۴۰۰ سال قبل مسیح میں یونان کا
قصبہ سپارٹا آج بھی تاریخ میں انمٹ نقوش رکھتا ہے۔ آج بھی اس کی پہلی وجہ
شہرت اس کے مکینوں کی بے پناہ بہادری ہے جو تاریخ کا ایک شاندار حصہ ہے۔
سپارٹا کے لوگوں کی دلیری اور جرات کی بہت سی داستانیں تاریخ میں رقم ہیں۔
تاریخ میں بہت سی ایسی جنگوں کا حوالہ ملتا ہے کہ جس میں سپارٹا کے لوگوں
کی بہت معمولی سی تعداد دشمن کی کثیر تعداد سے ٹکرائی اور فتح اور شکست سے
بے نیاز ہو کر انتہائی بہادری سے لڑی اور کوئی ایک شخص بھی بچ کر واپس نہیں
آیا۔ سپارٹا کے لوگ جنگ میں پیٹھ دکھانا جانتے ہی نہیں تھے۔ دشمنوں کی
تعداد سے مرعوب ہوئے بغیر انہیں فقط اتنا پتہ ہوتا تھا کہ انہوں نے خم
ٹھونک کر لڑنا ہے تاکہ یا تو فتح حاصل کر لیں یا پھر مر جائیں۔ تیسرا کوئی
راستہ ان کے پاس نہیں ہوتا تھا۔
ایک جنگ میں سپارٹا کے تین سو مرد موجود تھے۔ میدان جنگ میں جنگ سے قبل دو
آدمیوں کو آنکھوں کی بیماری نے آ لیا او رانہیں دیکھنے میں مشکل پیش آنے
لگی۔ سالارِ جنگ نے انہیں پڑاؤ سے واپس جانے کا کہا۔ ان دونوں کے سامنے اس
وقت دو راستے تھے۔ یا تو اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں یا پھر کچھ انتظار
کر کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیں۔ دونوں کے سامنے دونوں راہیں
کھلی تھیں۔ اتفاق کی بات دونوں نے متضاد راہیں اپنا لیں۔ ایک کو جب پتہ چلا
کہ ان کے مخالف فارسی لوگ پہاڑ کا چکر کاٹ کر اس کے ساتھیوں سے مقابلہ کرنے
آ رہے ہیں تو اس نے فوراً اپنی زرہ منگوائی۔ غلام کو حکم دیا کہ وہ اس
میدانِ جنگ تک چھوڑ آئے جہاں اس کے ساتھی اور دوست لڑ رہے ہیں۔ غلام نے
ایسا ہی کیا اور اسے وہاں چھوڑ کر واپس بھاگ گیا۔ وہ شخص خراب آنکھوں کے
باوجود جنگ میں کودا۔ بہت بے جگری سے لڑا اور جان ہار گیا۔ دوسرا شخص کم
ہمت نکلا اور میدانِ جنگ کی بجائے گھر پہنچ گیا۔ اگر دونوں ایک ہی فیصلہ
کرتے تو شاید لوگوں پر اس فیصلے کا کوئی برا تاثر نہ ہوتا اور وہ مطمئن ہو
جاتے۔ لوگ ان کی مجبوری کو سمجھ لیتے لیکن ایک ہی وجہ سے ایک نے اسے بہانہ
بتا کر زندگی کو اپنایا مگر دوسرا زندگی ہار گیا۔ ایسی صورت میں شہر کے لوگ
زندہ رہنے والے شخص پر بہت برہم ہوئے۔ وہ جس طرف بھی جاتا لعنت ملامت اس کی
منتظر ہوتی۔ اسے اس قدر بے عزت کیا گیا کہ کوئی سپارٹائی اسے آگ روشن کرنے
کے لئے شعلہ دینے کو بھی تیار نہ ہوتا۔ لوگ اس سے بات کرنا یا اس کی بات
سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ سب اسے ڈرپوک کہتے۔ کئی سال بعد ایک اور جنگ
میں جان دے کر اس نے اپنی غلطی کا ازالہ کیا۔ تین سو آدمیوں والی جس جنگ
میں اس شخص نے شرکت نہیں کی تھی اور بھاگ آیا تھا اس جنگ میں سوائے ایک
آدمی کے باقی تمام کے تمام اپنی جان ہار گئے۔ صرف ایک شخص اس جنگ میں بچ کر
واپس آیا۔ لوگوں کو اس کا زندہ واپس آنا پسند نہیں آیا۔ سپارٹا والوں نے اس
کو اس قدر بے توقیر کیا کہ اس نے گلے میں پھندہ ڈال کر خودکشی کر لی۔ زندہ
باد اے اہل سپارٹا! پچیس سو سال گزرنے کے باوجودجب بھی کسی مقصد کی خاطر ڈٹ
جانے اور مٹ جانے کی بات ہوتی ہے لوگ آپ کے جذبوں اور کردار کو اپنے لئے
مشعل راہ پاتے ہیں۔
دلیروں اور جوانمردوں کا یہ شہر سپارٹا مجھے آج ایک دوسرے حوالے سے بھی یاد
آیا۔ ۴۰۰ قبل مسیح میں اپنے عروج کے دنوں میں ا س شہر کی آبادی پانچ لاکھ
