نجیب پیجی تو ہمیں یاد بہت آئے گا

بدھ کی شام کراچی پریس کلب میں بہت گہما گہمی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں ہیومن نیٹ ورک کا سیمینار تھا۔ پریس کلب کے سابق صدر نجیب احمد کی تقریر بہت جذباتی تھی۔ ظلم اور زیادتی کے واقعات اسے ہمیشہ جذباتی کردیتے تھے۔ وہ ہمیشہ مظلوموں کی حمایت کرتا تھا۔ چاہے اس حمایت کے نتیجے میں اسے کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔ کسی کا کوئی کام ہو وہ اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ کسی کا ساتھ دینا ہو۔ کوئی وعدہ نبھانا ہو، کسی کے ساتھ جانا ہو۔ وہ ہمیشہ وقت پر پہنچ جاتا تھا۔ شاید یہی اس کی مقبولیت کا سبب تھا۔ اس نے دل کا روگ پال رکھا تھا۔ لیکن وہ بہت سے صحتمند افراد سے زیادہ کا م کرتا تھا، سیاست میں بہت سے نازک مقام آتے ہیں۔ لیکن اس کی مسکراہٹ جو اب خواب اور خیال ہوگئی ہے۔ بہت سے شکوﺅں کا بہت پیارا سا جواب ہوتا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس سے پہلی ملاقات کب کہاں ہوئی تھی۔ لیکن اس پہلی ملاقات کے بعد وہ دل میں رہتا تھا۔ اس کے جانے کے بعد اس کی یاد دل کو کچھ اس طرح گرفت میں لئے ہوئے ہے کہ کسی پل چین نہیں پڑتا۔ بار بار اس کی صورت سامنے آتی ہے۔ اور ایک تیر سا دل میں لگتا ہے۔ طارق اسلم نے جمعرات کو فون پر یہ اطلاع دی تو ذہن پر سناٹا چھا گیا۔ پیجی اب اس دنیا سے چلا گیا۔ کتنے سارے لوگوں کو سوگوار کر کے۔ صحافت میں اس نے اپنا مقام خود بنایا تھا۔ وہ ان تھک کام کرنے والا کارکن تھا۔ کام کو منظم کرنے کی اس کی صلاحیتیں بے پناہ تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دوست دلدار تھا۔ دوستوں کی دلداری کرتا تھا۔ دائیں بائیں بازو کے سب لوگ اسے پسند کرتے تھے۔

کراچی پریس کلب کے انتخابات اس کی مقبولت کا پیمانہ تھے۔ کئی سال سے وہ مختلف عہدوں پر کامیاب ہوتا رہا۔ ۸۰۰۲ کے سالانہ انتخابات میں نجیب نے 440 ووٹ لیکر سب سے زیادہ ووٹ لینے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے مدمقابل صدر کے عہدے کے امیدوار صبیح الدین غوثی نے 264 لے سکے تھے۔ گزشتہ سال وہ پہلی بار الیکشن ہار گیا۔ لیکن اس نے اس ہار کو اپنی جیت بنا لیا تھا۔ کیونکہ اس کی ہار میں اس کے دوستوں کا ہاتھ تھا۔ اور وہ دوستوں کی کامیابی پر نازاں تھا۔ اس نے اپنے دوستوں کے دئیے ہوئے اس تمغہ شکست کو اپنے سینے پا سجائے رکھا۔ اور اسی میدان میں اس شان سے کھڑا رہا کہ دھوکہ دینے والا رو دے۔ ایسی شان سے دھوکہ کھاﺅ۔ کرائم رپورٹر، بااثرصحافی، جنگ اور جیو کے سینئر رپورٹر اور کراچی پریس کلب کے سابق صدر کی حیثت سے وہ بہت اختیار رکھتا تھا۔ لیکن اس نے اپنے اثر رسوخ سے ہمیشہ دوسروں کی بھلائی کے کام کئے۔ صحافتی حلقوں اور اپنے دوست احباب میں اسے پیار سے ”پیجی“ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ نام اس کی شخصیت سے مناسبت رکھتا تھا۔ وہ اپنے گلی محلے علاقے میں بھی اسی طرح مقبول تھا۔ جامعہ ملیہ میں اسلامی جمعیت طلبہ وابستگی کے بعد اس نے اپنے اس تعلق کو ہمیشہ نبھایا۔ وہ جمعیت کا رکن بنا۔ اور اس نے رضائے الہی کے حصول کو اولیت دی۔ اکتوبر 1961ء کو پیدا ہونے والے نجیب احمد کی یہ عمر جانے کی نہ تھی۔ لیکن اسے جلدی تھی اس لئے اس بہت سے بڑے بڑے کام بہت تھوڑے عرصے میں کر لئے۔ جمعیت کے ہفتہ کتب کے موقع پر اس نے کہا تھا٬ کہ لوگ مختصر سی زندگی میں ڈاکے ڈالتے ہیں اور لوگوں کی جانیں لیتے ہیں مگر جمعیت کے کارکنان نوجوانی کی عمر میں طلبہ کی امداد اور انکا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کےلئے ہفتہ کتب منعقد کر کے فنڈز جمع کر رہے تاکہ کوئی طالبعلم تعلیم سے محروم نہ رہ جائے اس کام کو جتنا سراہا جائے کم ہے۔ نجیب احمد نے کہا تھا کہ آپ جو کام کر رہے ہیں اسے بھرپور طریقے سے جاری رکھیں اس راہ میں رکاوٹیں بھی آئیں گی اور مخالفین آپ پر تنقید بھی کرینگے مگر طلبہ کی بھلائی اور انکی خدمت کا کام جاری رکھیں۔ یہی اس کا مشن تھا۔ اس نے مخالفین اور تنقید کی کبھی پروا نہیں کی۔ وہ آزادی صحافت کا جرنیل تھا۔ پرویز مشرف کے پورے دور میں اس نے جرات کے ساتھ آمریت سے لڑائی لڑی۔ کراچی میں صحافیوں اور آزادی صحافت کی حامی دوسری تنظیموں نے مزارِ قائد پر دھرنا دیا تو پریس کلب سے ریلی نکالی گئی جس کی قیادت پاکستان میں صحافیوں کی تنظیم کے رہنما مظہر عباس۔ کراچی پریس کلب کی صدر صبیح الدین غوثی اور نجیب احمد نے کی۔

