رسول اکرم کی نواسی حضرت زینب بنت علی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت زینب بنت علی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نواسی اور حضرت علی ؑاور حضرت فاطمہؑ زہرا کی بیٹی ہیں۔ حضرت زینب نے واقعہ کربلا میں قدم قدم پر امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دیا اور ان کے پیغام کو آنے والے نسلوں تک کے لیے محفوظ بنادیا۔ لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زینب بنت علی کی شخصیت کا اجمالی تعارف پیش کیا جائے:

حضرت زینب بنت علی ہجرت کے پانچویں سال پیدا ہوئیں اسی لیے انہی اہل بیت ہونے کے علاوہ صحابیہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ حضرت زینب بنت علی کی تربیت ایسے گھرانے میں ہوئی جس کے سرپرست رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مکین حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین کریمین جیسی ہستیاں تھی۔
حضرت زینب کی شادی خانہ آبادی حضرت جعفر طیار کے فرزند حضرت عبداللہ سے ہوئی۔ حضرت امام حسین جب مدینہ سے کربلا کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت عبداللہ اپنی بیماری کی وجہ سے شریک سفر نہ ہوسکے لیے انہوں نے حضرت زینب کو اپنے بھائی یعنی حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ جانےکی اجازت دی اور اپنی جگہ اپنے دو فرزند عون و محمد کو امام حسین کے ہمراہ روانہ کیا۔

حضرت زینب بنت علی جب حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے دوران کوفہ تشریف لائیں تو یہاں کی خواتین کو اسلام اور قرآن کی تعلم دی اور تفسیر قرآن سے روشناس کروایا۔ حضرت زینب کی عبادت کا یہ عالم تھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام جیسی شخصیت نے انہیں فرمایا تھا کہ اے بہن مجھے نماز تہجد کی دعا میں ہمیشہ یاد رکھنا۔ حضرت زینب بنت علی ہمیشہ اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کی ناصر و مددگار رہیں اور ان کے حوصلے کو بڑھاتی رہیں۔

دس محرم کے بعد یزیدی فوج نے خاندان رسالت کی تمام خواتین اور بچوں کو گرفتار کرلیا اور اپنی فتح کا جشن منانے کے لیے انہیں اپنے مفتوحہ اور زیر اثر علاقوں میں پھرایا گیا۔ اس دوران جب اسیروں کا قافلہ کوفہ میں پہنچا تو حضرت زینب سے اپنے بیان کے ذریعہ سوئی ہوئی ملت کو جگایا اور انہیں جھنجوڑا یہاں تک کہ کوفے کے حکمران ابن زیاد کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے ہوئے اس کی اسلام دشمنی کو عیاں فرمایا۔

خاندان اہل بیت کی خواتین کو کوفہ میں چند دن قیام کے بعد دمشق میں یزید کے سامنے پیش کیا گیا۔ حضرت زینب بنت علی نے یزید کے دربار میں ایک مفصل تقریر فرمائی اور یزید کے مکروہ عزائم کا پردہ چاک کردیا۔ حضرت زینب بنت علی نے یزید کو مخاطب کرکے کہا اے یزید! آج تو ہماری مظلومیت پر ِخوش ہورہا ہے اور اسے اپنے دل کی تشکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ قیامت کے دن جب اپنی بدکرداری کی سزا پائے گا تو اس کو برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہوگا۔ اے یزید! تو جتنا چاہے مکر و فریب اور بھرپور کوشش کرکے دیکھ لے لیکن تو نہ تو ہماری یاد کو لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی و نبوت کے پاکیزہ آثار کو محو کرسکتا ہے۔

حضرت زینب بنت علی نے درست کہا تھا آج چودہ سال گزرنے کو ہیں لیکن واقعہ کربلا کے شہیدوں کی یاد بھی زندہ ہے اور نبوت و پیغام الہیہ بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ باقی ہے۔
محمد اعظم
About the Author: محمد اعظم Read More Articles by محمد اعظم: 41 Articles with 68935 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.