کریماں کے جوان کنوارے بیٹے کے‘
وعدے پورے ہو گیے۔ ماں کا‘ چیخیں مار مار کر رونا‘ فطری سی بات تھی۔ الله
کسی دشمن کی ماں کو بھی‘ اس صدمے سے دوچار نہ کرئے۔ اولاد کو کچھ ہو جائے
تو ماؤں کو سچ میں‘ اس سے پہلے ہی دوگنا کچھ ہو جاتا ہے۔ یہ رشتہ ہی کچھ
ایسا ہوتا ہے۔ تب ہی تو اس رشتے کو ان مول اور مترادف سے معذور رشتھ‘ قرار
دیا جاتا ہے۔ اس رشتے کی اہمیت کا انداز اس قول سے لگائیں‘ کہ ماں کے پیروں
میں جوتا ہو نہ ہو‘ اولاد کی جنت ضرور ہوتی ہے۔
ماں کی محبت کی کچھ مثالیں میری آنکھوں دیکھی ہیں۔ مائی رمضانہ کا منجھلا
کوئی کام کاج تو کرتا نہیں تھا ہاں البتہ نشے پانی کا عادی تھا۔ پیسوں کے
لیے ہر وقت لڑتے رہنا اس کا مرغوب مشغلہ تھا۔ لڑائی میں‘ بدتمیزی کی حدیں
کراس کر جاتا تھا۔ لاڈوں پلا تھا۔ مرحومہ کسی کے منہ سے اپنے بیٹے کے خلاف
ایک جملہ تک نہ سن سکتی تھی۔ وہ اپنے علاقےکا مانا ہوا نشئی تھا لیکن مائی
رمضانہ کسی کے منہ سے بھی نہیں سن سکتی تھی کہ اس کا ییٹا نشئی ہے۔
گاماں کو الله نے چار بیٹیاں عطا کیں۔ بیٹے کی خواہش نے‘ اسے بڑا بےصبرا
بنا دیا تھا۔ دوا دارو کے ساتھ ساتھ‘ پیروں فقیروں کے پاس بھی گئی۔ ہر کام
اپنے وقت پر ہوتا ہے۔ الله نے سات سال بعد‘ اسے چاند سا بیٹا عطا فرمایا۔
تمام لاڈ لڈائے گیے۔ بڑا ہوا‘ تو اسے کسی مغربی ملک میں بھیج دیا گیا۔ پھر
وہ وہاں کا ہی ہو کر گیا۔ شروع شروع میں‘ خط وغیرہ لکھ دیا کرتا تھا‘ پھر
اس تکلف سے بھی گیا۔ گاماں‘ بیٹے کی جدائی کا صدمہ‘ برداشت نہ کر سکی۔
دماغی توازن کھو بیٹھی اور گلیوں کا روڑا ہوکر رہ گئی۔ جو کوئی دیکھتا
افسوس کرتا۔
ننھا لاکھوں میں ایک تھا۔ گاؤں کی لڑکیاں‘ اس پر مرتی تھیں۔ کوئی ایک ہوتی
تو وہ عشق جیسی بیماری میں مبتلا ہوتا۔ بس معمولی نوعیت کی‘ بھونڈی تک
محدود تھا۔ آخر کب تک‘ شازیہ نے‘ اسے اپنی گرفت میں لے ہی لیا۔ بات کب تک
پردہ میں رہتی ہے‘ لوگوں کی زبان پر آ گئی ۔ اس معاملے پر گھر پانی پت کا
میدان بن گیا۔ سب لوگ‘ ننھے کے پیچھے ہی پڑ گیے۔ ننھے کی ماں رانی‘ ہر وقت
پتر کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے میں رہتی۔ اس کا موقف یہ ہی رہتا‘ لوگ یوں ہی
بکواس کرتے ہیں‘ میرا بیٹا شریف ہے‘ وہ ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتا۔ شازیہ
شوہر اور تین بچوں کو چھوڑ کر‘ میکےآ گئی۔ یہ سوال غلط نہ تھا‘ کہ عشق ممتا
کی لاش سے بھی گزر جاتا ہے۔ ایسی مٹالیں ہزاروں میں‘ دو چار ہی ہوں گی۔
میں اپنی ماں سے‘ بےتحاشا محبت کرتا تھا۔ اس کی آغوش‘ میرے لیے بڑی معنویت
رکھتی تھی۔ آج جب‘ بوڑھا ہو گیا ہوں‘ بیمار پڑتا ہوں‘ تو نادانستہ طور پر‘
منہ سے ہائےامی ہی نکلتا ہے۔ خدمت کرنے والے کا چڑنا‘ لایعنی قرار نہیں دیا
جا سکتا‘ کہ بھئی خدمت میں کر رہا ہوں‘ پکارے اپنی امی کو جا رہا ہے‘ جو
برسوں پہلے انتقال کر گئی ہے۔ یہ عمل‘ کوئی غیرفطری نہیں‘ عین فطری ہے۔
کریماں کو ڈھارس بندھانے والے‘ کئی لوگ تھے۔ اسے قرار آ ہی نہیں رہا تھا۔
آتا بھی کیسے اور کس بوتے پر‘ جوان بیٹے کی لاش سامنے پڑی تھی۔ کبھی منہ کو
ہاتھ لگاتی‘ کبھی سر پر ہاتھ پھرتی۔ کبھی چارپائی کے بازو پر سر مارتی اور
کر بھی کیا سکتی تھی۔ آہ و بکا اور اس کے بین سنے نہیں جا رہے تھے۔ اس
دوران اس کے منہ سے نکلا : میرے بیٹے نے دنیا میں دیکھا ہی کیا تھا‘ کچھ
دیکھے بغیر چل بسا۔ فیجاں تیلن جو اس کے قریب بیٹھی تھی‘ نے اس کےکان میں
کہا: اس کی تم فکر نہ کرو‘ میں نے سب کچھ دکھا دیا تھا‘ گلو اسی کا تو ہے۔
کریماں پر‘ حیرت آلود سکتہ طاری ہو گیا‘ پھر تھوڑا سمبھلی۔ اس نے ڈیڑھ سالہ
گلو کو ایک نظر دیکھا۔ اسے گلو میں‘ اپنے بیٹے صادق کے بچپن کی پرچھائیں
نظر آئی۔ اس نے بےاختیار ہو کر‘ گلو کو سینے سے لگا لیا۔ یہ ایک ایسی پہیلی
تھی‘ جو کسی کی سمجھ میں نہ آ سکتی تھی۔ ہاں فیجاں تیلن کی لاٹری لگ چکی
تھی۔ یہ کیسا رشتہ تھا‘ جو گلو کو بھی تامرگ معلوم نہ ہو پانا تھا۔ سب کچھ
ہوتے‘ دنیا کے حساب سے‘ وہ اس کی کچھ بھی نہ تھی۔ کریماں اسے اپنے بیٹے
صادق کی نشانی سمجھتے ہوئے‘ اس پر محبتیں اور جیب قربان کرتی رہے گی‘ لیکن
اپنا رشتہ کسی پر کھول نہ سکے گی۔ باطور دادی‘ منہ سے کچھ کہہ کر‘ وہ گلو
پر ناجائز اولاد ہونے کا لیبل کس طرح چسپاں کر سکتی تھی۔ اس کےلیے بس اتنا
ہی کافی تھا کہ وہ صادق کی نشانی تھا۔ |