فرقان احمد شمسی ڈائریکٹر جنرل۔ ہمدردفاؤنڈیشن پاکستان سے ایک مکالمہ
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
( یہ مکالمہ ر اقم الحروف نے
اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے کیا جو موضوع کی تحقیقی ضرورت تھا۔یہ انٹر ویو
مقالے میں شامل ہے۔ مقالے کا عنوان ہے ’’ پاکستان میں لائبریری تحریک کے
فروغ اور کتب خانوں کی تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار ‘‘ ۔ اس
تحقیق پر راقم الحروف کو ۲۰۰۹ء میں جامعہ ہمدرد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض
ہوئی)
تعارف :
فرقان احمد شمسی صاحب گزشتہ ۳۹ برس (یکم فروری ۱۹۶۶ء تا حال) سے ہمدرد سے
منسلک ہیں۔آپ کو شہید حکیم محمد سعید کے قریبی اوربا اعتماد ساتھیوں میں ہو
نے کا اعزاز حا صل ہے۔ آپ کو ۳۲برس حکیم صاحب کی قربت کا شرف حاصل رہا۔آپ
کا شعبہ حساب داری ہے ۱۹۶۶ء میں آپ ایک حساب دار (Accountant) کی حیثیت سے
ہمدرد سے منسلک ہوئے ترقی کی منازل طے کر تے ہوئے ہمدردفاؤنڈیشن پاکستان کے
ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہیں۔آپ ایک دین دار انسان ہیں، عجز و
انکساری آپ کے مزاج کا حصہ ہے۔ نمود ونمائش سے دور رہتے ہیں۔ راقم الحروف
نے اپنے مقالے کی تکمیل کے سلسلے میں آپ سے انٹر ویو کی اِستِدعا کی تھی ،
آپ اپنے مزاج کے مطابق گریزاں رہے اور راقم مسلسل گزارشات کر تا رہا۔ بالا
آخر دس ماہ کی صبر آزما جدوجہد کے بعدراقم کو کامیابی ہو ئی اور فرقان صاحب
نے وقت عنایت فرمایا۔
فرقان صاحب کا تعلق یو پی ہندوستان کے قصبہ نگینہ ضلع بجنور سے ہے۔ابتدائی
تعلیم ، میٹرک اور انٹر اپنے آبائی وطن سے کیا ۔ ۱۹۵۸ء میں پاکستان ہجرت کی
اور سابق مشرقی پاکستان کو اپنا مسکن بنا یا ،بی کام قائد اعظم کالج ،
ڈھاکہ سے کیا۔ آٹھ سال بعد ۱۹۶۶ء میں کراچی آگئے جہاں پر آپ کے برادر نسبتی
جناب حا فظ عتیق الر حمٰن ہمدرد سے منسلک تھے آپ نے انہیں کے تَوَسطُ سے
ہمدرد فاؤنڈیشن میں بطور حساب دار (Accountant) ملازمت اختیار کی۔ اس وقت
آپ ہمدرد فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ آپ سے یہ گفتگو بروز منگل۲۵
اکتوبر۲۰۰۵ء مطابق ۲۰ رمضان المبارک ۱۴۲۶ء کو آپ ہی کے دفترواقع ہمدرد
سینٹر میں ہوئی۔
۱ : سب سے پہلے تو آپ کچھ اپنے با رے میں بتائیں۔ ہمدرد سے کب اور کیسے
منسلک ہوئے؟
ج : آپ نے گفتگو کا آغازحدیث نبوی ﷺ میں موجود ایک دعا سے کیا جس کا اردو
ترجمہ یہ ہے کہ ’’ اے اﷲ مجھے میری نظر میں چھو ٹا بنا دے اور دوسروں کی