کراچی میں صحافی رشید چنا عبدالطیف ابو شامل، محمد طاہر، علی الطاف اور زاہد خٹک کی گرفتاری اور پولیس چھاپوں کے خلاف یہ ریلی نکالی گئی تھی۔ شہر میں ایک بڑے عرصے کے بعد صحافیوں نے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس موقع پر جلوس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کراچی پریس کلب کے صدر کی حییثیت سے نجیب احمد نے کہا تھا کہ اس ملک میں ڈکٹیٹروں نے حکومت زیادہ عرصے کی ہے اور اس دور میں بھی صحافیوں نے اپنے فرائض کوڑے کھا کر اور جیلوں میں جاکر بھی ادا کیے ہیں۔ کراچی پریس کلب نے پہلے ضیاالحق کو للکارہ تھا۔ جس کے بعد سیاسی جماعتوں کی تحریک شروع ہوئی تھی۔ اب صدر مشرف کے خلاف جدوجہد کی جائیگی۔ چینلز کی بندش اور پیمرا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف احتجاج کے دوران ایک سو اکیاسی صحافیوں کی پریس کلب سے گرفتاری کے موقع پر اس کی جرات اور بہادری یاد رہے گی۔ کئی مواقع پر نجیب کی گرفتاری کے لئے پریس کلب کا گھیراﺅ کیا گیا۔ لیکن اس کے ماتھے پر کبھی شکن نہ آئی اور اس نے کبھی راہ فرار اختیار نہیں کی۔ روز نامہ ''اسلام ''کراچی کی بندش کے خلاف احتجاج میں سوائے چند چینلز کے تمام نشریاتی اداروں کی جانب سے شدید مایوسی کا سامنا رہا تھا۔ تاہم اس موقع پر صحافی حلقوں کی جن چند شخصیات ''پی ایف یو جے ''کے سیکریٹری مظہر عباس، روالپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے صدر مشتاق منہاس، بزرگ صحافی عبدالحمید چھاپرا، کراچی یونین آف جرنلسٹس کے سیکریٹری خورشید عباسی، یوسف خان، مقصود یوسفی کے ساتھ کراچی پریس کلب کے صدر نجیب احمد، سیکریٹری امتیاز خان فاران کی آواز سب سے توانا تھی۔ نجیب کی موت نے کراچی پریس کلب کو سوگواری کی چادر اوڑھا دی ہے۔ اگلے ہفتے کراچی پریس کلب کے الیکشن ہیں، لیکن اس بار ایک مہربان چہرہ نظر نہیں آئے گا۔ نجیب پیجی تو ہمیں بہت یاد آئے گا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 394047 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More