ضرورت
انسان ضروریات کا پتلا ہے۔ اُسے جسم اورر وح کا رشتہ قائم رکھنے ،آرام و
آسائش سے زندگی گزارنے ،جنسی تسکین حاصل کرنے اور نسل کی ا فزائش وغیرہ کے
لیے بہت سی چیزوں /اشیاء کی’’ ضرورت‘‘ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر انسان کو ہر
چھ سات گھنٹوں کے بعد خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔جسم کو ڈھاپنے، محفوظ رکھنے
اور خوب صورت نظر آنے کے لیے مناسب لباس کی ضرورت ہوتی ہے ۔سکون، آرام و
آسائش کے لیے جدید سہولتوں سے آراستہ گھر چاہئے ،کار چاہئے،
کمپیوٹرچاہئے،موبائل فون وغیرہ چاہئے۔ اسی طرح انسان کو جنسی تسکین کے لیے
بیوی یا خاوند چاہئے، افزائشِٖٖ نسل کے لیے بیٹا چاہئے بیٹی چاہئے ۔ یوں
انسان کو ہر پَل ہر لمحہ بیشمارچیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔
طلب
نظامِ فطرت ہے کہ جب جسم کو کسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے تو وُہ ایک مخصوص
پیغام دماغ کو بھیجتا ہے ۔دماغ اس پیغام کو سمجھتا ہے جس سے دماغ میں اُس
چیزکی ـ’’ طلب ‘‘ پیدا ہوجاتی ہے۔ اس حقیقت کی وضاحت کے لیے سب سے پہلے
خوراک کی طلب کی مثال پیش کرنا مناسب ہے ۔کیونکہ ترجیحات کے لحاظ سے خوراک
انسان کی اولین ضرورت ہے ۔ خوراک کی ضرورت انسان کو پیدائش کے عمل کے ساتھ
ہی شروع ہو جاتی ہے اور ایک بار پوری ہونے کے تقریباََ چھ گھنٹوں بعد دوبار
پیدا ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔
جب جسم کو اپنی طاقت اور نظامات کو برقرار رکھنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہے
تو جسم خوراک کی ضرورت کا پیغام دماغ کو بھیجتاہے ۔ پیغام کی آمد پر
دماغ(عقل) میں بھُوک کا احساس ہو جاتا ہے جس سے اُس میں خوراک کی ’’ طلب
‘‘پیدا ہو جاتی ہے۔دوسری مثال لباس کی طلب کی لے لیتے ہیں۔ جب جسم
سردی،گرمی یا عریانی سے محفوظ رہنے کے لیے لباس کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو
وُہ دماغ کی طرف ایک پیغام ارسال کرتا ہے ۔ پیغام پہنچنے پر دماغ میں لباس
کی طلب پیدا ہوجاتی ہے۔تیسری مثال یہ ہے جب جسم سکون، آرام ، آسائش وغیرہ
کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور دماغ کو پیغام بھیچ دیتا ہے جس کے ملنے پر دماغ
میں اُن چیزوں کی طلب پیدا ہوجاتی ہے جو سکون، آرام ،آسائش مہیا کرنے کے
قابل ہوتی ہیں۔اور آخری مثال جنسی ضرورت کی ہے ۔ انسانی جسم کی ساخت اور
کیمسٹری اس طرح کی ہے کہ جب خوراک،سامانِ سکون، آرام ،آسائش مہیا ہو جائے
تواُس میں جنسی ضرورت پیدا ہوجاتی ہے اور پھر دماغ میں مخالف جنس کی طلب
موجزن ہوجاتی ہے۔
چاہت
جب دماغ (عقل) میں کسی چیز کی طلب پیدا ہوتی ہے تو وُہ اُس چیز کو حاصل
کرنے کی خواہش کرتا ہے اس خواہش کو ’ ’چاہت ‘‘کہتے ہیں۔ مثلاََ جسم نے
خوراک کی ضرورت کا پیغام بھیجا ہے جس سے دماغ میں خوراک کی طلب پیدا ہوئی