نظر میں بڑ ابنا دے‘‘۔ بعد ازآں آپ نے اپنی تعلیم اور ملازمت کے بارے میں
بتا یا جس کی تفصیل آپ کے تعارف میں بیان کی جاچکی ہے۔
۲ : شہیدحکیم محمد سعید سے آپ کا تعلق کب ، کہاں اور کیسے ہوا۔یعنی حکیم
صاحب سے آپ کے تعلقات کی نوعیت کیا تھی؟
ج : ۱۹۶۴ء کی بات ہے میں ڈھاکہ میں تھا اردو ڈائجسٹ اپنے ہر شمارہ میں کسی
نہ کسی شخصیت کا انٹر ویو شائع کیا کرتا تھا ، غالباً نومبر ۱۹۶۴ء کے شمارہ
میں حکیم صاحب کا انٹر ویو شائع ہوا ۔ اسے پڑھ کرمیں حکیم صاحب سے بہت
متاثر ہوا ، درحقیقت حکیم صاحب سے میرے تعلق کی یہی ابتدا تھی ۔اپنے اس
انٹر ویو میں حکیم صاحب نے بتا یا تھا کہ انہوں نے وقت کی پابندی حضرت
مولانا اشرف علی تھانوی ؒ سے سیکھی اور دولت سے اِ ستغِنااپنے بڑے بھائی
حکیم عبدالحمید سے سیکھا۔میرے کراچی آنے سے پہلے ہی جناب حافظ عتیق الرحمٰن
صاحب جواکا ؤئنٹس ایگزیکیوٹو ہمدردقف تھے نے حکیم صاحب سے میری ملازمت کے
بارے میں بات کرلی تھی چنانچہ میں ۳۰جنوری ۱۹۶۶ء کو کراچی آیااور یکم فروری
۱۹۶۶ء کو ہمدرد سے منسلک ہو گیا ۔ اب حکیم صاحب سے میرا براہِ راست تعلق ہو
گیا جو الحمد اﷲ آخر وقت تک قائم رہا۔
وقت کی پابندی کے بارے میں تو سب ہی جانتے ہیں کہ آپ وقت کے کس قدر پابند
اور قدر کر نے والے تھے، وقت ضائِع کر نے کا تصور آپ کے ہاں قطعاً نہیں
تھا۔دولت کے معاملے میں بھی آپ نے اپنے بڑے بھائی کی پیروی کر تے ہوئے
ہمدرد (وقف) کا کاروبار جو ۱۹۴۸ء میں آپ نے قائم کیا تھا جب مستحکم ہو گیا
تو آپ نے اس کاروبار کو ۱۹۵۳ء میں وقف کر دیاساتھ ہی اپنے لیے کچھ
رقم(Family Income) کے طور پر مختص کرلی ۔ پہلے تو محکمہ انکم ٹیکس نے
ہمدرد کو (وقف) تسلیم نہیں کیا اس سلسلے میں قانونی موشگافیاں ہوتی رہیں
۱۹۸۲ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ دیا کہ ہمدرد کی آمدنی وقف ہونے
کے ناطے ٹیکس سے مستثنیٰ ہے تو CBRنے یہ قانون وضع کیا کہ جس وقف میں کسی
فرد کی ذاتی آمدنی بھی ہو گی اس کو وقف تصور نہیں کیا جائے گا۔ اس قانون کے
آنے کے بعد حکیم صاحب محترم نے اپنا SHARE(حصہ)ہمدرد (وقف) سے ختم کرنا
چاہااس پر ممبران ِٹرسٹیز نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی
لیکن حکیم صاحب نے اعتراضات کی پرواہ نہ کر تے ہوئے اپنے SHARE کو ختم کرنے
اوربورڈ آف ٹرسٹیز سے اپنی تنخواہ مقرر کرانے میں کامیاب ہو گئے۔در اصل آپ
ہمدرد کے لیے سب کچھ کر گزر نے کو تیار تھے حتیٰ کے آپ کو اپنے بیوی بچوں
سے زیادہ ہمدرد اور مدینتہ الحکمہ سے محبت تھی۔
۳ : حکیم صا حب آپ پر مکمل اعتماد کیا کر تے تھے اس کی کوئی خا ص وجہ تھی؟
