بچپنے کا شباب، کیا کہیے!

عمر کم ہو تو بہت سے کام نہیں ہو پاتے۔ کم از کم عمر کی حد تک پہنچنے سے پہلے کوئی شناختی کارڈ نہیں بنوا سکتا، ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتا، سرکاری ملازمت حاصل نہیں کرسکتا۔ اور صدر یا وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ مگر بلاول بھٹو زرداری کے لیے کم عمر ہونا ایڈوانٹیج میں تبدیل ہوگیا ہے۔

آزادی کا راگ عمران خان نے الاپا ہے اور انقلاب کی راگنی ڈاکٹر طاہرالقادری نے گائی ہے۔ لوگ منتظر ہیں کہ آزادی کے درشن ہوں اور انقلاب برپا ہو۔ لوگ بھلے ہی منتظر ہوں، ہم نے تو دونوں کے درشن کرلیے۔ پیپلز پارٹی نے حکمتِ عملی تبدیل کی ہے۔ سال خوردہ اور آزمودہ کار فائر برانڈ بیان بازوں کو ایک طرف ہٹاکر بولنے کے محاذ پر بلاول کو کھڑا کردیا گیا ہے۔

ہماری سیاست کو نئے خُون کی ضرورت ہے مگر اب ایسی بھی کیا عجلت پسندی کہ نیا خُون متعارف کرانے کے نام پر کسی کی معصومیت ہی کو ٹھکانے لگادیا جائے۔ بلاول کو فُل سوئنگ میں دیکھ کر 1974 کی فلم ’’انمول‘‘ کا ایک گانا یاد آرہا ہے۔ جس کا مُکھڑا کچھ یُوں تھا ……
ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے؟
اجی پیار میں کیا رکھا ہے؟

کچھ کچھ ایسی ہی کیفیت بلاول کی بھی ہے۔ اُنہوں نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے۔ بڑے صاحب نے یہ کیا غضب کیا کہ چھوٹے میاں کو ابھی سے میدان میں اُتار دیا۔ ایک طرف ہماری سیاست کا خارزار اور دوسری طرف بلاول کی اَدھ کِھلی کلی جیسی عمر! ع
ابھی آئے، ابھی بیٹھے، ابھی دامن سنبھالا ہے

اور سچ یہی ہے کہ بلاول نے ابھی صرف دامن سنبھالا ہے، ہوش نہیں۔ وہ ہوش کا دامن بھی سنبھال لیں مگر جوش اُنہیں ایسا کرنے نہیں دیتا۔ سیاست کے تیور تو ایسے ہیں کہ کوئی بھی، کسی بھی وقت داؤ پر لگ سکتا ہے۔ بہت سوں نے سیاست میں طبع آزمائی کی کوشش کی ہے مگر ع
ہوش جاتے رہے تو ہوش آیا!
کی عملی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک ذرا سی ٹائمنگ آؤٹ ہوئی اور بندہ گیا کام سے۔

بلاول کی لانچنگ دیکھ کر قدیم روم کا کولوزیم یاد آتا ہے جس میں غلاموں کو بُھوکے اور بِپھرے ہوئے شیروں سے ’’لڑنے‘‘ کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ بلاول کو بھی ایسے سیاسی تالاب میں پھینک دیا گیا ہے جس میں جبڑا کھولے، شکار کے منتظر مگر مچھوں کی بھرمار ہے۔

حالات کی روش دیکھ کر اور مصلحت کے تمام تقاضوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے بولنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ سیاست میں یہی ایک ہُنر حقیقت ہے، باقی سب افسانہ ہے۔ جسے بروقت اور برمحل بولنا آگیا، سمجھ لیجیے مُراد پاگیا۔

بلاول کے معاملے میں طُرفہ تماشا یہ ہے کہ وہ لِکھا ہوا پڑھنے پر مجبور ہیں۔ اور ایسے معاملات میں کبھی کبھی بھرپور تفریحِ طبع کی راہ بھی ہموار ہوجایا کرتی ہے۔ جب ہم نے مرزا تنقید بیگ کی توجہ اِس نُکتے کی طرف دلائی وہ تو ’’بلاول نوازی‘‘ پر اُتر آئے۔ کہنے لگے کہ سیاست کو نئے خُون کی ضرورت ہے۔ ہم نے کہا کہ عمران خان اور طاہرالقادری نے کوشش کی تھی کہ دھرنوں کی سرنج کے ذریعے سیاست کی رگوں میں تھوڑے سے نئے خُون کی ٹرانسفیوژن ہو مگر میاں صاحب نے ’’ککھ نہ ہِلیا‘‘ والا معاملہ کردکھایا۔ ساتھ ہی ہم نے یہ بھی عرض کیا کہ نیا خُون شامل کرنے کے معاملے میں کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ کہتے پھریں کہ سیاست کی آنکھوں میں خُون اُتر آیا ہے! یہ سُن کر مرزا پھٹ پڑے اور بولے۔ ’’اب یہ بھی تم طے کروگے کہ سیاست کے لیے نیا خُون کیسا ہو؟ میاں! ہوش کے ناخن لو۔ آزمائے ہوؤں کو آزماتے آزماتے ہم اب تھک چکے ہیں۔ کچھ تو نیا پن دکھائی دے۔ اور کچھ نہیں تو تر و تازہ چہرہ ہی سہی۔ بلاول لڑکپن اور شباب کے درمیان جُھولا جُھول رہے ہیں۔ اُن کی باتوں میں معصومیت بھی ہے اور چنگھاڑ بھی۔ آگ اور پانی کا یہ میل دیکھنے اور سُننے والوں کو خوب مزا دے رہا ہے۔ اور ایک تم ہو کہ بس اعتراض کرنے ہی پر تُلے رہتے ہو۔‘‘

