مدرس نے ایک دن بتایا مکہ مکرمہ کی زمین دنیا میں سب سے
مہنگی زمین ہے۔ مسجد کے باہر ایک بلڈنگ کے سامنے کچھ بینچ رکھے ہوئے ہیں ۔یہ
عربی تہذیب کا مہمان خانہ ہے مہمانوں کے لیے بلڈنگ کے اندر بھی صوفے رکھے
ہوئے ہیں۔ یہاں سے اس مسجد کے نمازی اورجوبھی گزرتا ہے اُس کو مفت
چائے،قہوہ اور کھجوریں پیش کی جاتی ہیں۔ایک دن اسی مسجد کے راستے میں ایک ۶
سال کا خوبصوررت عربی بچہ تھرماس میں سے قہوہ لوگوں کو پلا رہا تھا ہم نے
بھی چند گھونٹ قہوہ سے لطف اندوز ہوئے۔ یہ بچہ لوگوں کو کھجوریں بھی بانٹ
رہا تھا۔ ایک دن ایک عربی مسجد کے راستے میں کھڑا پانی پلا رہا تھا۔ایک دن
اسی مسجد کے راستے پر ایک بزرگ لوگوں کو کھجوریں بانٹ رہا تھاجس سے ہم نے
بھی پانچ کھجوروں کے دو پیکٹ لیے ۔ ایک دن ہماری رہائش گاہ کے سامنے ایک
شخص پانی کی بوتلوں کا پورا ٹرالر لایا اور عازمین حج میں کارٹنوں میں پیک
پانی کی بوتلیتں تقیم کیں۔ پھر ایک دن پوری بلڈنگ میں ۵۰۰ بندوں کو کوئی
گفٹ کی تھلیں بانٹ گیا جس میں خشک میوا جات جوس اور کولڈ ڈرنک شامل ہے یہ
گفٹ حجاج حضرات کومنیٰ میں کا م آیا کیونکہ وہاں کھانے لے لیے لائٹ آئٹم کی
ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح ایک دن ہم رہائش کے نیچے مین گیٹ کے سامنے فجر کی
نماز کے بعد کچھ عازمین حج کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک صاحب فجر کے بعد اپنی
جیپ میں ناشتے کے لیے رول لے آئے اور بانٹ گئے۔ ایسے رول اس نے دوسری رہائش
گاہوں میں بھی بانٹے۔ بیت اﷲ میں نماز جمعہ کے بعد کچھ حضرات نے بریانی کا
ایک پورا ٹرالر نمازیوں میں تقسیم کیا۔ پانی تومکہ مکرمہ میں جگہ جگہ عربی
حضرات حاجیوں کو پلاتے ہی رہتے ہیں۔ غرض اﷲ کے گھر میں رہنے والوں نے اﷲ کے
مہمانوں کی بہت پیار سے خدمت کی اور خوب کی۔ ہماری رہائش منطقہ عزیزہ شمالی
میں ہے اور شاہراہ عزیزیہ پر واقع ہے۔کراچی کے ڈیفنس جیسا علاقہ ہے۔ ہم نے
نماز جمعہ بیت اﷲ کے امام کی اقتدا میں پڑھی ۔ ہمارے لوگوں کو جو معلومات
ملیں اور جو انہوں نے ہمیں بتائیں ان کے مطابق بیت اﷲ میں ہر نماز کے لیے
مختلف امام ہیں۔ امام کعبہ شیخ عبدالرحٰمان السدیس ہے اور باقی اس کے نائب
امام ہیں۔ ان کا سلیکشن ٹیلنٹ کی بنیا دپر پوری اسلامی دنیا سے ہوتا ہے۔ جب
ہم مکہ مکرمہ میں مدینہ منورہ سے آتے ہوئے داخل ہو رہے تھے تو مکہ مکرمہ کے
پہاڑوں کا مشاہدہ کیا۔جگہ جگہ پہاڑ توڑ توڑ کر بلڈنگ بنائی گئیں ہیں اور یہ
سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہوئے ایک عجیب منظر
دیکھا،پہاڑوں پر نظر پڑی تو نوٹ کیا کہ شایدپہاڑ توڑ کر ان کی چوٹیوں پر
سڑک بنائی جا رہی ہے یا کچھ اور پلاننگ ہے۔یہ سلسلہ مکہ مکرمہ تک پھیلا ہوا
ہے جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔مکہ مکرمہ پہاڑوں کی وادیوں میں آباد ہے۔
پہاڑوں میں سرنگوں کے ذریعے دوسرے حصوں کو ملایا گیا ہے۔ ہر طرف سرنگیں ہی
سرنگیں ہیں۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور سے معلوم کیا جو ۱۳ سال سے مکہ میں ٹیکسی
