واپڈا ! اجالے کا ڈاکو

انگریزوں کی ناجائز اولاد ،ظالم جاگیرداروں ، سود خور صنعتکاروں، منافع خور سرمایہ داروں ، عیاش و اوباش وڈیروں کی صورت میں خوش لباس لیموزینوں میں گھومتے ڈاکو تو ہیں ہی کہ مزدوروں ، کسانوں ، ہاریوں کے خون کے آخری قطرہ کو بھی شرابوں میں ملا کر پینے پر تلے ہوئے ہیں اور تما م اداروں بشمول حکومتوں پر قبضہ کررکھا ہے۔ مگر دن دیہاڑے واپڈائی ننگے ڈاکوؤں کی یہ انوکھی قسم ہے جو دن دیہاڑے لوٹ رہی ہے۔ ملک کے لاکھوں معذوروں، بوڑھوں، بیواؤں اور ہزاروں یتیموں کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھیننے پر تلے ہوئے ہیں۔2ماہ کے جعلی خود ساختہ بلوں کے ذریعے 32ارب روپے بڑی بڑی توندوں والے ایکس ای این، ایس ای صاحبان کی توندوں میں حصہ بقدر جثہ سنپولیوں کی طرح گھس گئے ہیں اور شریفوں کے کاروباروں کیلئے لندن ٹرانسفر ہوگئے ہیں۔اب کل ہی کی بات ہے بجلی تیس پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی ہے گو کہ وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ ایسا نہ ہوگا مگر چور چوری سے جائے گا ہیرا پھیری سے نہ جائے گا، کسی نہ کسی صورت واپڈائی جیب کترے بلوں میں مزید یونٹ جمع کرکے جو ٹارگٹ حکمرانوں نے دے رکھا ے اسے لازماً مکمل کریں گے اور واپڈا کی افسر شاہی اپنا حلوہ مانڈا بھی ہر صورت جاری رکھے گی۔یہ نیا ڈاکہ کھلے روشن دنوں میں ایکولائزیشن سرچارج کے نام سے ڈالا جارہا ہے۔ پہلے بھی ٹی وی فنڈز کے نام سے رقوم وصول کی جاتی ہیں حتیٰ کہ مساجد، امام بارگاہوں اور مدارس عربیہ جہاں پر ٹی وی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا وہاں سے بھی رقوم وصول کی جاتی ہیں اس طرح سے مزید 14ارب روپے وصول کرنے کا پروگرام بناہوا ہے ۔ ان ننگے ڈاکوؤں کے سرعام ظلم کی وجہ سے غریب عورتوں کی بلوں کو دیکھ کر خودکشیاں دیکھنے میں آرہی ہیں مگر واپڈاکے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ قتل کا اندراج آج تک نہیں کیا گیا نہ ہی کسی کو دار پر لٹکایا گیا۔اگر ایک بھی واقعہ کی ایف آئی آر کے ذریعے ایسا کرڈالا جاتا تو واپڈائی ڈاکوؤں کو سمجھ آجاتی اور وہ دن دیہاڑے ڈکیتیوں سے باز آجاتے ۔حکمران اگر واقعی کرپشن کے خاتمے کیلئے کوئی عمل کرنا چاہتے ہیں تو اپنا تمام بیرون ملک موجود سرمایہ یہاں لائیں اور پھر واپڈا کے اعلیٰ افسران کے اثاثے چیک کروائیں تو حیرت انگیز انکشافات ہونگے ۔بل زیادہ ڈال کر بل وصول کرنا تو جیسے افسران بالا کا حکم ہی ہے اور ہر مہینہ اس پر پورے خلوص سے میٹر ریڈر عمل کرتے ہیں، پھر غریب صارفین ایس ڈی او کے دفاتر کے چکر لگانا شروع کردیتے ہیں اور پورے دو دن کی بھاگ دوڑ سے اور کئی دفاتر ایکس ای این اور ریونیو وغیرہ کے پھیرے لگا کر بل درست ہوتا ہے ، اگلے ماہ پھر وہی گھن چکر شروع ہوجاتا ہے۔جاہل اور غریب افراد تو محکمہ کے دفاتر کے اندر جھانک کر بھی نہیں دیکھ سکتے اس لئے گھروں میں بیٹھے چیخ و پکار کرتے رہتے ہیں اور ہر حکمران کو صلواتیں سناتے رہتے ہیں لیکن وہ انکے کسی کام نہیں کہ اگر بل ادا نہ کیا جاسکا تو واپڈا ملازم آئندہ ہفتہ میٹر اتارنے پہنچ جاتے ہیں اور یہ سرکل یونہی گھومتا رہا ہے ۔ کیا وزیر اعظم ہاؤس اور صدارتی محل کا کروڑوں روپوں کا بل جمع ہوچکا ہے؟ وہاں سے میٹر کیوں نہیں اتارے جاتے کہ وہاں پر موجود’’ برف کی سلوں‘‘ پر بلیوں کے پیر جلتے ہیں۔واپڈا حکام نے اگر ہوش کے ناخن نہ لئے تو امید قوی ہے کہ آئندہ آنے والے حکمران اس سفید ہاتھی کو مکمل طور پر دفن کردیں گے ۔تما م افسرشاہی ملازمین فارغ ہوجائیں گے صرف میٹر ریڈر ، بجلی کی مرمت کرنے والے رہ جائیں گے کہ باقی سارا کام تو کمپیوٹر کرہی رہا ہے جس کیلئے ایک آدمی کافی ہے لیکن اس ساری دگرگوں صورتحال کے اصل ملزم تو موجودہ حکمران ہی ہیں کہ چور چوری کر ہی نہیں سکتا جب تک اس میں تھانیدار کا حصہ نہ ہو۔ چور اور کتی ملتے ہیں تو واردات ہوسکتی ہے ۔سست کاہل نکمے کرپٹ ایم این اے ، ایم پی اے ہوں اورحکمران انکے سرپرست تو پھر یہ ڈکیتیاں واپڈا ہی میں نہیں تمام محکموں میں جاری و ساری رہیں گی کہ اس کا علاج بُلٹ نہیں بیلٹ ہے کہ آئندہ انتخابات میں لوگ گھسے پٹے سیاستدانوں کو مسترد کرکے صرف اﷲ اکبر تحریک کے نعرے لگانے والے افراد ہی منتخب کریں گے تو ملک کی کایا پلٹ جائے گی اور ملک تین سال کے اندر مکمل اسلامی جمہوری فلاحی مملکت قائد اعظم کے خوابوں کے مطابق بن جائے گا کہ نیا یا انقلابی پاکستان ہمیں کسی صورت میں وارا نہیں کھاتا۔پاکستان بھر کے مزدوروں، ہاریوں، مزارعیں اور پسے ہوئے طبقات کے دیگر گروہوں کو ان کے نئے چمکیلے شکنجوں سے امپائر کی انگلی کے بغیر ہی سخت جدوجہد کرکے نجات حاصل کرنا ہوگی’’نیا جال لائے پرانے شکاری‘‘ جاگیرداری ، سرمایہ داری اور سامراجیوں کے تینوں گر آزمائے جاچکے ہیں تیر و تفنگ ، شیر ، بلا کی جگہ دودھ پینے اور گوشت مہیا کرنے والی ’’گائے‘‘ کے نشان پر ہی غریب عوام مہر لگائیں گے کہ یہ جدیدسامراج کے ایجنٹوں کی ہیراپھیریوں کے شاہکار ٹریلر ہیں جس کے ہم مزید متحمل نہیں ہوسکتے۔اﷲ اکبر تحریک کے اقتدار میں تمام محنت کش افراد کی تنخواہ ایک تولہ سونا کی قیمت سے کم نہ ہوگی ۔کارخانوں اور دیگر کاروباروں میں وہ دس فیصد منافع کے حصہ دار ہونگے ۔تمام ضروری اشیائے صرف بغیر منافع کے فراہم ہونگی ۔کھانے پینے کی تما م اشیاء، فروٹ، سبزی، گوشت ، آٹا ، چاول ، دالیں ، ادویات وغیرہ 1/5قیمت پر اور تیل ہر قسم کا اور ٹرانسپورٹ و باربرداری کی سہولتیں 1/3قیمت پر عوام کو دستیاب ہونگی اور مقتدر ہوتے ہی پہلے تحفہ کے طور پر پاکستانیوں کو بجلی ’’اﷲ اکبر بجلی گھر‘‘ کے ذریعے مفت مہیا ہوگی جس کیلئے ہر قومی اسمبلی کے حلقہ میں 2ارب روپے کا پلانٹ لگے گا نیز گیس ، صاف پانی، مظلوم کیلئے انصاف، ہمہ قسم تعلیم و علاج مفت مہیاہونگے اور غرباء کیلئے’’اﷲ اکبر ہوٹلوں‘‘ سے تین وقت کا کھانا اور چائے مفت ملے گی ۔عالم اسلام ساتھ مشترکہ فوج ، بینکنگ اور کرنسی کو رواج دیا جائے گا ، تما م قیمتی معدنیات ہنگامی طور پر ’’اﷲ اکبر ٹاسک فورس‘‘ کے ذریعے نکا ل کر بین الاقومی مارکیٹوں میں فروختی کے ذریعے سامراجی ممالک اور عالم اسلام کے تمام تر قرض حسنہ بھی واپس ہونگے اور ملک مکمل اسلامی فلاحی مملکت بن جائے گا۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے لوٹ مار کی انتہا کرڈالی ہے ڈسکوز نے ریونیو خسارہ پورا کرنے کیلئے نئے کمپیوٹرائزڈ میٹروں کی رفتار 35سے 40فیصد تک تیز کردی ہے صرف لیسکو نے اگست، ستمبر، اکتوبر تک میٹروں کی رفتا بڑھا کرصارفین سے بارہ ارب روپے اضافی وصول کئے ہیں اور ملک بھر سے پچھتر ارب روپوں کا دن دیہاڑے ڈاکہ ڈالا ہے بعینہٖ کہ’’شیطان ساری رات اندھیرے میں ننگا ناچتا ہے اور نظر بھی نہیں آتا‘‘۔