ہم نے مرزا کو یاد دلایا کہ بلاول کے ابھی کھیلنے کُودنے کے دن ہیں۔ جواب آیا۔ ’’میاں! سیاسی خانوادوں کے برخودار اِسی طور کھیلا اور کُودا کرتے ہیں۔ اُن کے لیے تو کارکنوں کا اجتماع ہی پلے گراؤنڈ یا ری کری ایشن ایریا ہوا کرتا ہے۔ تم جیسوں کو اُن کا کھیلنا بھی بُرا لگتا ہے۔‘‘

ہم نے مرزا کو مزید یاد دلایا کہ ابھی تو بلاول کے سیکھنے کے دن ہیں، اُنہیں مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے۔ اِس کے بعد ہی وہ بھرپور زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ مرزا مزید بپھرے ہوئے لہجے میں بولے۔ ’’اور کتنا سیکھے گا بے چارا بچہ؟ اچھی خاصی تعلیم تو پاچکا ہے، اب ذرا تربیت بھی ہوجائے۔ اور یہ بھی تو دیکھو کہ بلاول کی تربیت کے پہلو بہ پہلو ہمارے لیے ’طربیت‘ کا سامان بھی ہے۔ پُرجوش جلسے کی سیپ سے اگر تفریحِ طبع کے چند موتی بھی برآمد ہوجائیں تو کیا ہے!‘‘

ہم نے مرزا سے کہا اﷲ سے ڈریں۔ یہاں قوم پر بحرانی کیفیت سوار ہے اور آپ کو سیاست کے ذریعے تفریحِ طبع کی سُوجھ رہی ہے۔ مرزا نے پہلے جیسے ہی بپھرے ہوئے لہجے میں ہماری کلاس لی۔ ’’یہاں کون سا معاملہ ہے جس میں سنجیدگی رہ گئی ہے؟ ہر بحر کی تہہ سے تفنّن کے موتی ہی برآمد ہو رہے ہیں۔ ہر شخص ہر طرح کی کیفیت سے صرف دل بہلانے والے چند لمحات کشید کرنا چاہتا ہے۔ سیاسی جلسوں کے ذریعے عوام کا دل بہلانے کی روایت پیپلز پارٹی ہی کی متعارف کرائی ہوئی ہے۔ تحریکِ انصاف نے اِس ’تابندہ‘ روایت کو پروان چڑھاکر آگے بڑھایا ہے۔ اور اِس میں کون سی بُری بات ہے؟ سیاست کے ہاتھوں تھکن سے دوچار ہونے والے ذہنوں کو اگر سیاست ہی کے ذریعے کچھ تفریح مل جائے تو اِس میں کسی کے باپ کا کیا جاتا ہے؟‘‘

مرزا ہمیشہ ہماری ہر بات کو غلط ثابت کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ پھر بھلا اِس بار وہ اپنی ’’روایت‘‘ کیسے بھولتے؟ ہم نے جب شِکوہ کیا کہ بلاول کا سیاسی تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اِتنی بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ بناکر اُنہیں عملی سیاست میں لانچ کرنا دانش مندی کی علامت نہیں تو وہ جیالوں کے سے پُرجوش انداز سے بولے۔ ’’ہماری سیاست میں اب عمر کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ تم اِس بات کو رو رہے ہو کہ بلاول میں ابھی لڑکپن ہے۔ یہ تو غنیمت ہے۔ ہمارے بہت سے بزرگ سیاست دانوں کا بچپنا اب تک نہیں گیا! اُس کی حرکتیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ابھی ابھی جُھولے سے نکلے ہیں! لگتا ہے اُنہیں لڑکپن کی منزل تک پہنچنے میں بھی ابھی کچھ وقت لگے گا۔ ایسے میں بلاول لڑکپن کے ساتھ میدان میں آئے ہیں تو پریشانی کیوں؟ اور خوف کیسا؟ اور تجربہ کار بھی وہ ہو ہی جائیں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِنسان کچھ نہ کچھ سیکھ ہی جاتا ہے۔ اور بلاول کا تعلق تو اُس طبقے سے ہے جس میں لوگ سیکھے سِکھائے پیدا ہوتے ہیں۔ ذرا اِس معاشرے پر ایک نظر تو ڈالو۔ جو سیکھتا ہے وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ اور جنہیں کچھ نہیں آتا سب کچھ اُنہی کے دامن میں سمٹ آتا ہے!‘‘

ہم نے آخری اعتراض کا کارڈ پھینکا کہ بلاول اب تک اسکرپٹیڈ تقریریں کر رہے ہیں۔ مرزا نے فیصلہ کن انداز سے جواب دیا۔ ’’ارے بھائی! تم کب سمجھوگے؟ تم جس عمل پر اعتراض کر رہے ہو وہی تو مستقبل کی اصل سیاسی تیاری ہے۔ ہمارے ہاں اب سبھی کچھ اسکرپٹیڈ ہوتا ہے۔ اور سیاست بھی اِس ٹرینڈ سے مستثنٰی نہیں۔ جب ہر طرف اسکرپٹ کی بات ہو رہی ہے تو بلاول کو اسکرپٹ کے مطابق لب کُشائی کی تربیت کیوں نہ دی جائے؟‘‘
ہم بلاول کے خیر خواہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ سیاست کے خار زار سے دُور ہی رہیں۔ مگر اﷲ کو یہی منظور اور اِس قوم کو یہی پسند ہے کہ بلاول کا لڑکپن سیاست کی نذر ہوکر بچپنے میں تبدیل ہو۔ ؂
یہ عجب انقلاب، کیا کہیے
بچپنے کا شباب، کیا کہیے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 481950 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More