٭ گو خٹک گو کا نعرہ لگانے والی ایم پی اے جاوید نسیم کی
رکنیت ختم۔ خبر
یہ نعرہ تولگنا ہی تھا۔اتنے مہینے گزر گئے اپنی وزارت عظمیٰ سے بے خبر
سرکاری وسائل استعمال کر کے دھرنا کامیاب کرنے والے وزیراعلیٰ کی شامت تو
بالآخر آنا ہی تھی۔جب وزیر اعلیٰ خیبر پختوانخواہ سرکاری گاڑیوں میں سرکاری
بندے اور سرکاری پٹرول ڈیزل دھرنا کی نذ ر کریں گے تو عوام کی بدعا لگنا ہی
باقی تھی سو لگ گئی اپنے ہی بندے نے ،اپنی ہی پارٹی سے اپنے ہی بندوں نے گو
خٹک گو کا نعرہ کیا لگایا؟پھر تو خٹک سمیت ساری پی ٹی آئی تلملااٹھی،
حالانکہ اندرون خانہ خیبر پختوانخواہ کی ساری عوام ہی یہ نعرہ لگا رہی
ہے۔وزیر اعلیٰ صاحب نے اپنی کارکردگی خیبر پختوانخواہ دکھانے کی بجائے
دھرنے میں دکھائی وہاں کیا سے کیا نہیں کیا ،ڈانس تک کیا ،پھر گو خٹک گو
نہیں تو کیا چلے گا؟
٭ عبد الستار ایدھی کے مر کزی ڈکیٹ گرفتار۔ خبر
جس نے ساری دنیا میں پاکستان کا نام بلند کیا جس نے پورے ملک کے ضرورت
مندوں کی ضروریات کو پورا کیا،جس نے ایمبرجنسی میں اپنی گاڑیوں کے جال پچھا
دیئے،جس نے پاکستان سمیت پوری دنیامیں ساری انسانیت کی جانیں بچانے میں
کوئی کسر باقی نہیں رکھی،جس نے ہر خاص و عام کے لئے اپنے دروازے کھلے
رکھے،جس نے اپنا ادارہ چلانے کے لئے بھیک تک مانگی،ہماری بد قسمتی دیکھو،ہم
پاکستانی کتنے بے حس ہیں،یہاں کتنے اندھے لوگ ہیں جو عبدالستار ایدھی جیسے
نیک انسا ن کے ساتھ ڈکیتی کرتے ہیں،ایسے انسان کولوٹناپوری انسانیت کے ساتھ
درندگی نہیں توکیا ہے،ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ ہم پاکستانی اس وقت کس نہج پر
پہنچ چکے ہیں؟
٭ ہم تلاوت ونعت کرتے ہیں اور پی ٹی آئی کے جلسے میں ڈانس، باجے اورباجیاں
ہوتی ہیں۔ خبر
مولانا فضل الرحمٰن کا مذکورہ بیان پی ٹی آئی کے لئے درد سر بن گیاہے،
مولانا صاحب کے بقول ان کے جلسے جلوس میں باپردہ ،با حیا اور نیک خواتین
شرکت کرتی ہیں،ان کے جلسے میں تلاوت و نعت سے رونقیں سجائی جاتی ہیں لیکن
اس کے بر عکس پی ٹی آئی والے اپنی فیشن ایبل،ممی ڈیڈی لڑکے لڑکیوں کا اکٹھ
کر لیتے ہیں،پھر ان کے میوزک اور دھمال پر ڈانس باجے چلتے ہیں، دھوم دھڑکا
ہوتا ہے،مولانا صاحب نے اسے اسلامی اقدار کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا
ہے۔ویسے ایک بات تو ٹھیک ہے کہ ہمارے معاشرے کو ٹھیک کرنے کے لئے کسی ڈانس
پارٹی کی گنجائش ہر گز نہیں ہونی چاہیئے۔ملک ٹھیک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ
ہم بطور فرد خود کو ٹھیک کرلیں جب افراد ٹھیک ہوں تو معاشرہ ٹھیک ہوگا اور
جب معاشرہ ٹھیک ہو گا تو حکومت بھی ٹھیک بنے گی۔
٭ بھار ت کا کشمیر میں الیکشن کا اعلان خبر
