فلسفہ و مذہبی طرز عمل کے بنا
محکومیت و مغلوبیت کے شکار انسان اوراس کے آزادی کے امکانات
انسانی فلسفہ و مذہبی طرز عمل سے حاصل محکومیت و مغلوبیت کا شکار فرد پر دو
قسم کا غلبہ ہوسکتا ہے
پہلی قسم کے غلبہ یہ ہے کہ ایک فرد اپنی مادی طاقت کے اعتبار سے اتنا قوی
ہوجائے کے دوسرا فرد اپنی سیاسی و معاشی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکے فرد
کلی طور پر یا کسی نہ کسی حد تک دوسرے کے وسائل پر قابض ہوکر نظم یا کسی
اور طرز پرحاوی ہوکر حاکم و محکوم کا رشتہ قائم کرئے دوسری قسم میں فرد
اپنی فکری قوتوں میں اتنی ترقی کرجائے کہ دوسرا اسی کے افکار پر ایمان لے
آئے اس کے تخیلات ۔نظریات دماغ میں چھاجائے اور ذہنیت اس کے سانچے میں ڈھل
جائے علم اسی کا علم ہو اس کی تحقیق کو تحقیق مانا جائے ہر وہ چیز جس کو
باطل قرار دیا جائے وہ باطل قرار پائے-
یوں یہ لازم تو نہیں کہ جہاں سیاسی غلبہ ہو وہاں ذہنی غلبہ بھی واقع ہو مگر
فطری قانون یہی نظر آتا ہے کہ جو فرد عقل و فکر سے کام لے تحقیق و اجتہاد
کی راہ میں پیش قدمی کرئے وہ ذہنی ترقی کے ساتھ مادی ترقی بھی کرتا ہے -
قوی فرد غالب و کمزور مغلوب ہوجاتاہے ضیعف اپنے ضعف میں جس قدر ترقی کرتا
ہے وہ ذہنی غلامی و محکومیت میں مستعد ہوتاچلا جاتا ہے یوں ایک قوی اپنے
عقلی و مادی قوت سے دوسرے کے دل دماغ جسم پر آرام سے حکمرانی کرجاتا ہے -
موجود دور میں انسان دوہری غلامی میں مبتلا ہوتاجارہا ہے اس وقت دنیا میں
کوئی ایسی ریاست نظر نہیں آرہی جہاں انسان سیاسی اور ذہنی اعتبار سے پوری
طرح آزاد ہو مغرب میں مشرقی تہذیب کے مذہبی افکار وروحانیت فرد کی مادی
ترقی کے بعد درست راہ معلوم ہوتی ہیں-
اسی طرح مشرق میں موجودہ مغربی تہذیب افکارو علوم و فنون آج مشرق کے فرد پر
حکمران ہیں ہم مشرقی آج دنیاکو مغرب کی آنکھ سے دیکھتے ہیں مغربی دماغ سے
سوچتے ہیں مغرب کا حق و باطل ہمارا حق و باطل جو معیار مغرب مقرر کردے وہ
ہی ہمارا معیار کوئی شعوری و علانیہ مانتا ہے تو کوئی دل میں گھٹا ہے
ٓآزاد فرد کا حال اور غلام فردکے مقام کا تعین پر ہم صرف بات کرسکتے ہیں -
انسانی عقل و فلسفہ کا کہنا درست ہے کہ فرد آزاد پیدا ہوتا ہے یوں ہی مذہب
اسے بااختیار تسلیم کرتا ہے انسان اس توازن کو برقرار نہ رکھتے ہوئے حاکم
یا محکوم بن گیا یوں اول معاشرے میں خرابی پیدا ہونا شروع ہوگئی اور اول و
دوم کی اس کشمکش میں زندگی کا سکون برباد ہوگیافرد تا قوم کی تاریخ جنگ سے
بھری پڑی ہے -
فطرت کے مسائل سے نبرآزمائی کرتا متحریک فرد اب فردتا قوم اپنے حق کے لئے
حیران و پریشان ارض پرزندگی بسر کرنے پر مجبور۔محکوم ومغلوب ہے -
تاریخ سے استفادہ کرتے ہوئے اول فرد نے تین قسم کے نظام سے استفادہ کیاا ور
فردو کائناتی وسائل پر پر حاکم و مختیار ہوگیا -
ہامانی۔فرعونی۔قارونی ۔ یہ وہ تین نظام ہیں جو اول معاشرے سے رائج نظر آتے
ہیں حالت و وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جدا جدا یا ایک ساتھ ان نظام
سے استفادہ لیاجائے تو فرد ۔ میکاولی۔ کاشہزادہ بن جاتا ہے یا۔ بدھا ۔کا
صوفی اب تک نہ میکاولی شہزادے کا مشیر رہا نہ بدھا نروان بیان کرپائے-
اجتہاد ۔ تحقیق غور و فکر میں پیش قدمی کرتا ہوا فرد ہی امامت کے درجات پر
فائز ہوتا ہے یوں فرد تا قوم مشرق تا مغرب جو متحریک اور مسلسل ارتقائی
منازل طے کرتے ہیں وہ امام دیگر مقلدہوکر اپنا زندگی کا سفر بسر کرتے ہیں-
اب امامت کے حامل فرد کے لے لازم ہے وہ مقلدکوبرابری کے مقام سے آشنائی
کرتے ہوئے اپنا فرض ادا کرئے و مقلد مستعد ہوکراپنے مقام کی قدر کرئے-
فلسفے میں یوٹوپیائی ریاست اور مذہب جدید میں غلام و آقامیں برابری کی مثال
موجود ہے یوں ہی عقل افلاطونی مکالماتی اندازو فرد کی الکلامی تربیت اس
زمیں کو امن و سکون کا گہوارہ بناسکتی ہے
دیگر میں بھی بیان دینے کو تیار ہوں ۔ یہ زمیں گردش نہیں کرتی
1.11.2014
ٓآصف
متحریک مضمون بسبب مقالہ جناب سید مودودی صاحب ۔ہماری ذہنی غلامی اور اس کے
اسباب۔ کا مطالعہ ہے۔ |