ما ہر سما جیات انسان کو ایک سو
شل جا نور قرار دیتے ہیں سماج سے کٹ کر رہنا اس کی فطرت میں شامل نہیں اس
کے لئے کسی سزا سے کم نہیں کہ اسے اپنوں سے اورمعا شرے سے الگ تھلگ کر رکے
رکھا جا ئے اسی کمزوری کا فا ئدہ اٹھا تے ہو ئے قا نون و حکمران سزاکا نفا
ذ قید تنہا ئی کی صورت میں مجرموں کی دیتے آئے ہیں ان قید یوں میں خطر ناک
مجرموں سے لے کر وہ سب شامل ہو تے ہیں جو حق کی آواز ا ٹھا نے کے جرم میں
جا بر حکمرانوں سے ٹکر لے بیٹھے ہیں ایسے با اصول انسا نوں کا جرم اپنی ذات
کو فا ئدہ پہنچا نے کے لئے نہیں بلکہ اپنی ملک و قوم کے لئے با آواز بلند
نعرہ حق بلند کرنا ہو تا ہے جیل کی چا ر دیوا ری میں محبوس یہ لوگ ا پنی
ذات کا مطا لعہ کر نے کے سا تھ سا تھی قیدیوں کا مشاہدہ بھی جا ری رکھتے
ہیں سوچ وفکر ان ادیبوں کا خا صا ہو تی ہے وہ پس زنداں بھی ا پنی تخلیقی
صلا حیتوں کو دوسروں تک پہنچا نے کے لئے قلم وقرطاس کا سہارا لیتے ہیں کیو
نکہ لفظو ں سے ان کا رشتہ سا نسوں کی ڈور تک قا ئم رہتا ہے یہی و جہ ہے کہ
پس زنداں میں رہنے والوں کی تخلیقات پوری آب وتاب کے ساتھ ادب کی دنیا میں
اپنا مقام بنا ئے ہوئے ہیں ۔
بر صغیر پر انگریزوں کے قبضے کے بعد مغل دور حکومت کا خا تمہ ہواآخری مغل
بادشا ہ بہادر شاہ طفر حوالہ زندان ہو ئے اپنی پچھلی زندگی کو یاد کرتے ہو
ئے وہ شاعری میں اپنے درد کو سموتے ہیں رنگون قید خا نے میں کی گئی شاعری
ان کے دیگر کلام سے یکسر مختلف نظر آتی ہے اسیر بادشاہ کو مرنے کے بعد دو
گز زمین کو ئے یا ر میں ملی نہ ملی مگر افسوس کہ معمولی کا غذاور قلم کی
سہولت بھی فر نگی میسر نہ کر سکے بعد از مرگ بادشاہ کے کلام کا کافی حصہ
زندان کی دیواروں پر کو ئلے سے لکھا ہوا پا یا گیا ۔اسی دور میں بڑے شاعر
جو نواب اور بڑے جاگیررادروں کے دست سا یہ رہ کر معا شی پریشا نیوں سے آزاد
تخلیقی کام کیا کرتے تھے ان پر کڑا وقت آن پڑا تھا جنھوں نے حکومت وقت سے
با آواز بلند احتجا ج کیا کالے پانی کی سزاوں سے لیکرقید و بند کی صعو بتیں
ان کا مقدر ٹہریں ۔ مولانا حسرت مو ہا نی کو دور فر نگی میں سب سے پہلے قید
خانے جا نے کا شرف حا صل ہوا یہ وہ دور تھا جب قید خا نے میں کسی قسم کی
اخلا قی و سیا سی در جہ بند یا ں نہ تھیں انھیں الہ آباد جیل میں قید کیا
گیا تو دوران اسیری روزانہ ایک من گندم پیسنے کی مشقت کر تے تھے ان کی
شاعری میں حکومت وقت کے مظالم کا شکوہ جا بجا ملتا ہے مو لانا کی کتاب
’’مشا ہدات زندان ‘:‘ جیل کی ڈا ئری سے کم نہیں جیل میں لکھے گئے ادب میں
اہم در جہ رکھتی ہے ۔ مو لونا محمد علی جو ہر نے بیجا پور جیل میں دو سال
اسیری کے گزارے انھوں نے ’’کلام جوہر ‘‘کا کافی حصہ اسی دوران لکھا اپنی
سوانح حیات لکھی ،بیٹی کی شادی پر غیر حا ضر باپ کے جذبات پر ایک پر سوز
نظم اردوشاعری میں اپنی مثال آپ ہے آپ کے بڑے بھا ئی مولانا ظفر علی خان نے
اپنے مجموعے کا بہت سارا کام اسیری کے دوران انجا م دیا منگمڑی کی قید تنہا
ئی میں مضامین بھی لکھتے رہے جو قلمی نام سے نقاش اور زمیندار میں شائع ہو
تے تھے۔ گا ندھی جی نے اپنی سوایح حیات ’’تلاش حق برودا جیل میں تحریر کی ،