چلا رہا اور پاکستان کے علاقے وزیرستان کا رہائشی ہے تو اس نے بتایا مکہ
میں ایسی ۵۴ سرنگیں ہیں۔بیت اﷲ کے راستے میں بھی پہاڑ توڑ کر کثیر منزلہ
بلڈنگیں بنائی جا رہی ہیں۔ ماشاء اﷲ مکہ مکرمہ میں بڑی بڑی شاہ راہیں ہیں ۔سارے
مکہ مکرمہ میں اور بالخصوص بیت اﷲ کے راستے میں بلندوبالا اور فلک بوس
عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور مزید زیر تعمیر ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے
رہائش گاہوں سے عازمین حج کو بسیں ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کی سرنگ سے گزار کر
پہاڑوں کے درمیان پارکنگ تک پہنچا کر اُتاردیتے ہیں پھر دوسری بس کی شٹل
سروس سے بیت اﷲ کے قریب پہنچایا جاتا ہے۔عازمین حج یہاں سے پیدل بیت اﷲ
شریف جاتے ہیں۔ پہاڑوں کے درمیان پارکنگ میدان کے سامنے ہی بسوں کو دوسری
تقریباًایک کلو میٹر سرنگ سے گزرنا ہوتا ہے اسی طرح واپسی پر بھی آنے والے
راستے ایک کلو میٹڑ سرنگ سے گزرناہوتا ہے۔ دونوں سرنگیں کشادہ ہیں ان میں
سے ایک میں دو رویا اور ایک میں تین رویاٹریفک گزرتی ہے۔ بیت اﷲ میں بیٹھے
ہم نے ایک دن ایک بات نوٹ کی کہ بیت اﷲ کے خلاف کو اوپر اُٹھا دیا گیا ہے
معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ کچھ لوگ غلاف کے ٹکڑے قینچی سے کاٹ کر تبرک کے
طور پر ساتھ لے جاتے ہیں اس لیے ایسا کیا گیا۔ بیت اﷲ میں ڈولپمنٹ کا کام
جاری ہے۔ بن لادن کمپنی کی بیسیوں کرینیں دن رات کام کر رہی ہیں نماز کے
اوقات میں کام روک دیا جاتا ہے۔ مطاف کی جگہ کے اوپر طواف کے لیے دو
گولایاں بنائی گئی ہیں۔بیت اﷲ کے ارد گرد مین بلڈنگ کی چھت کو وسعت دیکر
تیسری گولائی بنا دی گئی ہے جسے طواف کے لیے کھول دیا ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ
حج کے دنوں میں ویل چیئر پر طواف کرنے والوں کے لیے پہلی اور دوسری گولائی
مخصوص کی جائے گی ۔ہم نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی البم خریدیں۔مکہ
مکرمہ کی البم کے مطابق بیت اﷲ میں داخلے کے باب ملک عبدالعزیز سے لیکر با
ب ملک فہد تک چھوٹے بڑے۲۶ دروازے ہیں۔ اسی طرح مسجد نبوی میں داخلے کے لیے
۱۰ دروازے ہیں۔ بیت اﷲ کے ارد گرد بہت سی بلند بالا عمارتیں موجود ہیں اور
کئی عمارتیں زیر تعمیر بھی ہیں۔ ایک انڈیا کا باشندہ جو اب سعودی عرب میں
سول انجینئر ہے۔ ہمارے گروپ کے دوست کے ساتھ حرم کے باہر ملاقات کر رہا تھا
۔اس نے بتایا کہ بیت اﷲ کے ارد گر د عمارتیں توڑ کر اسے وسیع کیا جائے گا
مطاف کو عبدالعزیز گیٹ تک توسیع دی جائے گی ۔ یہ سعودی حکومت کا ۲۰ سالہ
پرانا منصوبہ ہے جس کے۵ سال گزر چکے ہیں۔بیت اﷲ کے راستے میں ایک جگہ کبوتر
چوک کے نام سے مشہور ہے یہاں کبوتروں کولوگ دانے ڈالتے ہیں۔ کبوتروں کے ڈار
کے ڈار یہاں اترتے اور کبھی اُڑ جاتے ہیں۔ یہاں دن میں ہر وقت لاتعداد
کبوتر دانے چگتے رہتے ہیں۔ بیت اﷲ میں ابابیل اور کبوتر اُڑتے دیکھے ہیں اس
کے علاوہ کوئی دوسرا پرندہ نظر نہیں آیا۔ بیت اﷲ کے قریب مکہ ٹاور کے
برابرمیں ایک کئی منزلہ بلڈنگ ہے اس کے گرونڈ فلور میں ایک بہت بڑی مارکیٹ
ہے جس میں ہر نوح کا سامان موجود ہے۔یہ بلڈنگ اتنی وسیع ہے کہ اس میں ۵۰ سے
زیادہ سے تو برقی لفٹیں لگی ہوئی ہیں۔ باب عبدالعزیز کے سامنے بہت ہی
اونیچا مکہ ٹاور ہے جس پر وقت دیکھنے کے لیے بڑا کلاک نصب ہے۔ ہمارے ایک
دوست جو مکہ مکرمہ کے رہاشی ہیں کے مطابق مکہ میں ریلوے اسٹیشن بھی بن
رہاہے اورجلد ہی ریلوے لین بچھا دی جائی گی یہ کا م ایک چینی کمپنی کر رہی
ہے۔ بیت اﷲ کی ایک سائڈ پر باب عبداﷲ بھی زیر تعمیر ہے۔ مکہ مکرمہ میں
سمندر کا پانی جدہ سے پائپوں کے ذریعے لیا جاتا ہے۔فلٹرپلانٹ میں صاف کرنے
کے بعد پینے کے لیے سپلائی کیا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں مکہ
میں پٹرول ارزاں ہے اور پانی مہنگا ہے۔ بیت اﷲ کے اندر باہر پولوں پرپانی
کی ٹھنڈی پھوار پھینکنے والے برقی پنکھے لگے ہوئے ہیں جو ہر وقت ٹھنڈی
پھوار پھینکتے رہتے ہیں۔اس سے گرمی کی شدت کو کنٹرول کیا جاتاہے۔بیت اﷲ میں
جگہ جگہ آب زم زم پانی کے کولر پڑے ہوئے ہیں جن میں عازمین حج کے لیے ۲۴
گھنٹے ٹھنڈا پانی موجود ہوتا ہے ۔ان کولروں سے عازمین حج آب زم زم بوتلوں
میں بھر کر اپنی اپنی رہائش گاہوں میں لے جاتے ہیں۔ حج کے دوران رش کی وجہ
سے لوگ باب عبدالعزیز کے باہر اور پیچھے روڈ پر بھی نماز ادا کر رہے ہیں۔
جمعہ کے روزماشاء اﷲ اتنے زیادہ نمازی تھے کہ سرنگ کے سرے سے لیکر باب
عبدالعزیز تک صفیں بنی ہوئیں تھیں۔ یہاں دھوپ بڑی تیز ہوتی ہے ۔مسجد نبوی
کے صحن کی طرح اگر باب عبدالعزیز کے سامنے خالی جگہ پر بھی سایے کے لیے
برقی چھتریاں لگا دیں جائیں تو نمازی سایے میں آسانی سے نماز ادا کریں۔بیت
اﷲ میں برقی سیڑیوں سے خواتین پہلے فلور پر نماز پڑھنے جاتیں ہیں۔ ہمارے
ایک روم میٹ جن کے ساتھ ان کی اہلیہ حج کے لیے آئی ہوئی ہے نے بتایا برقی
سیڑیاں چڑھ کر پہلے فلور پر خواتین کی نماز کے لیے بڑی کشادہ جگہ موجود ہے۔
ویسے نیچے بلڈنگ میں بھی نمازیوں کے پیچھے جیسے عورتوں کے لیے نماز کی جگہ
مختص کی گئی ہے ۔نماز شروع ہونے سے پہلے انتظامیہ کے کارندے عورتوں کو
پیچھے نماز پڑھنے کے لیے زور دیتے ہیں اور سب کو بار بار کہہ کے مجبور کر
دیتے ہیں کہ وہ مردوں کے پیچھے نماز ادا کرنے کے لیے چلی جائیں۔ جیسے جیسے
حج کے دن قریب آ رہے ہیں عازمین حج کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بہت
ہی پر رُونق ماحول ہے اور بنتا جارہا ہے۔دنیا کے کونوں کونوں سے فرزندان
توحید اﷲ کے گھر کی طرف دوڑے آ رہے ہیں۔ ماں باپ کے ساتھ کچھ بچے بھی حج لے
لیے آئے ہوئے ہیں۔ جب بھی بچے ہمارے سامنے سے گذرتے ہیں ہم ویل چیئر پر
بیٹھے اسے پیار سے چھوٹا حاجی کہہ کر پکارتے ہیں تو اکثر بچے مسکرا دیتے
ہیں ۔کچھ گود کے بچے بھی ماں باپ کے ساتھ نظر آئے۔
قارئین! فقیرانہ لباس زیب تین کیے، تلبیہ پڑتے، غول کے غول ،مختلف رنگوں وا
لے، مختلف زبانوں والے،مختلف لباس والے،مختلف تہذیبوں والے عازمین حج کو
دیکھ کر اسلام کی اخوت، عظمت اور طاقت کا مظہر نمایاں نظر آتا ہے۔ انسان کے
دل میں ایک دم جوش اُٹھتا ہے۔یہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔(باقی
آیندہ) |