میڈیا کو اپنی حیثیت منوانے کے
چنداں ضرورت نہیں.اس کی قوت تسلیم کی جاچکی ہے.انسانی زندگی کا کوئی ایسا
شعبہ نہیں جو ذرائع ابلاغ کے کردار سے خالی ہو.شاید میڈیا کے اسی وسیع
وعریض دائرہ عمل نے اسے بہت ساری فروعی تقسیمات میں بانٹ دیا ہے.اور اس طرح
اس نے ہر میدان میں اپنی عملی حصہ داری درج کر سماج کی بہبود کے لئے اپنی
ضرورت کو یقینی بنایا ہے.
گرچہ میڈیا کی موجودہ صورت حال مخدوش ہے.یہ اپنی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی
انجام دینے میں کوتاہ نظرآتے ہیں.سیم و زر اور شہرت کی ہوس ان کے دامن گیر
ہے.چناں چہ قلم کو لکھنا کچھ ہوتا ہے اور وہ رقم کچھ اور کرجاتاہے. اور یہ
صحافیانہ پیشہ کے شایان شان نہیں.
ان کوتاہیوں کے باوجود معاشرے کے لئے ان کی دی جانے والی قربانیوں کو نظر
انداز نہیں کیا جاسکتا.آئے دن خبروں میں ان کے اموات کی سرخیاں پڑھنے کو
ملتی ہیں.اور یہ شرح اموات پاکستان میں دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے.جو
انہیں ان کی ایمانداری اور بے باک قلمی کے عوض ہدیۃ دی جاتی ہے.پھر بھی ایک
ایماندار صحافی حق گوئی سے باز نہیں آتا.اور ان کے اسی کردار کا پرتو ہے کہ
دنیا انہیں بطور "چوتھی قوت"کے قبول کرنے پر مجبور ہے.
میڈیا کی اس حد تک اثر انگیزی کے بعد بھی مدارس اور طلبہ کا اس میدان کو
غیر اہم قرار دینا سمجھ سے بالا ہے.
مجھے اس فکر کا نمائندہ نہ مان لیا جائے بلکہ اس پر اب تک بےشمار مضامین
کھٹے-میٹھے داد وصول کرچکے ہوں گے اور بہتوں نے اس کو اپنی ڈبیٹ کا بھی
موضوع بنایا ہوگا.
طلبہ مدارس کی اس میدان میں مفقود دلچسپی کے اسباب کیا ہوسکتے ہیں؟اس سوال
کابہت حد تک مثبت جواب دیتے ہوئے شعبہ صحافت کا ایک طالب بیان کرتاہے:"
میڈیا کی روایتی پریکٹس اور تفریحی مواد کی زیادتی کے باعث اسے اسلام اور
سماج مخالف سمجھ لیا گیا ہے. شاید دینی حلقوں میں یہ بات تسلیم کی جاچکی ہے
کہ میڈیا ہمارے معاشرے میں الحاد، فحاشی، غیر اسلامی روایات اور ایسی ہی
دیگر منفی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے تیار کردہ ایک سازش کا حصہ
ہے.میڈیا کے خلاف تقریروں اور تحریروں کی بھرمار ہے یہاں تک کہ اس سلسلے
میں فتوے بھی سامنے آئے ہیں".
ایک حد تک تو اس جواب سے خود کومطمئن کیا جاسکتا ہے مگر اس کا بنیادی سبب
طلبہ مدارس میں"بطور پیشہ وارانہ تعلیم اس میدان میں قدم رکھنے"کے رجحان کا
گم پایا جانا ہے.میں نے لفظ "گم"کا استعمال اس لئے کیا کہ مدارس کے طلبہ
کسی نہ کسی زاویے سے شعبہ صحافت سے وابسطہ تو نظر آتے ہیں مگر بطور تعلیم
اور فن کے اس پیشہ کوحاصل کرنا اور پھر اس میدان میں اپنی خدمات انجام دینے
کا رجحان ان میں نہیں پایا جاتا.اب اس نہ پائے جانے والے رجحان کی وجہیں
ہوسکتی ہیں.
1)مدارس کی زندگی میں اس موضوع پر کوئی گفت و شنید نہیں ہوتی.
2)سہوا یا غلطی سے بھی مدارس کا کوئی طالب اپنے پیچھے اس کانشان نہیں چھوڑ
جاتا جسے بعد کے طلبہ"آثار اسلاف"سمجھ کر اس جانب چل پڑتے یا ان کا رجحان
بن پاتا.