ہندوستان روز اول سے پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں مصروف رہتا ہے۔ہماری
حکومتوں اور فوج نے ہمیشہ امن اور رواداری کو برقرار کھالیکن ہندوستان نے
ہمیشہ جنگی اور انتہا پسندی والا رستہ اپنایا۔کئی مہینے گزر گئے ہمارے
بارڈرز پر اور عوام پر ہندوستانی فوج کی طرف سے بھاری اسلحہ کا
استعمال،گولہ باری اور ٹارگٹ کلنگ اسی طرح جاری ہے۔اس بات کا احتجاج
پاکستان کے کئی دفعہ نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر اٹھایا لیکن مجال ہے جو
ہندوستانیوں کے دماغ میں امن کی شمع روشن ہو۔کشمیر پر قبضہ جمائے لاکھوں کی
تعداد میں بھارتی فوج روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔کشمیری عوام اورخواتین کے
حقوق ہر روز پامال ہوتے ہیں،کئی مسلمان عورتوں کی عصمت دری ہوتی ہے،کلمہ
پڑھنے والے مسلمانوں کے سر پر گولیاں برسائی جاتی ہیں۔نام نہاد الیکشن سے
کٹھ پتلی حکومت بنائی جاتی ہے اور دنیا میں ہندوستان اپناجعلی جمہوری چہرہ
دکھانے کی حد درجے کوشش کرتا ہے۔
٭ قادری کا چندے کے لئے ملک سے باہر جانے کا اعلان۔ خبر
قادری صاحب نے جتنا جیون اور زور’’گند‘‘ دھرنے پر ڈالا شاید اتنی توجہ وہ
اپنے مذہب کی طرف دیتے تو شاید ہمیں آج کے اخبار میں راولپنڈی میں گلریز
کالونی کی بد نصیب شاہدہ جس نے اپنے معصوم بچوں ،شوہر کو زہر دیکر خودکشی
کرلی جیسی خبریں نہ ملتی۔مطلب یہ کہ مولانا صاحب سمیت کئی دوسرے مذہبی
علماء اور اہل دانش لوگ اگر عوام کو سیاسی مقاصد کی بجائے معاشرتی اصلاح کے
استعمال کریں تو یقینا معاشرتی اور معاشی طور پر مایوس لوگ زیادہ بہتر
زندگی گزارنا شروع ہو جائیں۔حکومت کا کام ہے عوام کو معاشی اور معاشرتی
سہولتیں دینا ،علماء ،والدین اور گھر کے بڑوں کا کام ہے کہ وہ گھروں کے
اندرونی ماحول کو دینداری کی طرف لے جائیں یعنی اصلاح احوال کریں۔کتنے
افسوس کی بات ہے کہ مذکورہ بدقسمت شاہدہ نے نہ جانے کتنی مایوسی سے یہ
افسوسناک قدم اٹھایا۔یقینی طور پر ان کے پڑوسی ان کے معاملات سے باخبر تھے
لیکن مدد نہ کی،یقینی طور پر خاتون خانہ اور اس کے سسرال والے ان کے
اندرونی مسائل سے باخبر تھے لیکن بے حس رہے، کوئی بھی مرد بحران اسے نظر
نہیں آیا تو اس نے یہ غلط فیصلہ کیا۔قادری صاحب نے دین کی خاطر اپنی ساری
عمر لگا دی لیکن اس دین داری کے چند مہینوں کے دھرنے کی نذر کر دیا۔لاہور
میں اپنے مریدین،ملازمین اور چہیتوں کو اشتعال دلایا اور کئی افراد پولیس
سے ٹکراؤ کرا کے مروا دیئے،عمران خان کی محبت میں دھرنا دیکر ٹی اسٹیشن
،پارلیمنٹ ہاؤ س اور پرائم منسٹر ہاؤ س کا گھیراؤ کیا،دھرنے میں ایوان
زیریں اور ایوان بالا کو روز دھمکیاں اور گالیاں نکالیں،وزیر اعظم کو ہر
روز للکارا، پی ٹی آئی کے ساتھ مل کرقانون کو پامال کیا؟کیا ہمار ا دین محض
