حضرت امام حسین نے کیوں قیام فرمایا؟

جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو انسانی ذہن سب سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟ اگر واقعہ کے اصل اسباب و عوامل معلوم ہوجائیں تو پھر وہ مطمئن ہوکر واقعہ کی اصلی تفصیلات معلوم کرنے کی فکر کرتا ہے اسی وجہ سے واقعہ کربلا کے اسباب و وجوہات کی بحث تمام دوسری بحثوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ حضرت حسین نے یزید کے مقابل کیوں قیام کیا؟ انہوں نے اپنا آرام و چین ختم کرکے، ظاہری اسباب کی طرف سے آنکھیں بند کرکےحکومت وقت کے خلاف مہم کا آغاز کیا؟اس تحریک کا اصل عامل و محرک کیا تھا؟

جس وقت حضرت حسین نے قیام کیا اس وقت مردان حق و کامل انسانوں کے نقطہ نظر سے اسلام اور مسلمانوں کے حالات سخت پریشان کن تھے۔ حکومت نے بدترین طرزعمل اختیار کررکھا تھا۔ ایک ایسا شخص خلیفہ بن بیٹھا تھا جو لوگوں میں سب سے زیادہ بدخو، قمارباز، باغی اور شرابی تھا۔ اسلامی اور اخلاقی پابندیوں سے آزاد، دنیا پرست، عیاش اور خلاف شریعت اعمال و افعال میں ملوث تھا۔ خود کو خلیفہ مسلمین کہتا تھا لیکن اسلام اور اسلامی تعالیم سے اس کادور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اسلام اور خلافت اسلامی کو ایک مادی حکومت اور دنیاوی سلطنت سمجھ کر امور مملکت انجام دے رہا تھا اور کھلم کھلا کہا کرتا تھا:
لعبت بنی ہاشم بالملک فلا
خبر جاء و وحی نزل
(بنی ہاشم نے نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ڈھونگ رچایا ہے ورنہ نہ کوئی فرشہ نازل ہوا ہے اور نہ ہی کوئی وحی اتری ہے)

ایک ایسا شخص اقتدار پر قابض ہوگیا تھا جو رسالت کا منکر تھا لیکن نیابت رسول کا دعویدار تھا۔ ایسی صورتحال میں انسانی زندگی پستی میں گررہی تھی، فکر و دانش کمزور ہوچکی تھی، افراد اپنی شخصیت اور استقلال سے محروم ہوچکے تھے۔ جو شخص جہاں بھی تھا سخت کچلا ہوا اور پسا ہوا تھایہاں تک کہ وہ اپنا سر ہلاتے ہوئے بھی گھبراتا تھا کہ کہیں حکمرانوں کی طبع نازک کے خلاف نہ ہو۔ہر طرف خوف و سراسیمگی اور دہشت و وحشت کا ماحول تھا۔ خطرناک اور دنیا پرست لوگ مرکزی حکومت کے ایماء پر تمام صوبوں اور شہروں میں مسلمانوں پر مسلط ہوگئے تھے۔ حکومت سے وابستہ افراد عام طور پر یزید کے سے اطوار رکھنے والے اس کے ہمفکر اور ہم مسلک تھے۔

کیا ان حالات میں حضرت حسین اور ان جیسے لوگ خاموش بیٹھے رہ سکتے تھے؟! کیا یہ ممکن تھا کہ وہ بیٹھے رہیں اور دیکھتے رہیں کہ اسلام جو اس قدر تکالیف و محنت اور لازوال قربانیوں کے ساتھ پھیلا اور نافذ ہوا تھا وہ اسلام کے اصولوں سے انحراف کرنے والے ایک شخص کے ہاتھوں زوال پذیر ہوجائے اور اس کی وجہ سے موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے انسان گمراہ ہوجائیں؟! اس عالم میں سکوت اختیار کرنا ناممکن تھا۔ حضرت حسین اور ان کی راہ پر چلنے والوں کے لیے ان حالات میں خاموشی ایک بڑا گناہ تھی؛
اگر دیدی کہ نابینا و چاہ است
اگر خاموش بنشینی گناہ است
(اگر تم دیکھو کہ کسی نابینا کی راہ میں کنواں ہے اور خاموش بیٹھے رہو یہ گناہ ہے۔)
عطا الرحمن
About the Author: عطا الرحمن Read More Articles by عطا الرحمن: 25 Articles with 18357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.