3)عدم رجحان کی ایک وجہ باضابطہ کورس کے لئے مطلوبہ ڈگریوں کا نہ پایا
جانا.مگر یہ بجا سبب نہیں.
مفقود رجحان کے اسباب کی تعداد کئی ایک ہوسکتی ہے مگر ایک لفظ میں اس کاذمہ
دار "ماحول"کو بتاکر گفتگو ختم کی جاسکتی ہے کہ.مدارس کی زندگی میں صحافت
کی شدبد تو بہت حد تک ہوجاتی ہے مگر اس کا ماحول نہیں بنتا کہ طلبہ کا اس
کی باضابطہ تعلیم کے حصول کا رجحان بن سکے.
عدم رجحانی کے سنگین نتائج:
طلبہ مدارس کی اس میدان سے بے توجہی اور عدم دلچسپی کے نتیجہ میں ملحدانہ
اور دین بیزار افکار و نظریات کو سماج میں پنپنے کا موقع ملا.روشن خیالی کی
خوب سے خوب تر تشہیر ہوئی.صحافت کےعقلی شہسواروں نے جانے اور انجانے میں
اسلام کی بنیادوں میں سیندھ ڈالا.اور نظر آنے والا نقصان یہ ہوا کہ "سیکولر
جنرلزم"نے معاشرہ میں فروغ پایا.خال-خال ہی ایسے مضامین سے نظر گزرتی ہے جن
میں اسلامیات کا رنگ پایاجاتاہو.اور جو تھوڑے بہت ملتے ہیں وہ مناہج وعقاعد
کے بگاڑ سے خالی نہیں ہوتے.یہ ارباب مدارس اور ان سے نمو پانے والے پودوں
کی کوتاہیاں ہیں جس نے سماج کو مغرب زدہ ہونےکی راہ ہموار کی.ورنہ کتاب
وسنت کے حاملین علماء کرام نے ذرائع ابلاغ کی جانب تھوڑی بھی پیش رفت کی
ہوتی تو شاید اسلامی نظریات و افکار کی جگہ لادینی،اشتراکی ،سرمایہ داری
اور اسلام مخالف کج فکری کے جملہ نظریات اپنی موت مرچکے ہوتے.یہ باتیں یاد
رکھنے کی ہیں کہ"کسی بھی قوم وملت کا تشخص اسی وقت پامال ہوتا ہے جب اس کے
مذہبی رہنما سکون کی کرسی پر دراز ہوجائیں اور سماج ومعاشرہ پر بیتنے والی
ہولناکیوں سے چشم پوشی کر لیں".
پیشہ وارانہ صحافت سے وابستہ اسلام کا ایک داعی اپنے تجربات کی روشنی میں
لکھتاہے:
یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر میڈیا ٹیکنالوجی کو دین کا
علم رکھنے والے افراد پیشہ ورانہ اصولوں کے ساتھ استعمال کریں تویہ پیشہ
ہونے کے ساتھ تبلیغ دین کا بھی مؤثر اور آسان وسیلہ ہو سکتا ہے۔....مزید
لکھتا ہے:...
میڈیا کا خود اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو چلانے والے اس کے ذریعہ
سے اپنے خیالات کی ترسیل کرتے ہیں۔ اگر دین کا علم رکھنے والے افراد ذرائع
ابلاغ کو استعمال میں لاسکیں تو یقیناًاسے ہدایت کا سرچشمہ بنایا جا سکتا
ہے...
پیشہ وارانہ صحافت کے ادارے
جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جے این یو، اگنو اورمولانا
آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں مدارس سے فارغ طلبہ کے لیے مواقع زیادہ ہیں
جن میں سے بعض کا میڈیم اردو ہے اور ان کے ہاں داخلہ کی اہلیت کے لئے بھی
امیدوار کا صرف بارہویں پاس ہونا ہے۔ اسی طرح انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس
کمیونیکیشن نئی دہلی، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بزنس اینڈ میڈیا، پونے،
سمباسس انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن، پونے، مدرا انسٹی ٹیوٹ آف کمیونی
کیشنز، احمد آباد.
غیر سرکاری ادارے :
’ آج تک‘، ’این ڈی ٹی وی‘، ’دی ہندو‘ اور ’ٹائمس آف انڈیا ‘ وغیرہ کے اپنے
اپنے میڈیا ہاؤسز ہیں، یہاں سے بھی ٹریننگ لی جا سکتی ہے جس کی تفصیلات ان
کی ویب سائٹ میں موجود ہے۔ ابھی حال ہی میں آئی آئی ایم سی نے اردو جرنلزم
میں ایک سال کا ڈپلوما کورس شروع کیا ہے.