ہے تو دماغ میں خوراک کو حاصل کرنے کی چاہت پیدا ہوجائے گی ۔ اور اُس کے
حصول کے لیے کوشش کرے گا۔اسی طرح جب مخالف جنس کی طلب موجزن ہوجاتی ہے
تودماغ اُس کو حاصل کرنا چاہتا ہے جس کو مصنّف چاہت سمجھتا ہے۔ یہاں قابلِ
ذکر بات ہے ہر روز انسان کو بیسیوں چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے اور دماغ میں
اُن کی چاہت جنم لیتی ہے ۔
محبت
ــــ ’’محبت ‘‘ایک ایسی اصطلاح جو بہت مشہور ہے اور استعمال بھی بہت زیادہ
ہوتی ہے۔ مثلاََ محبت ہر کہانی، افسانے، ناول اور ڈرامے کا جزولاینفک ہے ؛
شاعری کا مرکزی خیال ہے؛ فلسفیوں،عالموں، ادیبوں، شاعروں او ررائیٹروں کا
پسندیدہ موضوع ہے؛ عوام کی روزمرہ کی کہانی ہے۔مگر حیرت کی بات ہے جب یہ
پوچھا جائے کہ محبت کے چشمے کہاں سے پھوٹتے ہیں ، محبت کی تعریف کیا ہے ،محبت
کے لوازمات کیا ہیں تو صحیح، جامع اور سائینٹیفک جواب نہیں ملتا ۔ میں نے
خودبھی محبت کو سمجھنے اور اُس کے بارے میں مذکورہ بالا سوالات کے جوابات
ڈھونڈنے کی حتیٰ المقدور کوشش کی ہے ۔ کچھ با تیں میری سمجھ میں آئیں ہیں
اور بہت سی سمجھنی باقی ہیں۔میں مناسب سمجھتا ہوں کہ جو باتیں میر ی سمجھ
میں آئی ہیں وُہ آپ کے حضور پیش کروں اور ساتھ درخواست کروں کہ آپ اُن کو
بہتر کرنے کے لیے میری رہنمائی کریں۔
محبت کے چشمے
محبت کے چشمے انسانی جسم کی ضروریا ت سے پھوٹتے ہیں۔ ضروریات انسان کے ذہن
میں ایسی چیزوں کی طلب اور چاہت پیدا کرتی ہیں جو جسمانی، جنسی یا روحانی
ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتیں ہیں اور جب چاہت میں اضافہ ہو تا تو
وُہ محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔چنانچہ محبت کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے:
محبت کی تعریف
جب چاہت پوری کرنے کے لیے مختلف چیزیں سامنے ہو ں اورانسان ایک خاص چیز کو
زیادہ ترجیح دے تو جس چیز کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے اس کے لیے انسان کی
چاہت زیادہ ہے۔ اس زیادہ چاہت کو ’’ محبت‘ ‘کہتے ہیں۔
اس کی پہلی مثال یہ ہے کہ فرض کریں ایک شخص کے سامنے دسترخوان پر ایک پلیٹ
میں دال ماش ، دوسری میں سبزی،تیسری میں مرغی کا قورمہ اور چوتھی میں بکری
کا بھونا ہوا گوشت موجود ہیں۔وُہ شخص چار پلیٹوں کو دیکھ کر بھونے ہوئے
بکری کے گوشت کی پلیٹ کو ترجیح دیتا اور کھانا شروع کردیتا ہے ۔ اب سمجھا
یہ جائے گا کہ اُس شخص کی چاہت بکری کے گوشت کے لیے زیادہ ہے اور اُسے بکری
کے گوشت سے محبت ہے۔دوسری مثال یہ ہے کہ فرض کریں کہ ایک خاتون کے سامنے چھ
کپڑوں کے سوٹ رکھے جاتے اور کہا جاتا ہے کہ وُہ اُن میں سے ایک سوٹ پسند کر
لے ۔ وُہ خاتوں سب کا مشاہدہ کرتی ہے اور ایک سوٹ کوزیادہ اچھا سمجھ کر
ترجیح دیتی ہے۔ یہ زیادہ اچھا سمجھنا اور ترجیح دینا، خاتون کی اُس سوٹ سے
محبت کی نشاندہی کرتے ہیں۔اب تیسری مثال پیش ہے۔ فرض کریں ایک نوجوان کو