پنڈت جواہر لا ل نہرو نے ’’میری کہا نی ‘‘ اور تلاش ہند ‘‘اسیری کی لمحات
میں لکھی ۔
جیل خا نے انسانوں کے لئے جا ئے عبرت ہیں ان اذیت نا ک لمحوں کو الفا ظ میں
بیان کرنا ممکن نہیں معروف ادیب مہر کا چیلوی عمر قید کی سزا پانے کے بعد
اپنی آب بیتی ’’داستان زندان ‘‘لکھتے ہیں جس کا انتساب بھی منفرد ہے کہتے
ہیں ’’یہ کتاب اس کے نام جس نے مجھے جیل کی اذیت ناک صعو بتیں جھیلنے پر
مجبور کر دیا ‘‘ یقینا ان قلم کاروں کے لئے تلخی زندان سے ذہنی فرار کا بہا
نہ یہ تحریرں بنتی ہیں جو آنے والی نسلوں کے لئے بھی سوچ کے نئے دروازے کھو
لتی ہے ان میں خواہ شورش کا شمیری کی قید خانے میں لکھی کتاب ’’پس دیوار
زنداں ‘‘ ہو، معروف سندھی شاعر شیخ ایاز کی ساہیوال جیل میں لکھی ڈا ئری ہو
یا پھر سید علی گیلا نی کی روداد اسیری کا حال سنا تی ان کی کتاب ’’روداد
قفس ‘‘ ہو ۔
قیام پا کستان کے بعد ملک میں زیادہ تر آمریت کا راج رہا جس نے اپنے سا منے
سر اٹھا نے والوں کو کچلنے کی بھر پور کو شش کی قلم سے جہاد کرنے والے جلا
وطن بھی ہو ئے محبوس بھی ہو ئے اس صدی کے بڑے شاعر فیض احمد فیض راولپینڈی
کا نسپریسی کیس میں افسروں کے ساتھ گر فتار کئے گئے ساڑھے تین سال قید و
بند کی صعوبتیں برداشت کی مصیبت کا یہ دور ختم ہوا بری ہوئے ان کے جیل جانے
کا فا ئدہ انھیں ہوا ہو یا نا ہوا ہو نا شر کو ضرور ہوا کہ ان کے منظومات
کے دو مجموعے ’’ زندان نامہ ‘‘اور ’’دست صبا ‘‘انھیں مل گئے ۔ معروف شاعر
حبیب جالب نے آمریت کے دستور کو ما ننے سے انکار کیا تو زنداں بھیج دیئے
گئے انھوں نے اسیری میں شاعری کا ساتھ نہ چھوڑا جالب کی جموریت ، فکر
مساوات سے بھر پور پر جوش نظمیں آج بھی نو جوانوں کے دلوں کو گر ما تی ہیں
دوران اسیری میں بیٹی کے لئے شفقت پدری کا اظہار خطوط میں پر اثر نظموں سے
کرتے رہے حبیب جالب کے ہمت واستقامت کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ اتنے
کڑے ما حول میں انھوں نے ایسی با غیا نہ شا عری ڈنکے کی چوٹ پر کی ۔’’ہاں
میں با غی ہوں ‘‘ جیل میں لکھی گئی اس آپ بیتی کا تذکرہ ہے جو مخدوم جا وید
ہا شمی ’’پس زنداں‘‘ کی صورت لکھتے رہے سیاسی منظر نا مے کے سا تھ ساتھ
اپنا حال دل اور شب وروزکی روداد اپنی صاحب زادی بشریٰ سے کہتے رہے اس طرح
انھوں ایک خوبصورت کتاب پڑھنے لا ئق ہے یوسف رضا گیلا نی بھی زندگی کے تلخ
تجر بوں کو جھیلتے قید کی تنہایوں میں ’’چاہ یوسف سے صدا ‘‘ قلم بند کی ۔
قید خانے میں مختلف زندگی سے واسطہ پڑتا ہے تمام قیدی بھی مختلف مزاج وکلچر
کے ملتے ہیں مختلف مزاجوں کے مشاہدات کے بعد را جہ انور نے جیل کی زندگی کے
تلخ حقا ئق پرکتاب تحریر کی ’’قبر کی آغوش ‘‘ نا می یہ کتا ب پل چر خی جیل
میں افغانستان پرسویت یو نین کے قبضے کے بعد اپنوں کی سازشوں کے تا نے بانے
سناتی ایک دستا ویز ہے جو ہمیں ایک الگ دنیا سے متعارف کر تی ہے۔ کا غذقلم
سے لگاؤ رکھنے وا لوں کے لئے جیل کی تنہائی اپنوں سے تو دور کر سکتی ہے
لیکن قلم سے رشتہ کسی طور نہیں ٹو ٹ سکتا یہ وہ لوگ ہیں جو سچائی سے کبھی
پیچھے نہ ہٹے جیل کی سخت زندگی میں بھی عوام کی ذہنی نشوونما کی آبیاری کا
کام انجام دیتے رہے ۔
جیل کی تنہائی انھیں اپنوں سے تو دور کر دیتی ہے |