طلبہ مدارس کے لئےمواقع:
پرنٹ میڈیا:
دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ اپنے رجحان ،تجربہ اور تعلیم کے مطابق درج
ذیل مجالات کاانتخاب کرسکتےہیں:
۱۔ مذہبی رجحان کے حامل روزنامے، ماہنامے وغیرہ۔
۲۔ روایتی اخبارات میں مذہبی کالم اور دینی مسائل۔
۳۔ بچوں کے ادب میں مواقع بالخصوص مذہبی اور تاریخی واقعات کو آسان پیرائے
میں بیان کرنا۔
۴۔ خواتین کے جرائد میں اسوہ حسنہ کی روشنی میں مضامین۔
۵۔ تاجر حضرات کی تجارت کے اسلامی اصول کی جانب رہنمائی اور کاروبار کی
جائز صورتوں کی نشان دہی۔
۶۔ حلال و حرام کی تحقیق اور اس سے متعلق تحقیقی جرائد
۷۔ عربی صحافت کا ترجمہ۔
۸۔ اسلامی معاشرے کی رپورٹنگ اور مقامات کا صحیح تلفظ۔
الیکٹرانک میڈیا:
الیکٹرانک میڈیا کی جب ایجاد ہوئی تو یہ تصورکیا جانے لگا کہ اب پرنٹ میڈیا
کی حیثیت باقی نہیں رہے گی لیکن آج بھی دنیا پرنٹ میڈیا کی اہمیت سے منکر
اور اس کی ضرورت سے دست بردار نہیں ہوسکی ہے۔اور مدارس کے طلبہ اس میدان
میں بھی نمایاں خدمات انجام دے سکتے ہیں. خصوصی طور پر آج کل ریڈیو کے
علاوہ بہت سے مذہبی ٹی وی چینل بھی ہیں، جن میں مدارس کے فارغ التحصیل کے
لئے خوش آئند مواقع ہیں۔مثلاً:
۱۔اسکرپٹنگ
۲۔ خوابوں کی تعبیر
۳۔ فقہی مسائل کی افہام وتفہیم
۴۔تفسیر قرآن
۵۔تفہیم و تشریح حدیث
۶۔ عام کمرشیل چینل بھی ناظرین کے لیے سوال وجواب کے پروگرام منعقد کرتے
رہتے ہیں۔
۷۔مکالمہ نویسی /ڈرامہ نگاری وغیرہ.
خاتمہ:
اب جب کہ صحافت کااصل رنگ یکسر متاثر ہوچکا ہے.سیکولر جرنلزم کی واہ واہی
ہے.ذرائع ابلاغ کے جملہ وسائل یہودی لابی کے ہاتھوں یرغمال ہیں.اور گاہے بہ
گاہے مسلمانوں کے افکار ونظریات پر کاری ضرب کر رہے ہیں.ایسے روح فرسا وقت
میں بطور خصوصی ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء کرام اور ارباب مدارس اس ضمن
میں پیش رفت کریں.مدارس میں کم از کم جرنلزم کے" الف اور با"کی اساس رکھی
جائے.اور باضابطہ" اسلامک جرنلزم"کے لئے افراد تیار کئے جائیں.اس میدان میں
دلچسپی رکھنے والے طلبہ کی مکمل رہنمائی ہو.بقدر امکانیات ان کی حوصلہ
افزائی کی جائے.تقریبا 2007 کی بات ہے میرے احباب میں سے ایک دوست نے اس
میدان میں اپنی دلچسپی دکھائی اور اسلام کے مبادیات کا علم حاصل کرنے کے
بعد انہوں نے جرنلزم کو بطور فن لیا.اس میں جدوجہد کی.اور آج ان کا اس باب
میں نمایاں کردار ہے.یہ وقت کا تقاضہ ہے اور پوری دنیا نے میڈیا کی سحر
انگیزی کو قبول کرلیا ہے.ضروری ہے کہ ہم بھی اس کی "چوتھی دیومالائی قوت کو
تسلیم کرلیں.
1)اسلامی صحافت کی ضرورت واہمیت.(محمد فرہاد )
2)میڈیا کے منفی ثرات(سرفرازصدیقی)
3)صحافت کی وسیع دنیا(محمد علم اللہ اصلاحی)
4)غسان مائیکل روبیز کی تحریر کا اقتباس(Common Ground News Service ) |