ہمسایہ ممالک بنگلہ دیش میں چار روپے، بھارت میں ساڑھے چار روپے فی یونٹ جبکہ وہی بجلی ہمارے ہاں انیس روپے یونٹ ہے ستم یہ کہ ایک بلب اور ایک پنکھے والے گھر کو بھی 9/9ہزار روپے بل آیا ہے۔حکومت کے ان ہتھکنڈوں کے باعث عوام حکومت کے خاتمے کی دعائیں کررہے ہیں ۔ایسی صورت میں لوگ کسی نجات دہندہ کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ جو بھی ڈگڈگی بجاتا ہے اسی کے جلسوں میں لوگ رش کرڈالتے ہیں اور نئے یا انقلابی پاکستان بنانے کے دعوے دار اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ یہ ہمارے ووٹر ہونگے۔ واپڈائی چھاپہ مار ٹیموں اور ٹاسک فورس نے جو چھاپوں کا سلسلہ ایک سال قبل شروع کیا تھا تو ان کا کام تو بلیک میل کرکے پیسے کمانا، رقوم اینٹھنا اور باعزت و باوقار شہریوں کی عزت نفس مجروح کرنا تھا جس سے واپڈا کی بیوروکریسی نے لائن سپرنٹنڈنٹوں تک کروڑوں روپے کما کر اپنی تجوریاں بھر لیں حتیٰ کہ چکوک میں بوڑھے ضعیف افراد جنہوں نے اپنے کچے مکانوں کی بیٹھکوں میں ٹافیاں ، بسکٹ اس لئے رکھے تھے کہ وہ کہیں آجا تو نہیں سکتے وہاں گھر سے نکل کر بیٹھک میں بیٹھ کر حقہ پیتے رہیں گے اور شام تک بچوں کو معمولی چیزیں بیچ کر چالیس /پچاس روپے کما کر گھر کا خرچہ چلالیں گے انہیں بھی ’’کمرشل بجلی‘‘ کے استعمال کا ٹھپہ لگا دیا اور رشوتین وصول کیں اور جو نہیں مانا اسے ’’تُن پر باون‘‘ کر ڈالا اور گرفتاری ڈال کر چالیس پچاس ہزارروپے جرمانہ وصول کرکے ہی ضمانتیں کروانے کی اجازت دی ۔اگر یہ سلسلہ بافرض محال کئی سال سے موجود بھی تھا تو حرام خور ایس ای، ایکس ای این اور ایس ڈی او کیا صر ف مفت بجلی چلانے اور سرکاری خزانے سے بھاری تنخواہیں وصول کرنے کیلئے رکھے ہوئے ہیں ۔یہ بدمست پالتو سفید ہاتھی اور یہ بت کس باغ کی مولی ہیں کہ ہمارے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے سرکاری خزانہ سے رشوتوں کے علاوہ ایک بھی روپیہ وصول کرسکیں۔ واپڈا والوں کا بل وقت پر جمع کروا بھی دیا جائے تو وہ اپنے نظام سے رپورٹ بھی نکال کر نہیں دیکھ سکتے کہ بجلی کا بل جمع ہوگیا ہے یا نہیں؟ اگلے ماہ سے قبل بجلی کاٹنے پہنچ جاتے ہیں اگر اصل مالک گھر پر نہ ہو اور بل بھی مہیا نہ ہوسکے تو بجلی کاٹ کر چلے جاتے ہیں پھر دوبارہ رشوت دے کر بجلی لگوانا پڑتی ہے اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اندھیری راتوں کو مچھروں سے ساری رات جنگ ایک علیحدہ مصیبت ہے ۔اسی لئے ملیریا اور ڈینگی کی بہتا ت ہے اور لوگ جو اعلیٰ دوائیوں کا خرچہ نہ اٹھا سکیں وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
Dr Mian Ihsan Bari
About the Author: Dr Mian Ihsan Bari Read More Articles by Dr Mian Ihsan Bari: 11 Articles with 8486 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.