شادی کے لیے لڑکی چاہئے ۔ اُس کا تعارف کئی لڑکیوں سے کروایا جاتا ہے اور
آخرکار ایک لڑکی اُس کو بہت اچھی لگتی ہے اور وُہ اُسے منتخب کرلیتاہے۔ بہت
اچھی لگنا اور منتخب کرنانوجوان کی منتخب لڑکی سے محبت کی دلیل ہے۔
محبت کے لوازمات
محبت کا پہلا لازم یہ ہے کہ چاہت پوری کرنے کے لیے چیزیں دو یا دو سے زیادہ
ہوں۔ مذکورہ بالا تینوں مثالوں میں چاہت پوری کرنے کے لیے ایک سے زیادہ
چیزیں اورلڑکیاں موجود ہیں اورانسان کے پاس اُن میں سے کسی ایک کو زیادہ
ترجیح دے کر یا زیادہ پسند کر کے محبت کے اظہار کا موقع موجود ہے۔لیکن اگر
ایک ہی چیز ہے تو انسان اپنی چاہت پوری کرنے کے لیے دوسری طرف نہیں دیکھے
گا اور اپنی ضرورت اور چاہت پوری کر لے گا ۔ اس صورت میں چاہت موجود ہوتی
ہے مگر محبت کا تصور نہیں ہوتا۔مثال کے طور پر اگر سالن کی ایک ہی پلیٹ ہے
تو اسی سے ضرورت پوری کرنی ہو گی؛ اگرایک ہی کپڑے کا سوٹ ہے تو اُس سے پسند
کرنا ہو گا اور اگر ایک ہی لڑکی ہے تو اُسی سے شادی کرنی پڑے گی۔
محبت کا دوسرا لازم یہ ہے کہ جب چاہت پوری کرنے کے لیے بہت سے موجود چیزوں
میں سے ایک کو منتخب یا پسند کیا جاتا ہے اور اُس سے محبت کا اظہار کیا
جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر منتخب چیزوں سے نفرت ہو جاتی ہے۔بلکہ
ہوتا یہ ہے کہ غیر منتخب چیزیں چاہت کے مقام پر موجود رہتی ہیں اور اگر
محبت ناکام ہو جائے تو پھر اُن میں سے کسی کو منتخب کیا جاسکتا ہے۔مثلاََ
پہلی مثال میں چاہت بکری کے گوشت کو منتخب کرکے اُس سے محبت کااظہار کیا
جارہا ہے۔لیکن اگر ہاتھ سے پلیٹ گر جائے اور گوشت ضائع ہو جائے تو کھانے
والا دوسری پلیٹ کو ترجیح دے کر اپنی ضرورت اور چاہت کو پوری کرلے گا اور
محبت کا محور تبدیل ہو جائے گا۔اسی طرح تیسری مثال میں اگر محبوبہ (شادی کے
لیے منتخب لڑکی) اگر معاشرے کی مخالف، موت،بے وفائی یا کسی دوسری وجہ سے
نوجوان کے ہاتھ سے نکل جائے تو نوجوان شادی کے لیے دوسری لڑکی کو پسند کرلے
گا ۔
عشق
محبت کی طرح ’’عشق ‘‘بھی بہت مشہور اصطلاح ہے ۔ اس اصطلاح کا استعمال روز
مرہ کی گفتگومیں بھی عام ہے۔ اُردو، پنجابی، سندھی، پشتو ، بلوچی اور دوسری
زبانوں کے ادب کی صنفات( کہانی ، افسانہ، ناول، ڈرامہ وغیرہ اور شاعری) عشق
کے ذکر سے مزین ہیں۔ علاوہ ازیں فلسفیانہ اور صوفیانہ کلام میں بھی حقیقی
اور روحانی عشق کی کرامات اور واقعات سے آراستہ ہے۔ عشق کو یہ مقام اس لیے
حاصل ہے کہ یہ ایک بہت وسیع، پیچیدہ اور کثیر الجہتی موضوع ہے جس کا احاطہ
کرنے کے لیے ایک ضخیم کتاب درکار ہے ۔لیکن اگر ایک ضخیم کتاب پڑھنے پر لوگ
آمادہ نہیں ہوں گے ۔ بہرحال مصنّف نے عشق کو سمجھنے ،بیان اور قلم بندکرنے
کے لیے ادب ، فلسفیانہ اور صوفیانہ کلام کا حتیٰ المقدور اور مطا لعہ کیا
ہے اور جو کچھ اُس کی سمجھ میں آیا وُہ اس طرح ہے کہ