یہی سبق دیتا ہے کہ کرسی اور اقتدار کے لئے تما م اخلاقی حدود پامال
کردو،کیا ہمارا مذہب یہی سبق دیتا ہے کہ عورتوں اور معصوم بچوں کو ڈھال بنا
کر میڈیا،عوام اور حکومت ِ وقت کو بلیک میل کرو،ہزار دفعہ لعنت ہوایسے نام
نہاد لیڈران،پیروں ،فقیروں اور نوسربازوں پر اور ایسی زندگی پر کہ ہم سب
مسلمانوں کی موجودگی میں لوگ اتنے مشتعل ہوں کہ پولیس سے مڈبھیڑ کریں پھر
وہاں عوام الناس مر جائیں۔کوئی عام آدمی ہو یا پولیس والا سب قیمتی ہیں،ہر
ہر فرد اپنے گھر کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔لعنت ہو ایسے رشتہ داروں
اور پڑوسیوں پر کہ جن کی موجودگی میں گھرانے اور افراد خودکشیاں کر
جائیں۔ہمارے علماء سمیت ہم سب کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے
مسائل کو حل کرنے میں نہ صرف معاون ہوں بلکہ سب کو احسا س بھی دلائیں کہ
کسی بے گناہ کی جان لینا یا خودکشی کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور انہیں ہم لوگ
مل جل کر ہنستی بستی دنیا میں رہنے کا ماحول فراہم کریں۔اگر ہم یا قادری
صاحب ایسا نہیں کر سکتے تو پھر ہماری زندگیوں کا کیا فائدہ؟حکومت بن گئی ہے
تو خدا کے لئے اسے چلنے دو،ملک میں ترقی کا پہیہ روکنا بھی یقینا حرام ہے
اور اگر لوگوں سے پیسے یا فنڈ لیکر ملک یا حکومت کا نظام بگاڑنا ہے تو احقر
کے خیال میں یہ بھی حرام ہے۔پیسہ اکھٹا کرناہے تو کرو قادری صاحب لیکن اس
پیسے کو عوام الناس کی ترقی پر لگاؤ،یہ دھرنے اورحکومتوں سے ٹکرا کر مرنے
پر نہ لگاؤ،ہو سکے تو دوبارہ منبر پر بیٹھو اور پاکستانی عوام کے جاہل اور
بے کس افراد کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کرو ،اگر ایسا کر سکتے تو میں ہم سب
بھی آپ کا ساتھ دیں گے ۔۔۔نہیں کر سکتے تو قادری صاحب یقین کرو ہم ریسلنگ
کی طرح کسی "Hell in Cell"میں ہیں جہاں کرسی کے لئے ہم ایک دوسرے کو گرانے
اور بیہوش کرنے یا شدید زخمی کرنے والی کہانی ہے،جہاں ہم ایک دوسرے پر بلا
مقصد طاقت آزمائی کر رہے ہیں ،اس چکر میں کوئی اور آتا ہے میڈل لیکر چلا
جاتا ہے،اس دنیا میں آنے کا کوئی مقصد ہے آپ نے اپنی ساٹھ سالہ اننگ پوری
کرلی ،آپ کے لئے تو نہایت ضروری ہے کہ ملک اور معاشرے کے لئے دین داری کا
کوئی سبق چھوڑ جائیں،لوگوں میں بیداری اور آگاہی ضروری پیدا کریں لیکن اس
میں طاقت اور خون کا استعمال ہر گز نہ ہو،آپ جیسے علماء پھر کسی کام کے
نہیں،سیاست کے لئے سیاسی لوگ ہی اچھے لگتے ہیں،دین دار لوگ دین کے لئے کوشش
کرتے ہیں کرسی کے لئے نہیں،اگر آپ جیسے لوگ سیاسی بھکیڑوں میں پڑ گئے توپھر
تو احقر کی طرح کے لکھاری گو قادری گو کے نعرے لگائیں گے۔۔۔آپ کی پاکستان
کو کوئی ضرورت نہیں کینیڈا ہی رہو۔۔۔پھر تو آپ بھی "Hell in Cell"کا حصہ ہی
ہوئے۔۔۔ |