نیا ایشیائی ترقیاتی بنک کیا پاکستان کے مسائل حل کر پائے گا

دنیا میں ایک دوسرے پر اقصادی بالا دستی کے لئے کوشش جارہی ہیں۔ چین نے گلوبل ویلیج کے تصور سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشی میدان میں جو ترقی کا نقشہ بنایا تھا۔ اب آہستہ آہستہ وہ رنگ و روپ اختیار کر رہا ہے۔ گذشتہ دنوں چین نے عالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئیایک اور کارروائی کی۔چینی دارالحکومت بیجنگ کے گریٹ ہال آف دا پیپل میں پچاس ارب ڈالرسے نیا ایشین بینک قائم کردیا۔ یوں تو اس بنک کا نام،، ایشین انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک،، (AIIB) ہوگا۔ لیکن اسے ایشیائی ترقیاتی بنک کے مماثل ہی قرار دیا جارہا ہے۔ اس بنک کیقیام کی مفاہمتی یاداشت پر ، پاکستان اور بھارت سمیت 21 ممالک نے دستخط کیئے ہیں۔ اس بینک میں سنگا پور جیسے ترقی یافتہ ملک سے لے کر بھارت اور چین جیسے مضبوط معاشی ممالک اور ویت نام، فلپائن، منگولیا، کمبوڈیا، عمان، ازبکستان، تھائی لینڈ، سری لنکا، قطر، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش، برونائی، قازقستان، کویت، ملائیشیا اور میانمار شامل ہیں تاہم جاپان ، جنوبی کوریا ، انڈونیشیا اور آسٹریلیا اس بینک کا حصہ نہیں۔حالانکہ چین ان ممالک کو بھی اس بینک کے قیام میں شریک کرنے کا خواہاں ہے۔چینی صدر شی جِن پِنگ کی طرف سے اس بینک کا خیال گزشتہ برس ایشیا پیسیفک کی اقوام کی ایک میٹنگ کے دوران پیش کیا گیا تھا۔ چین کی جانب سے پچاس ارب ڈالر کے علاوہ اے آئی آئی بی کیلئے 50 ارب ڈالر نجی کمپنیوں سے حاصل کئے جائیں گے ۔ یہ بینک ایشیا میں سڑکوں، ریلوے اور پاور پلانٹس، ٹیلی کیمونیکیشن جیسے منصوبوں کیلئے سرمایہ فراہم کرے گا۔عالمی مالیاتی ماہرین کے مطابق یہ چیز علاقے کی معیشتوں کے لیے ضروی ہے۔ بینک کے قیام سے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کو چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ اب ایشیائی بنک اور ورلڈ بنک کی اجارہ داری ختم ہوگئی ہے۔ ماضی میں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف یا عالمی مالیاتی فنڈ اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک جیسے اداروں پر امریکا، جاپان اور یورپی ممالک کی اجارہ داری رہی ہے۔ جو قرض حاصل کرنے والے ممالک کو من مانی شرائط پر قرض دیتے تھے۔ امریکا نے اس بنک کے قیام کی مخالفت کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ،، اس بینک کے قیام سے عالمی مالیاتی ادارے غیر مستحکم ہوں گے۔،،یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ نیا بینک چین کی علاقائی سطح پر سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی خواہش کے علاوہ امریکا کے ساتھ اس کے مسابقت پر مبنی تعلقات کا بھی عکاس ہے۔اس نئے بینک کے قیام کی یادداشت پر جن ملکوں کے نمائندوں نے چینی صدر شی لنگ کی سربراہی میں منعقدہ تقریب کے دوران دستخط کیے، ان میں آبادی کے لحاظ سے چھوٹے مگر مضبوط معیشتوں کے مالک ممالک مثلاً سنگاپور، ویت نام، فلپائن اور منگولیا وغیرہ شامل ہیں۔جن ملکوں نے اس مفاہمتی یادداشت پر دستخط نہیں کیے، ان میں امریکا کے اتحادی ملک جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ واضح رہے کہ چین ان ممالک کو بھی اس بینک کے قیام میں شرکت کی دعوت دی تھی۔پاکستان بھی چین کے ساتھ اس مفاہمتی یاداشت پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اس تقریب میں شریک تھے۔اور چینی صدر کی موجودگی میں انھوں نے ایشیائی بینک کے قیام کی یادداشت پر دستخط کیے۔ بینک پاکستان کے انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں پْرکشش شرائط پر فنڈز فراہم کرے گا۔بنک کے بورڈ میں ویٹو پاور کے لئے ایک ارب ڈالر جمع کرانے کی شرط تھی۔لیکن پاکستان یہ شرط پوری نہ کر سکا۔ پاکستان نے بینک کے ممبر کے لیئے کم سے کم معینہ رقم جو ایک ارب ڈالر سے بھی زیادہ تھی جمع نہیں کرائی تھی، اس لیے پاکستان کو بینک کے بورڈ کے اجلاس میں ویٹو پاور حاصل نہیں ہوگی، جبکہ ہندوستان نے ایک ارب ڈالر سے زیادہ فنڈز بینک کو فراہم کرکے ویٹو پاور حاصل کرلی ہے۔بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ، ایشیائی ملکوں نے مغرب کی معیشت کے خلاف چین کی قیادت میں ایک محاذ کھول دیا ہے۔ امریکا چین کے اس اقدام کو ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں کا غیر ضروری حریف تیار کرنے کی ایک کوشش قراردیتا ہے۔ بینک کے قیام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر شی لنگ نے کہا کہ بینک کے تمام طریقہ کار میں عالمی مالیاتی اصولوں کو مدّنظر رکھا جائے گا۔ اس سلسلے میں عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے تجربات سے بھی فائدہ اْٹھایا جائے گا۔ چینی وزیر مالیات لْو جیوائی نے مستقبل کے اس بینک کو ایک ایسا کثیر القومی مالیاتی ادارہ قرار دیا، جو منصفانہ بنیادوں پر سب کی مدد کے لیے دستیاب ہو گا اور جس کو چلانے کے لیے بہترین طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔ واشنگٹن چین کی بڑھتی ہوئی معاشی بالادستی سے کسی حد تک خوفزدہ ہے۔ اس لیئے اس کاکہنا ہے کہ اس نئے بینک کے قیام کے بعد مضبوط عالمی ادارے، ورلڈ بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ایشیئن ڈیولپمنٹ بینک متاثر ہوں گے۔ دنیا کی پہلی اور دوسری مضبوط معیشتیں امریکا اور چین، ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں، کچھ عرصے قبل ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان کی گزشتہ مالی سال میں اقتصادی ترقی کی شرح حیران کن طور پر بڑھ کر چار اعشاریہ ایک فیصد رہی ، موجودہ اور آئندہ سال مہنگائی کی شرح کم رہے گی۔پاکستان میں دو ہزار چودہ اور پندرہ کے دوران مہنگائی کی شرح کم رہے گی۔تاہم ملکی معشیت میں بہتری کے لیے ایشیائی بینک نے تجویز دی تھی کہ درآمدت اور ترقیاتی منصوبوں کے اخراجات میں کمی اور سبسڈیز پر غیر ترقیاتی اخراجات سے سرمایہ کاری میں واضح کمی کے خطرات نمایاں ہیں، اس بات پر بھی پاکستان کو ہمیشہ دباؤ کا سامنا رہا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے بجلی، گیس، اور دیگر یوٹیلیٹی کے ٹیرف میں اضافہ کیا جائے۔ شائد یہی وجوہات ہیں کہ پاکستان اب دیگر ذرائع کی جانب رجوع کر رہا ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بنک کا قیام: 1966 میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت اس کے ارکان کی تعداد: 47 تھی۔ اس بینک کا قیام اقوام متحدہ کے اقتصادی کمیشن برائے ایشیا اور بحرالکاہل کی سفارشات پر جاپان کے تعاون سے عمل میں آیا۔ اس بینک کے قیام کے دو مقاصد بتائے گئے تھے۔ جن میں ایشیائی اور بحرالکاہل کے علاقے کے ممالک کے مابین تعاون بڑھانا، اورعلاقے میں واقع ممالک کی اقتصادی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا۔ لیکن عملا ان مقاصد کی بجاآوری نہ ہوسکی۔ 1986 میں چین بھی ایشیائی ترقیاتی بنک کا رکن بنا تھا۔تاہم جب سے چین نے دنیا کی معیشت کو فتح کرنے سلسلہ شروع کیا ہے۔ امریکہ جیسے ممالک پریشان ہیں کہ وہ کس طرح چین کی بڑھتی ہوئی معیشت اور اقتصادی قوت کا مقابلہ کریں۔ چار سال قبل چین پرامریکہ سمیت کئی ممالک یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ اپنی کرنسی یو آن کے ایکسچینج ریٹس کم کر کے دوسرے ریاستوں کے تجارتی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔اس مسئلے پر امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی سرد جنگ بھی رہی۔ امریکی قانون سازوں نے ایک بل بھی متعاراف کرایا ہے جس کے مطابق اگر بیجنگ نے اپنی کرنسی کے ایکسچینج ریٹس نہ بڑھائے، تو اس کی مصنوعات پر ڈیوٹی لگائی جائے گی۔عالمی معاشی بحران کے پیشِ نظر چین نے اپنی کرنسی کے ایکسچینج ریٹس کو امریکی ڈالر سے منسلک کردیا تھا، جس سے لچکدار ایکسچینج ریٹس کے دور کا خاتمہ ہوا اور جب سے چینی کرنسی قدرے مستحکم ہے۔2005 سے 2008کے درمیان چینی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد بڑھی۔ اب چین کی معشیت تیزی سے ترقی کررہی ہے جب کہ امریکی معیشت میں تنزلی کے آثار نمایاں ہیں۔ چین امریکہ برآمدات کے لئے پہلے نمبر پر رہا۔ لہذا اگر امریکہ اور اس کی کمپنیاں برآمدات کے لئے کوئی مارکیٹ دیکھتی ہیں، تو یہ چینی مارکیٹ ہوتی ہے۔ کئی کمپنیوں کی مصنوعات اسمبل کرنے یا جوڑنے کا عمل چین میں ہوتا ہے، پھر یہ امریکہ درآمد کردی جاتی ہیں۔ چین سے اسی طرح مصنوعات برآمد ہوتی ہیں۔ لوگ چین کو دنیا کی ورک شاپ کہتے ہیں لیکن کئی اعتبارسے یہ مصنوعات کے پرزوں کا جوڑنے کا عالمی مرکز ہے۔"اس ساری بحث سے قطع نظر بیجنگ اور واشنگٹن کی معیشتوں کا ایک دوسرے پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ اور نئے ایشیائی ترقیاتی بنک کے قیام سے خطے میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
 

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419216 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More