پچیس ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ جن میں مردوں ، عورتوں اور بچوں کو ملا کر
کل پچیس ہزار شہری تھے جبکہ بقیہ پانچ لاکھ لوگ غلام تھے۔ جنہیں صرف اور
صرف مشقت کے لئے دوسرے علاقوں سے پکڑ کر لایا گیا تھا یا جنگوں میں قیدی
بنا کر لایا گیا تھا۔ یہ غلام سپارٹا کے رہائشی تو ضرور تھے مگر انہیں شہری
حقوق اور شہری سہولتیں میسر نہ تھیں۔ ان کا کام فقط خدمت تھا۔یہ لوگ غلام
تھے ، غلام ہی رہے اور غلام ہی مرے۔ تمام حقوق اور تمام مراعا ت صرف اور
صرف پچیس ہزار افراد کو حاصل تھیں۔غلام اپنے آقاؤں کے ہر طرح تابع رہتے اور
کچھ بھی سوچنے اور سمجھنے سے عاری ہوتے تھے۔
آج کے پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ افراد سے زیادہ پر مشتمل ہے۔ اس ملک
میں بھی بمشکل پانچ فیصد لوگ ایسے ہیں جنہیں اس ملک پر حکومت کرنے کا حق ہے
جنہیں اس ملک میں ہر طرح کی مراعات حاصل ہیں اور جو اپنے مکروہ رویوں سے
بقیہ پچانوے فیصد عام لوگوں کا پوری طرح استحصال کرتے ہیں۔ ان پانچ فیصد
لوگوں کو اپنے علاوہ کسی دوسرے کا احساس بھی نہیں۔ جس ملک کے گیارہ کروڑ
لوگ خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہوں وہاں پانچ فیصد لوگوں کو تمام
سہولتوں کا حاصل ہونا اور ملک کے وسائل کو بے دردی سے استعمال کرنے کا حق
صرف انہی کوہونا جہالت اور غلامی کے سوا کچھ نہیں۔ وہ پانچ فیصد لوگ خود کو
تو بہت کچھ سمجھتے ہیں مگر بقیہ ۹۵ فیصد سے زیادہ لوگوں کو فقط غلام ہی
جانتے ہیں جن کو ان کے اشاروں پر ناچنا ہے۔ ان کی خدمت کرنی ہے ۔ذلت سہنی
ہے اور غلامی سے سمجھوتہ کر کے زندگی گزارنی ہے-
ذہنی طور پر ہم آج بھی شاید ۴۰۰ قبل مسیح میں رہ رہے ہیں غلام ہیں اور سب
سے افسوسناک بات یہ ہے کہ غلاموں کو احساس بھی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک
ہو رہا ہے۔ ہمارا انداز وہی ہے جو کولہو کے بیل کا ہوتا ہے جس کی آنکھوں پر
پٹی بندھی ہوتی ہے اور وہ بغیرکچھ سوچے سمجھےٖ ایک چکر میں لگاتار گھومتا
رہتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو آج بلاول بھٹو اور حمزہ شہباز سیاسی وراثت کا
دعویٰ کرنے کی جرات نہ کر تے۔وراثتی سیاست پر فخر نہ کرتے۔ مریم نواز سیاست
کی ابجد سے ناواقف ہونے کے باوجود ٹویٹ پر الٹے سیدھے بیانات جاری نہ کرتیں
اورنہ ہی بغیر کسی استحقاق کے ایک اہم حکومتی ادارے کی سربراہ ہوتیں ۔مگر
کیا کریں غلام ایسی باتوں کے عادی ہوتے ہیں اور دیکھنے اور جاننے کے
باوجوداحتجاج کے حق سے محروم ہوتے ہیں ۔سوچتا ہوں اگر ہم غلام نہ ہوتے تو
علامہ طاہرالقادری ستر دن تک انتہائی نامساعد حالات میں ڈی چوک میں انقلاب
کی آس پر گھر بار چھوڑ کر بیٹھے لوگوں کے جذبوں کو لمحوں میں سولی چڑھا کر
اپنے نئے سفر کی ابتدا نہ کرتے ۔گو علامہ صاحب کے بقول فقط حکمت عملی تبدیل
ہوئی ہے مشن جاری و ساری ہے۔ یہ بھی ٹھیک کہ لوگوں میں شعور بھی آیا ہے۔دو
ماہ میں قادری صاحب عوام کو جو کچھ سکھا گئے ہیں پچھلے 67 سالوں میں اس کا
تصور بھی عوام کو نہیں تھا۔مگراتنا بڑا فیصلہ لیتے وقت اپنے ساتھیوں کو
اعتماد میں لے لیتے تو شاید بہت ساری تنقید سے بھی بچ جاتے اور کارکن بھی
مطمن ہو جاتے ۔ وہ عظیم کارکن جنہوں نے ان کے اشارے پر ریاستی دہشت گردی کا
مقابلہ چٹان کی صورت کیا ۔ مگر غلام تو غلام ہیں جن کے آقا کو ان کی آس
امید کو روند کر ہی بلندیوں پر محو پرواز ہونا ہو تا ہے۔ |