ میں ہے ، لیکن باندھنے کی اجازت نہیں ہے ہاں ، ضد
بڑھ گئی تو دم میں گھنٹی باندھنے کی اجازت ملنے کاامکان ضرور ہے ، اس پر ہم
سوائے اظہار ہمدردی کے اور کیا کرسکتے ہیں۔جب رینجرز جیسے ادارے کا یہ حال
ہو تو کراچی کا اﷲ ہی حافظ ہے ، اندھے چوکیدار کی طرح ، چلاتے رہو کہ جاگتے
رہو ، پولیس نے بھتہ خوروں کے خلاف سیٹیاں تقسیم کیں تھیں کہ مصیبت آئے تو
سیٹیاں بجا دیا کریں ، رینجرز نے گھنٹیاں ہاتھوں میں رکھی ہوئی ہیں۔رینجرز
چاہے تو صرف ایک ہفتے کے اندر تمام چوہوں کو بلوں سے نکال کر ، ان کو کھانے
والی بلی کی گردن میں گھنٹی ہی نہیں بلکہ اس کی سات سانسیں بھی نکالنے میں
مہارت رکھتی ہے ، لیکن اب کیا کہا جائے کہ ایوانوں میں عدل کی گھنٹی کب بجے
گی۔
18اکتوبر کے دن پی پی پی عوامی قوت کا بھرپور مظاہرہ ہے۔ بقول عمران خان
زندہ لاشیں بلاول زرداری کو سنیں گی۔ویسے عمران خان بھی کوئی موقع طنز کرنے
کا نہیں جانے دیتے ۔ اب اگر ان کے پاس مُردہ دل لوگ ہیں جن کے احساس مر چکے
ہیں ، ضمیر مر چکے ہیں تواس میں کسی دوسروں پر تیر نشتر چلا کر کیوں
کارکنوں میں اشتعال انگیزی کرتے ہیں۔اگر ان کا لب و لیجہ مہذب ہوجائے تو سب
بھی اسی طرح ہو جائیں گے ۔لیکن آہستہ آہستہ جس طرح سیاسی بیانات میں کرکٹ
کی متعدد اصلاحات انھوں نے متعارف کرائیں اب نیا سیاسی دشنامی بیانات کا
کلچر بھی وہی متعارف کرا رہے ہیں۔جو کل ان کے مداح تھے وہی اب نقاد بھی ہیں
۔ خیر یہ تو چلتا رہتا ہے ۔ دلچسپ خبروں میں سب سے بڑ ی دلچسپ خبر عثمانیہ
کالونی میں سنیٹرل جیل توڑنے کیلئے کھودی جانے والی 45فٹ لمبی سرنگ ہے ، جس
مکان میں سرنگ بن رہی تھی اسے کسی پولیس والے ہی نے فروخت کیا تھا ۔خیر
رینجرز نے بروقت کاروائی کرکے مصدقہ مخبری پر اس سازش کو ناکام بنا دیا ،
ویسے جیل میں کسی بھی قسم کا لٹریچر ، مواد ، موبائل فون ، منشیات لے جانا
کوئی مشکل کام نہیں ہے ، چند روپوں کے خاطر پولیس کے بعض کرپٹ اہلکار یہ
کارنامے خود سر انجام دیتے ہیں ، جیل سے لیپ ٹاپ بر آمد جاتے ہیں پھر سمارٹ
فون کے ذریعے دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی سے بھی ویڈیو کال کے ذریعے رابطہ
کون سا مشکل کام ہے۔ جیل کے اندر بنی وی آئی پی بیرکس ، میں یہ تما م
سہولیات کی فراہمی ناممکن نہیں رہی ہے۔ایک چھوٹا سا سمارٹ فون لیپ ٹاپ سے
بڑھ کر کام کرتا ہے ، کانفرنس کال کے ذریعے یا پھر گروپ کے ذریعے ویڈیو
کانفرنس اب کوئی انہونی بات نہیں ہے۔لٹریچر تو ہر سیاسی یا مذہبی جماعت کا
ہر جیل میں ہوتا ہے اس میں کیا خاص بات ۔
لاکھوں روپوں کی آمدنی ، منشیات فروشی اور مخصوص ملزمان کو خصوصی سہولیات
کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ کچھ عرصے قبل پیام رسانی کے ایک انوکھے طریقے
کے متعلق معلومات ملی کہ کوئی نیٹ ورک اس مخصوص پیام رسانی کی نگرانی نہیں
کرسکتا ۔ آج کل بھی یہی طریقہ استعمال ہو رہا ہے ، کسی بھی ای میل پر اپنا
مکمل پیام لکھ کر اسے پوسٹ کرنے کے بجائے ڈرافٹ میں محفوظ کرلیا جاتا ہے