عشق کی تعریف
’’ عشق‘‘ چاہت کی انتہا کا نام ہے۔
عشق کی خصوصیات
٭ عشق میں انسان کی چاہت کا مرکز ایک کام ،فن،نصب العین، چیز ، ہستی یا قوت
وغیرہ بن جاتا ہے اور انسان ’’ عاشق‘‘ کہلاتا ہے اور چاہت کے مرکز کو ’’معشوق‘‘
کا مقام مل جاتا ہے ۔
٭ عاشق چاہت پوری کرنے والے دوسرے ممکنہ وسائل اور ذرائع (چیزوں ، ہستیوں
اور قوتوں) کو مسترد کردیتا ہے؛
٭ عشق میں معشوق تبدیل نہیں ہوتا؛
٭ عاشق کو یقینِ کامل ہو جاتا ہے کہ صرف معشوق ہی اُس کی ضرورت پوری کرسکتا
ہے اور منزل مقصود تک پہنچاسکتا ہے؛
٭ عاشق اپنے معشوق تک پہنچنے اور پانے کے جنوں میں مبتلا ہو جاتا ہے؛ اُس
کے دماغ پر معشو ق کا خیال اور تصورقبضہ کر لیتا ہے ۔وُہ ہر وقت معشوق کے
بارے میں سوچتارہتا ہے ، باتیں کرتا رہتا ہے۔
٭ عاشق معشوق کو راضی اور خوش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتاہے۔اپنی جان
قربان کرسکتا ہے، اپنی ذات کھو سکتا ہے؛
عشق کی افادیت
مادے، فن، علم، ادب ، انسانیت اور روحانیت وغیرہ کی دنیا میں کامیابی حاصل
کرنے اور مقام عروج پانے میں عشق کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔مثلاََ
٭ مادے سے عشق کی بدولت انسان نے زمین پر ایک نئی دنیا تخلیق کر لی ہے جس
میں ایسے ایسے عجوبے اور چیزیں ایجاد کی ہیں جن کو دیکھ کر فرشتے بھی انگشت
بدنداں ہیں۔ مثال کے طور پر پانی ، ہوا، لہروں اور خلاء کو مسخر کرنے لیے
انسان نے بحری جہاز، ہوائی جہاز ، خلائی راکٹ،کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون
جیسی حیرت انگیز چیزیں بنالی ہیں۔
٭ فن کا عشق انسان کو ایک اعلیٰ انجینئر، اداکار، گلو کار ، مقرر، وغیرہ
بنا دیتا ہے۔
٭ علم کا عشق انسان کو ایک شہرہ آفاق فلسفی ، مفکر، پروفیسر دانشور، ڈاکٹر،
وکیل وغیرہ بنا دیتا ہے۔
٭ ادب کا عشق انسان کو ایک اعلیٰ درجے کا شاعر، مصنّف، ادیب، صحافی، کالم
نگاروغیرہ بنا دیتا ہے۔
٭ انسانیت سے عشق انسان کو اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کردیتا ہے اور
انسان اپنی جسمانی قوتیں، عقلی صلاحیتیں اور مالی وسائل بنی نوع انسان کی
فلاح و بہبود اور عقل وشعور کی اصلاح کے لیے استعمال کرنے میں خوشی محسوس
کرتا ہے۔
٭روحانیت کا عشق انسان کواپنے خالقِ حقیقی سے ملوا نے میں مدد گار ثابت
ہوتا ہے۔
عشق کے نقصانات
عشق کو ایک مرض بیان کیا جاتا ہے جس میں مبتلا ہو کر عاشق ذلیل و خوار ہوتا
ہے۔
عشق کو ’’جنون ‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے جس میں مبتلا ہو کرانسان اپنے ہوش
و حواس کھو دیتا ہے کہ پاگل کہلاتا ہے۔ لوگ اُس کا مذاق اڑاتے اور پتھر
مارتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ عشق کی راہیں بہت کٹھن اور مشکل ہیں جن پر چل کر عاشق مصائب
کی دلدل میں گرجاتا ہے اور بہت ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ |