گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں خطاب کے دوران پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ
کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے عالمی برادری کو کردار ادا کرنا ہوا گا۔اس
اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی موجود تھے ۔مودی نے اجلاس کے
بعد امریکی صدر اوباما سے ملاقات کی اور بھارت پہنچ کر اپنی فوج کوکنٹرول
لائن پر فائرنگ کھولنے کا حکم دے دیا کیونکہ مودی جنرل اسمبلی میں پاکستانی
وزیراعظم کی تقریر کا جواب نہیں دے سکا تھا ۔کنٹرول لائن پر فائرنگ کا
سلسلہ عید کے بعد سے تاحال جاری ہے ۔روزانہ بھارتی فوج کے اہلکار ورکنگ
باؤڈری،کنٹرول لائن پر جارحیت کرتے ہوئے پاکستانی حدود میں شدید فائرنگ
کرتے ہیں جن سے درجنوں پاکستانی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔پاکستان بھی بھر
پور جوابی کاروائی کرتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں عیدسے قبل سیلاب آیا جس سے
شدید تباہی ہوئی ۔بھارتی فوج نے اپنے فوجیوں کو تو ریسکیو کیا لیکن کشمیر ی
مسلمانوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا ۔اب بھارتی وزیراعظم نے دیوالی کے موقع
پر مقبوضہ کشمیر کے دورے کا اعلان کیا تو کشمیری حریت قائدین نے ہڑتال کی
کال دی ۔ مودی کی مقبوضہ کشمیر آمد پر جمعرات کو کڑے سیکورٹی بندوبست، فقید
المثال ہڑتال اور پائین شہر میں ناکہ بندی سے عام زندگی کا پہیہ مفلوج ہو
کر رہ گیاتھا، دکانیں، تجارتی مراکز، کاروباری ادارے سکول، دفاتر اور بنک
بند رہے جبکہ مسافر گاڑیوں کی آمد و رفت معطل ہو کر رہ گئی، بھارتی
وزیراعظم کی کشمیر آمد کے موقعہ پر امکانی احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر سید
علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک سمیت متعدد علیحدگی
پسندوں کو گھروں میں ہی نظربند رکھا گیا،ہڑتال کی کال کے باعث وادی میں
ہڑتال کی وجہ سے معمول کی زندگی درہم برہم ہو کررہ گئی تھی۔ اس دوران ممکنہ
حتجاجی مظاہروں اور امن و قانون کی صورتحال برقرار رکھنے کے پیش نظر پائین
شہر کے بیشتر علاقوں میں دوران شب ہی پولیس اور سیکورٹی فورسز کی بھاری
پیمانے پر تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی اور ممکنہ احتجاجی مظاہروں پر قدغن
لگانے لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی تھی۔ پائین شہر کے لوگ جب جمعرات کی
صبح نیند سے جاگے تو انہوں نے سڑکوں و شاہراہوں کے ساتھ ساتھ گلی کوچوں میں
بھی پولیس اور سی آر پی ایف اہلکاروں کی بڑی تعداد دیکھی جو کسی بھی شخص کو
سڑکوں کی طرف آنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ اس مقصد کیلئے خانیار،
رعناواری، نوہٹہ، گوجوارہ، راجوری کدل، نوا کدل، کاوڈارہ، صفاکدل، نالہ مار
روڑ، سکہ ڈافر اور دیگر ملحقہ علاقوں میں صرف فورسز کی بکتر بند گاڑیاں
موجود تھیں جس کے نتیجے میں ایک وسیع آبادی گھروں میں محصور ہوکر رہ گئی،
پولیس اور فورسز کے اضافی دستے ہر طرف نظر آرہے تھے اور مجموعی طور پر
پائین شہر کے لوگوں کو گھروں کے اندر محصور رکھا گیا، پائین شہر میں فورسز
کی بھاری تعیناتی عمل میں لانے کے ساتھ ساتھ سڑکوں، پلوں اور چوراہوں کو
سیل کیا گیا، لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنے کیلئے شہر میں سڑکوں، نکڑوں،
بازاروں اور گلی کوچوں میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس او رسی آر پی ایف
اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ اس دوران میرواعظ عمر فاروق، سید علی
گیلانی، محمد یاسین ملک شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان اور دیگر آزادی پسند
رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند رکھا گیا۔بھارتی وزیراعظم مودی اپنے چوتھے
دورے پرسرینگر پہنچے تو ان کا استقبال مقبوضہ کشمیر کے گورنر این این ووہرا
اور وزیر اعلیٰ عمر عبداﷲ اور وزیر مملکت جگندر سنگھ نے کیا۔بھارتی وزیر
اعظم نے راج بھون میں سیلاب زدگان کے کیمپ کا دورہ کیا جہاں متاثرین میں
تحائف تقسیم کئے گئے۔مودی کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی ہوا۔نریندر
مودی نے اس سے قبل سیاچن کا دورہ کیا اور علاقے کا فضائی جائزہ بھی لیااور
سیاچین گلیشیئر خطے میں واقع فارورڈ فوجی چوکیوں کا دورہ کیا اور سری نگر
کے دورہ پر روانگی سے قبل کچھ وقت فوجی جوانوں کے ساتھ قیام کرکے انہیں
مبارکباد دی۔مودی کی کشمیر آمد پرحریت کانفرنس (گ)، حریت کانفرنس(ع)، جے کے
ایل ایف ، فریڈم پارٹی اور دختران ملت کی اپیل پر بھارتی وزیر اعظم نریندر
مودی کی کشمیر آمد پر تاریخی ہڑتال کی گئی تاہم مودی کی طرف سے سیلاب
متاثرین کیساتھ دیوالی منانے کی باتیں محض اعلان ثابت ہوئیں وہ مقبوضہ
کشمیر پہنچتے ہی ہیلی کاپٹر کے ذریعہ سیاچن گلیشئر پر اپنے فوجیوں سے
ملاقات کیلئے روانہ ہوئے اور وہاں جاکر ان کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی۔بعد
ازاں وہ کچھ دیر کیلئے وہ گورنر ہاؤس پہنچے اور چند وفود سے ملاقاتیں کر کے
سیلاب زدگان سے اظہا ریکجہتی کا ڈرامہ رچانے کی کوشش کی گئی۔ مودی کے دورہ
پر بھارت میں جنتا دل سمیت مختلف جماعتوں نے تنقید کی اور کہا کہ انہیں
سیلاب متاثرین کے نام پر سیاست نہیں کرنی چاہیے بلکہ انکی مدد کرنی
چاہیے۔کشمیری قائدین سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، محمد یٰسین ملک،
شبیر احمد شاہ، محمد اشرف صحرائی، ظفر اکبر بٹ، نعیم احمد خاں و دیگر نے
کہاکہ مودی کا دورہ عالمی برادری کو بیوقوف بنانے کی کوشش ہے۔ مودی نے اپنا
پورا دن سیاچن میں فوجیوں اور فورسز کے ساتھ دیوالی مناکر اپنے آنے کی اصل
وجہ کو ثابت کردیا ۔کشمیری لوگوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ دوسرے
مذاہب کے شعار کی قدر کی ہے۔ہمارا وطیرہ رہا ہے کہ ہم نے کبھی بھی مذہبی
منافرت کو قبول نہیں کیا اور ایسا ہمیں ہمارے دین اور نبی مکرم ﷺ نے سکھایا
ہے۔ لیکن اس کے برعکس نریندر مودی جی نے ہندوؤں کے ایک مذہبی تہوار کی آڑ
میں کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے‘ سیلابی تباہ کاری کے بعد
ابھرنے والے انسانی المیے پر بدترین سیاست گری کی ہے اور ایسا کرکے مودی نے
اپنی کشمیر دشمنی کا برملا اعلان کیا ہے۔بھارتی وزیراعظم کو غالباً معلوم
ہوگا کہ کشمیر میں مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں اور انہوں نے ابھی چند روز
قبل ہی عیدالضحیٰ کا دن انتہائی غم و رنج کے ساتھ منایا۔ مسٹر مودی ،انکی
حکومت اور انکے کشمیری گماشتوں نے عید کے متبرک دن پر کشمیریوں کے ساتھ
ہمدردی کے بجائے لال چوک میں کرفیو نافذ کیا اور نماز عید پر پابندی عائد
کردی۔ حد یہ ہے کہ ان لوگوں نے متاثرہ کشمیریوں مسلمانوں کی دلجوئی کیلئے
چند الفاظ تک ادا نہیں کئے۔لیکن آج اپنے عوام کو بیوقوف بنانے اور عالمی
برادری اور رائے عامہ کو دھوکہ دینے کیلئے مودی نے کشمیری سیلاب زدگان کے
ساتھ دیوالی منانے کا اعلان کیا اور یہ اعلان بھی محض برائے اعلان ہی تھا
کیونکہ مسٹر مودی کا اصل مقصد اپنی آرمی اور فورسز کے ساتھ دیوالی مناناتھا۔
امیر جماعۃالدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ نریندر مودی
کا دیوالی منانے کشمیر جانا سیلاب متاثرہ کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے
مترادف ہے۔ بھارت سرکار نے سیلاب سے بدترین تباہی کے دوران اپنے فوجیوں کے
علاوہ عام کشمیریوں کی کوئی مدد نہیں کی۔لاکھوں کشمیریوں کوان کے حال پر
چھوڑ دیا گیا۔ اب دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے سیلاب زدگان سے اظہار یکجہتی کی
باتیں کی جارہی ہیں۔مودی کے دورہ پر کشمیریوں نے تاریخی ہڑتال سے ایک بار
پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ غاصب بھارت کا وجود کسی صورت برداشت کرنے کیلئے
تیار نہیں ہیں۔ سیلاب متاثرہ ہزاروں کشمیری اس وقت بھی کھلے آسمان تلے پڑے
امداد کے منتظر ہیں۔ ان کے معمولات زندگی بحال نہیں ہو سکے ہیں مگر مودی
حکومت کشمیریوں کی صحیح معنوں میں مدد کی بجائے لاشوں پر سیاست کر رہی
ہے۔بھارتی قیادت نہ خود کشمیریوں کی مدد کر رہی ہے اور نہ ہی عالمی اداروں
اور دنیا بھر میں موجود کشمیریوں کو بھی اپنے متاثر ہ بھائیوں کی مددکی
اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ بھارت سرکار کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قراردیتی ہے
مگر یہاں سیلاب متاثرین کے ساتھ جو انتقامی رویہ اختیار کیا گیا وہ اسے
بھولے نہیں ہیں۔ کشمیری اپنی جدوجہد آزادی بھرپور انداز میں جاری رکھیں گے۔
اتحادیوں کے خطہ سے نکلنے کے بعد بھارت بھی مقبوضہ کشمیر پر اپنا غاصبانہ
قبضہ کسی صورت برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ |