١٧ جون ٢٠١٣ سے پہلے میرا ایک
نظریہ تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب جگاڑیوں کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے،
اسکی ایک وجہ یہ تھی کہ ہم ایک تماش بین قوم ہیں - ہم غلامی کا طوق اپنی
گردن سے اتارنا ہی نہیں چاہتے- ہم اپنے موجودہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرچکے
ہیں۔ لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن اور حکومت کی بوکھلاہٹ کے بعد مجھے اپنا نظریہ
ونقطہ نظر بدلنا پڑا اور مجھے محسوس ہونے لگا کہ اب حالات تیزی سے بدلیں گے
اور قادری صاحب انقلاب لانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور کرپٹ سیاستدان ماضی
کا حصہ بن جائیں گے- اسی لئیے میں قادری صاحب اور انقلاب کے حق میں لکھتا
رہا اور مجھے جگاڑیوں کے قدموں تلے سے زمین کھسکتی نظرآرہی تھی - مگر گذشتہ
رآت قادری صاحب دھرنا ختم کرکے وآپس لوٹ گئے اور انکی وآپسی کے ساتھ میں
بھی ذہنی طور پر ١٧ جون سے پہلے والی پوزیشن پر لوٹ چکا ہوں۔ قادری صاحب سے
ہزارہا اختلافات کے باوجود میں انکے بارے میں سوفٹ کارنر رکھتا تھا ، ایسے
ہی جذبات تادم تحریر عمرآن خان صاحب کے بارے میں رکھتا ہوں - لوگ اسے خان
اور قادری کی محبت سے تعبیر کرتے ہیں جوکہ غلط ہے۔ مجھے ان دو شخصیات سے
محبت تو شائد نہیں مگر جگاڑی مارکہ جمہوریت سے مجھے سخت نفرت ہے اور اسی
نفرت کی بنا پر میں قادری اور خان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہوں۔ اور
میری ہمدردیاں ہر اس شخص کے ساتھ ہیں جو بھی اس استحصالی نظام کے ساتھ
ٹکرائے گا یا ٹکرانے کی کوشیش کرے گا- کیونکہ مجھے اب یہ گوارا نہیں کہ
میرے بچے بلاول زرداری ، مریم صفدرنواز اور حمزہ شہباز کی غلامی کریں اور
جو لقمے انکے منہ سے گریں وہ ہمارے بچے کھائیں ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے
جگاڑی مارکہ استحصالی نظام سے ٹکرانے کی بھرپور کوشیش کی مگر وہ کامیاب نہ
ہوسکے- کتنا ہی اچھا ہوتا اگر قادری صاحب دھرنا ختم کرنے سے پہلے اپنی شکست
تسلیم کرتے اور کہتے کہ جو ٹارگٹ لیکر میں اسلام آباد آیا تھا انھیں میں
حاصل نہیں کرسکا اور انکا حصول مستقبل قریب میں بھی ممکن نہیں لہذا میں
دھرنا ختم کرکے وآپس جارہا ہوں، میں نے کوشیش کی مگر تماش بین قوم گھروں
میں ٹی وی کے سامنے بیٹھی رہی۔ مگر قادری صاحب نے شکست تسلیم نہ کی اور
دھرنوں کو ملک کے طول و عرض میں پھیلانے کا عندیہ دیا ہے جوکہ فیس سیونگ کے
سوا کچھ نہیں - حقیقت یہی ہے کہ قادری صاحب کو شکست فاش ہوچکی ہے کوئی مانے
یا نہ مانے - یہ صرف قادری صاحب کی شکست نہیں میری بھی شکست ہے کیونکہ میں
بھی انقلاب کا حامی تھا۔ قادری صاحب اور انکے حمایتی شکست مانیں یا نہ
مانیں مگر میں باہوش و حواس شکست تسلیم کرتا ہوں کیونکہ -
میں چاہتا ہوں کہ میرا دشمن بھی خاندانی ہو
کھائے گر شکست تو شرم سے وہ پانی پانی ہو۔
جب میں دشمن سے شکست تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں تو مجھے بھی شکست تسلیم
کرنے میں عار نہیں ہونا چاہئیے- اب بھی قادری صاحب کے حمایتی فرماتے ہیں کہ
دھرنے سے عوام میں ذہنی انقلاب اور شعور بیدار ہوا ہے- معذرت کے ساتھ میں
اس تھیوری سے مکمل اختلاف کرتا ہوں ، یہ صرف شکست پر دبیز پردہ ڈالنے کا
ڈھکوسلا ہے جسکا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ پاکستانی عوام پہلے ہی
سے باشعور ہے یہ روزانہ رآت کو ٹاک شو دیکھ کر ذہنی عیاشی کرکے سوتے ہیں -
یہ تماش بین ہیں - نجی محفلوں میں تو وڈیروں ، جاگیرداروں ، سرمایہ دار
سیاستدانوں کو پھکڑ تولتے ہیں مگر سامنے جاکر چاپلوسی بھی کرتے ہیں اور
تلوے بھی چاٹتے ہیں۔ ظلم کا رونا بھی روتے ہیں ، ظلم سہتے بھی ہیں مگر
بغاوت نہیں کرتے - ایسے منافقین اپنے حقوق کا شعور رکھتے ہیں مگر بغاوت کا
حوصلہ نہیں رکھتے یہ اپنے مقدر و حالات سے شاکی ضرور ہیں مگر ہمیشہ آسمانی
قوتوں اور معجزات کے منتظر رہتے ہیں ۔ لہذا قادری صاحب نے کوئی شعور بیدار
نہیں کیا یہ پہلے ہی شعور تماش بین قوم میں موجود تھا۔ اگر انجام باخیر
ہوجاتا مقاصد حاصل ہوجاتے تو شعور کا کچھ فائدہ تھا ورنہ اس بے عمل بزدل
شعور کا ہم نے اچار ڈالنا ہے آپ قادری صاحب اپنا شعور وآپس لے لیں چودہ
بندے انکے خاندانوں کو وآپس دلا دیں ۔ قادری صاحب یقینی طور پر ناکام ہوچکے
ہیں مگر پاکستان کو بدلنا ہے اب مذید پاکستان اس استحصالی نظام کے ساتھ آگے
نہیں بڑھ سکتا - قادری نہیں تو کوئی اور ضرور اٹھے گا جو اس کرپٹ نظام کے
ساتھ ٹکر لے گا اور پاکستان کو ترقی کی رآہ پر گامزن کرے گا۔
ہار گیا انقلاب جیت گئی ڈائن پھپھے کٹن فیملی لیمٹڈ جمہوریت کوئی مانے یا
نہ مانے ۔ بہرحال تماش بین قوم کو جمہوریت کی فتح مبارک ہو- |