دنیا کی اہم ترین اور طاقتور شخصیات

مجھے طاقت اور اقتدار سے محبت ہے لیکن یہ محبت ایک آرٹسٹ جیسی محبت ہے۔ جیسی ایک فنکار اپنے وائیلن سے کرتا ہے۔ نیپولین بونا پارٹ کا یہ قول آج کی دنیا میں پوری طرح صادق نہیں آتا۔ دنیا میں ہر شخص کو اپنے اقتدار سے محبت ہے۔ چاہے یہ اقتدار اور طاقت کسی عورت کو اپنے گھر پر ہو چاہے کسی دفتر میں کسی باس کو حاصل ہو۔ لیکن اصل مزا تو طاقت کے نشے میں ہے۔ جو بادشاہوں کو بادشاہ بناتا ہے۔ ایک سربراہ مملکت کی طاقت کا نشہ کچھ دیگر چیز ہے۔ یہ قوت اور اقتدار ایک مذہبی پیشوا کے اقتدار سے مختلف ہوتا ہے۔ قوت اور حکمرانی کے دائرے مختلف ہوتے ہیں۔ کسی صحافی کے قلم کی طاقت کا کسی دہشت گرد کی طاقت سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب تک قوت اور طاقت کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ کسی کی طاقت کا صحیح اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیا کوئی شخص دنیا کے بہت سے لوگوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ پوپ بینڈیٹ ایک ارب سے زیادہ افراد کے مذہبی پیشوا ہیں۔ یعنی دنیا کے چھٹے حصے پر ان کا اثر نفوز ہے۔ دنیا کو چلانے والی اہم ترین اور انتہائی طاقتور شخصیات کی ایک فہرست امریکی بزنس میگزین ”فوربز“ نے شائع کی ہے اس فہرست میں سربراہان مملکت بڑے سرمایہ دار سوشل ورکرز، مذہبی پیشوا حتیٰ کہ مجرموں کو بھی شامل کیا گیا ہے مذکورہ جریدے کے مطابق یہ وہ شخصیات ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں انتہائی اثرو رسوخ اور اختیارات کی حامل ہیں۔ 2009ء کی طاقتور شخصیات کی فہرست مرتب کرنے والے صحافیوں نے کہا کہ فہرست مرتب کرنے سے قبل ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ”اختیار یا طاقت کی حقیقت کیا ہے؟“ اور کسی شخص کے با اثر ہونے کی کسوٹی کیا ہونی چاہیے؟ اس کے نتیجے میں اثرو اختیار کی چار اقسام سامنے آئیں“ مائیکل نور اور نکول پرل روتھ نے کہا کہ ”کسی ایک کسوٹی یا رویہ پر پورا اترنے والا شخص با اثر اور با اختیار نہیں، ضروری ہے کہ ایسی شخصیت چاروں جہات کی کسوٹی پر پورا اترتی ہو۔ پہلی کسوٹی: کیا ایسا شخص دیگر بہت سے لوگوں پر اثر اور اختیار رکھتا ہے؟دوسری کسوٹی: کیا یہ شخص اپنے معاصرین کے مقابلے میں زیادہ مالی وسائل رکھتا ہے؟ تیسری کسوٹی: کیا یہ شخص دیگر بہت سے حلقوں اور شعبوں میں اثرو نفوذ رکھتا ہے؟ چوتھی کسوٹی: کیا یہ شخص اپنے اثرو رسوخ اور اختیار کا باقاعدہ استعمال کرتا ہے؟

اس طے کردہ اصول کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما کو اس وقت دنیا کی انتہائی با اختیار اور طاقتور شخصیت قرار دیا گیا ہے۔ چین کے صدر ہو جن تا دوسری اہم، طاقتور اور اثرو رسوخ رکھنے والی شخصیت ہیں جبکہ روس کے صدر ولادی میرپوٹن کو اس فہرست میں تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ ۵۸ سالہ سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز طاقتور شخصیات کی فہرست میں نویں نمبر پر ہیں۔ اس فہرست میں وہ سب سے زیادہ معمر فرد ہیں۔ جب کہ فہرست کے سب سے کم عمر بااثر افرد میں ۶۳ سالہ گوگل کے بانی سرگے برین اور لیری پیج بھی شامل ہیں جن کا نمبر پانچواں ہے۔ ، پاپائے روم بینی ڈکٹ 11 ویں پوزیشن پر، اٹلی کے وزیر اعظم برلسکونی 12 ویں، جرمن چانسلر انجیلا مرکل 15 ویں، بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ 36 ویں، القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن، 37 ویں، ایران کے رہبر اعلیٰ آئت اللہ خامنہ ای 40 ویں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن ناتین یاہو ۵۴ ویں نمبر پر ہیں۔ اس فہرست میں منشیات کے بے تاج بادشاہ جوکین گزمین کو ۱۴ واں نمبر دیا گیا۔ اس فہرست میں بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل مارک جان تھاپشن بھی شامل ہیں جن کا نمبر ۵۶ واں ہے۔ جبکہ ونیز ویلا کے صدر ہوگوشاویز کو آخری پوزیشن 67 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ فوربز کی اس فہرست میں پاکستانی وزیر اعظم اور بھارتی وزیر اعظم کے درمیان اسامہ بن لادن نام ڈال کر خطے کی سیاسی صورتحال پر خاموش تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں ایک نام ایسا بھی ہے جو کسی بھی طرح با اثر اور با اختیار نہیں کہے جاسکتے ہیں اور اس حوالے سے طے کردہ اصول و ضوابط کے تقاضے بھی پورے نہیں کرتا ہے یہ شخصیت وزیرا عظم یوسف رضا گیلانی کی ہے جریدے کے مطابق گیلانی ان افراد میں شامل ہیں جو مجموعی طور پر 10 کروڑ انسانوں میں اپنا اثر و نفوذ رکھتے ہیں یوسف رضا گیلانی کو اس فہرست میں 38 ویں پوزیشن دی گئی ہیں۔ وزیراعظم 17 ویں ترمیم کے تحت حاصل اختیارات کے بغیر بے اثر تصور کئے جاتے ہیں، ان کے مقابلے میں صدر آصف زرداری کے پاس مالی وسائل بھی بہت زیادہ ہیں اور ایک اندازے کے مطابق انکی مالیت 40 ارب ڈالر سے زائد ہے اور گیلانی نے اپنے انتخابی گوشوارے میں اپنے اثاثوں کی مالیت صرف دو لاکھ بتائی ہے۔ اس فہرست میں مائیک ڈیوک کا نمبر ۸ واں ہے۔ جو امریکہ میں پرائیوٹ سیکٹر میں سب سے زیادہ ملازمین رکھتے ہیں، وہ وال مارٹ کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔ نیویارک ٹایمز کے ایگزیکیٹیو ایڈیٹر بل کیلر بھی اس دوڑ میں ۷۵ واں نمبر پر ہیں۔ جن کے اثر رسوخ اور وسائل انڈسٹری کے دیگر افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کسی شخص کے عہدے سے اس کی قوت اور اثر کا اندازہ لگانا مناسب نہیں ہے۔ اس کے لئے کسی فرد کی سوچ، دانش مندی، مثبت انداز فکر، کردار، اخلاقیات اور اس کے کام کو بھی سامنے رکھا جانا چاہئے۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کیا اس نے قوت اثر رسوخ کا صحیح سمت میں استعمال کیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کامیاب لوگوں کے پیچھے کچھ اور شخصیات ہوتی ہیں۔ وہی قوت کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں روتھ چائلڈ اور راک فیلر کے نام لئے جاتے ہیں، جن کے سامنے اوباہامہ اور ہیلری کیلنٹن کٹھ پتلی شمار کئے جاتے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ دنیا میں غربت، مسائل، مشکلات تباہی کا سبب یہی لوگ ہیں، جو دنیا کو جمہوریت کے نام پر بے وقوف بنا رہے ہیں۔ دنیا انھیں سچائی، انصاف کا علمبردار سمجھتی ہے۔ لیکن یہ اخلاقیات کے ادنیٰ معیار پر بھی پورے نہیں اترتے ہیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 394048 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More