جنگلات ہمارے لئے آکسیجن فراہم
کرتے ہیں ،اور یہ ایندھن کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔ یہ سیلاب اور
ماحولیاتی آلودگی روکنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ہماری زمین کا تقریباََ 32
فیصد حصہ جنگلات اور شجر کاری کے لئے وقف ہے اوریہ جنگلات دنیا کے مختلف
حصوں میں ـغیر مساوی طور پر پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اہمیت عالمی
سطح کی نسبت مقامی اور علاقائی سطح پر زیادہ ہے۔ جنگلات کسی بھی ملک میں
25% سے زائدحصہ پر ہونا ضروری ہے۔اور براعظم ایشیاء میں یہ صرف 19% رقبے پر
پائے جاتے ہیں جو کہ دنیا کے ساتوں براعظموں میں سب سے کم شرح ہے۔آئیے یہاں
ہم پاکستان کے جنگلات کا ذکر کرتے ہیں جہاں یہ جنگلات صرف 4% حصہ سے بھی کم
رقبہ پر ہے۔ اور پاکستان کا شمار دنیا کے دیگر 140 ممالک کے مقابلہ میں 113
ویں نمبر پر ہوتا ہے۔ ان کی کیا وجوہات ہیں ؟یہ آج ہم آپ کو بتاتے ہیں بد
قسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے آج تک ان کے بار ے میں سوچا تک نہیں ۔کسی بھی
جگہ نئی وائلڈڈویلپمنٹ نہیں کی بلکہ یہ تو پہلے سے لگے جنگلات کو ہی لوٹ کر
کھارہے ہیں۔ آج ہم نہر گوگیرہ برانچ کے جنگل جو ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل
گوجرہ کے علاقہ مونگی بنگلہ کے ساتھ واقع ہے کا ذکر کرتے ہیں۔ جی ہاں یہ
جنگل تقریباََ 75 ایکڑ سے زائد رقبہ پر واقع ہے جو کسی زمانے میں بہت وسیع
تھااور اس رقبے پر کروڑوں کی تعداد میں درخت تھے مگر آج کی صورتحال یہ ہے
کہ بدقسمتی سے یہاں پران جنگلات کے تحفظ کے لئے جو لوگ تعینات کیے گئے ہیں
ان کے پلڑے کرپشن سے بھرے ہوئے ہیں ان میں ایک چھوٹے سے بیلدار سے لے کر
اعلیٰ عہدے پر فائز سبھی آفیسران ملوث ہیں اور اپنا اپنا پیٹ بھرنے میں
مصروف ہیں یہاں پر ضیاء اور شکیل وغیرہ گا رڈ کی پوسٹ پر تعینات ہیں جو
عرصہ دراز سے اسی جنگل میں ڈیوٹی کر رہے ہیں اور یہی گارڈ دن رات علاقے کے
معتبر لوگوں کو جنگلات کٹوانے میں مصروف ہیں اور معاوضے کے طور پر ان سے
بھاری مقدار میں نذرانہ یا فرنیچروغیرہ لیتے رہتے ہیں۔ بعض دفعہ علاقے کے
معزز لوگوں نے ان کو محکمہ کے افسروں سمیت درخت کٹواتے رنگے ہاتھوں پکڑا
بھی مگر افسوس کہ یہ شریف لوگ ان کالی بھیڑوں کے گروہ کا کر بھی کیا سکتے
ہیں؟ جو سب کرپشن کرپشن اور بس کرپشن کر رہے ہیں۔یہ لوگ آپس میں مک مکا کر
کے معاملہ رفعہ دفعہ کروا لیتے ہیں۔ابھی تین دن پہلے جب ہم نے اس جنگل کا
سروے کیا تو یہ دیکھ کر ہمیں بہت تعجب ہوا کہ جہاں پر کروڑوں کی تعداد میں
درخت ہونے چاہئے تھے اب ان کی سینکڑوں میں بھی گنتی مشکل سے ہوگی۔چند ایک
درخت بچ گئے وہ بھی برائے نام، ان سب کا ذمہ دارکون؟ یہی محکمہ جنگلات کے
کرپشن سے بھرے دامن والے افسران ہی ہیں۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ کروڑوں کی
گنتی اب ایک،دو پر آ گئی ان سے کسی نے پوچھا تک نہیں؟پوچھا تو ہوگا بہت
ساری درخواستیں ہوئی ہونگی جو ردی کی ٹوکری کا مقدر بن گئی ہونگی۔ابھی
پچھلے دنوں اخبارات میں تھاکہ پولیس نے لاکھوں روپے مالیت کی چو ری کی لکڑی
سمیت دو افراد کو پکڑا جو کہ اسی جنگل سے کاٹی گئی تھی جسے بعد میں متعلقہ
گارڈ شکیل احمد نے معمولی چالان کر کے چھڑوا دیا۔کبھی محکہ جنگلات کے کسی
آفیسر کو توفیق مل جائے تو اس جنگل کا دورہ ضرور کرے یہاں آ کر اندازہ ہو
گاکہ محکمہ جنگلات کے ذمہ داران اور مقامی چوہدریوں نے کتنے کتنے لاکھوں
ڈالرز یہاں سے کمائے۔ مختصر یہ کہ محکمہ جنگلات کے’’ جنگل خوروں ــ‘‘ کے
لئے یہ جنگل الہ دین کا چراغ ثابت ہوا اور انہوں نے یہاں سے خوب جیبیں بھری
اور ان کی گھر وں میں بیٹھے ہی لاٹریاں نکل آئیں۔اور انہیں کسی بھی قسم کی
انکوائری کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔پاکستان بھر میں نہ جانے ایسے کتنے
جنگل ہونگے جو صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہونگے اور ان کے درخت محکمہ جنگلات کے
ایسے کرپٹ افسروں کے پیٹ میں ہضم ہو گئے ہونگے اور وہ کرپشن کرنے پر فخر
محسوس کرتے ہونگے ۔اگر ہم پوری ایمانداری سے ملک بھر کے جنگلات سے صرف خشک
درخت کٹوا کر نیلام کر دیں تو میرے خیال سے پاکستان کی معاشی حالت مستحکم
ہو جائے گی اگر ہم ان کو ایندھن کے طور پر استعمال کریں تو ہمیں گیس کی
لوڈشیڈنگ سے بھی نجات مل جائے گی مگر ایسا کرے گا کون؟آج تک اس بات پر کسی
نے سوچنا بھی گوارہ نہیں سمجھا ہو گا۔یہ سب کچھ دیکھ کر دل خون کے آنسو
روتا ہے اور سوچتا ہے کہ کاش ہم اپنے پیارے ملک کے لئے کچھ تو کر سکیں، کاش
کوئی تو ہو جو ہمارے بتانے پر ہی ان کالی بھیڑوں کی انکوائری کر سکے ۔کاش!۔ |