۔ای میل کا پاس ورڈ پیام رسانی والے اور دوسرے شخص کے پاس بھی ہوتا ہے وہ
اس ای میل کے ڈرافٹ کو اوپن کرکے پیام پڑھ لیتا ہے ، انٹر نیٹ کی جتنی بھی
نگرانی کی جائے ، ای میل جب Sendہی نہیں ہوگی تو اس کو کون مانیٹر کرے
گا۔ڈرافٹ میں محفوظ رکھنے کا یہ عمل نہایت محفوظ سمجھا جاتا ہے ، پڑھنے کے
بعد ایسے ڈیلیٹ نہیں کیا جاتا بلکہ اس پر اوور رائیٹنگ کرکے اصل پیام کو
ختم کردیا جاتا ہے ، اس طرح پیام کو ری سائیکل بکس یا بیک اب سے بھی تلاش
نہیں کیا جا سکتا کہ کیا پیام لکھا گیا تھا۔
خیر یہ تمام معلومات تو ہر خفیہ ادارے سے لیکر بچے بچے تک کو معلوم ہے ،
بات کہاں سے کہاں چلی گئی ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جتنے بھی کیمرے لگائے گئے
ہیں ان کا زوم انتہائی کمزور ہے اور وہ چہرہ شناخت نہیں کرسکتا ، مانٹرنگ
روم والے الیکڑونک میڈیا کے بعض چینلز کو ایکسڈنٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دے
دیتے ہیں ، جو لوگوں کے لئے باعث تفریح کا ذریعہ بنتا ہے ۔
اسکینگ مشینیوں کے ذریعے آج تک کوئی بڑی کاروائی نہیں پکڑی گئی ، کسی بھی
ٹرین میں چلے جائیں ، کسی بھی مخصوص فرد کو ٹرین میں سوار کروانا ہو تو
ٹرین کی روانگی میں رکاؤٹ پیدا کردی جاتی ہے ، کسی بھی اسٹشین سے یا راستے
پر ٹرین رکوا کر با آسانی کوئی بھی کہیں جا سکتا ہے ۔
افغانستان کی سم یا ملائیشا کی سم کا دور بھی گذر گیا اب انٹر نیٹ پر کسی
بھی جعلی نام سے امریکہ سمیت کسی بھی ملک کا فون نمبر حاصل کیا جاتا ہے اور
پاکستان میں بیٹھ کر امریکہ کے نمبر سے بات کرسکتے ہیں اگر کسی کو یقین
کروانا ہو تو امریکہ کا یا برطانیہ وغیرہ کا نمبر دے دیں ، اس نمبر پر کال
آئی گی اور ایسا لگے گا کہ پاکستان سے امریکہ کال کی گئی ہے ۔بہت جدید دور
ہے ، صرف جدید اسلحہ کچھ نہیں ہے ، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی جرائم
میں اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔ پولیس میں استعداد کار نہیں ہے کہ وہ جدید
نظام سے فائدہ اٹھا سکے ۔ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی انسانی
مخبری پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ان حالات میں اگر متحدہ قومی موومنٹ کو بھتے کی
پرچیاں مل جائیں تو میں تو حیران نہیں ہوتا ، اگر اداکارہ میرا جیسی فاحشہ
ملالہ یوسف زئی سے اپنا تقابل کرے تو پاکستانی قوم پر حیرانی بھی نہیں ہوتی
کہ قوم کو اور پیمرا کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ڈی جی رینجرز گھنٹی باندھے یا
کسی کی گردن پکڑے ، ایک دھرنے کی مار ہے ، گو رینجرز گو ، کے نعرے بھی لگنے
شروع ہوگئے ہیں ،یہ ہماری قومی مزاج نہیں تھا لیکن بنتا جا رہا ہے ۔ کیونکہ
ہم نے خود کو کبھی با حیثیت قوم تسلیم نہیں کیا ۔ جی ہاں ۔ ممالک کسی بھی
ملک کی عوام کو سرزمین کو تسلیم کرتے ہیں ، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ تمام
تر نعمتوں کے باوجود ہم نے آج تک خود کو ہی تسلیم نہیں ، جس دن خود کو
تسلیم کرلیا تو پھر بنے گی بات !! |