ج : اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے یہ رتبہ عطا فرمایا ۔ حکیم صا حب نے
مجھ پر اعتماد کیااس کی وجہ میں خود نہیں جانتا ۔
۴ : کتا بوں کی خریداری اور لا ئبریری کے دیگر اخراجات کے سلسلے میں آپ کو
حکیم صا حب کی جانب سے کوئی خاص ہدایات ہوا کرتی تھیں یا نہیں؟
ج : جی نہیں اس سلسلے میں کبھی کوئی ہدایت نہیں فر مائی، حکیم صا حب اپنی
مرضی کے مالک تھے ، جو وہ بہتر سمجھتے تھے وہی کرتے تھے۔
۵ : حکیم صا حب جب کسی لا ئبریری کو امداد یا گرانٹ دیا کر تے تھے تو کیا
آپ سے مشورہ کیا کر تے تھے؟
ج : جی نہیں۔
۶ : جنرل لا ئبریری سکھر کی گرانٹ سالانہ پانچ ہزار تھی ۱۹۸۴ء میں اسے ۱۰
ہزارکر دیا گیا،کیا یہ پا لیسی کا حصہ تھا یا حکیم صا حب کی اپنی مرضی ہوا
کر تی تھی؟
ج : اس سوال کے جواب کے لیے آپ نے دفتر سے جنرل لا ئبریری سکھر کی فائل
منگو ائی اور بتا یا کہ کسی بھی لائبریری یا ادارے کی امداد حکیم صاحب کا
کلی اختیارہو اکر تا تھا۔ ۱۸ اپریل ۱۹۸۴ ء کو لا ئبریری کی جا نب سے حکیم
صا حب کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتما م کیا گیا ، تقریب کی صدارت
سکھر کے میئر اسلام الدین شیخ نے کی۔جنرل لا ئبریری کو ہمدرد فاؤنڈیشن پا
کستان کی جا نب سے سالانہ پانچ ہزار روپے گرانٹ ملتی تھی اس موقع پر حکیم
صا حب نے اس گرانٹ کو دس ہزار روپے سالانہ کر نے کا اعلا ن بھی فر
مایا۔گرانٹ کی ادائیگی کے بارے میں حکیم صاحب نے اپنے ہاتھ سے ایک نوٹ
تحریرفر مایا جس میں آپ نے لکھا کہ اس تقریب میں میئر سکھر نے جنرل
لائبریری کے لیے کئی مراعات کا اعلان کیا اس موقع پر میں نے بھی لائبریری
کی گرانٹ پانچ ہزار سے دس ہزار کر نے کا اعلان کیا ۔ (فرقان صاحب نے حکیم
صا حب کے اس نوٹ کی فوٹو کاپی راقم کوعنایت فر مائی جو مقالہ کے ضمیمہ نمبر
۱ میں شامل ہے)
۷ : حکیم صاحب بہ حیثیت منتظم (Administrator) آپ اس سلسلے میں کیا کہنا
چاہیں گے؟
ج : بات در اصل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ جس کو جو چیز عطا کر نا چاہتے ہیں وہ
اسے عطا فر مادیتے ہیں۔ حکیم صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے قوت فیصلہ اور کام کر نے
کی قوت بہ درجہ اتم عطا فر مائی تھی انہوں نے بھی اپنی اس خداداد صلا حیت
سے بھر پور کام لیا ۔ میرے خیال میں کوئی بھی کار خیر کر نے والا اتنا کام
نہیں کر تا جس قدر حکیم سعیدؒ کیا کرتے تھے۔ دفتر کے معمولات کچھ اس طرح
تھے کے ہر کام وقت پر انجام پاتا ۔روز کا یہ معمول تھا کہ دفتری اوقات ختم
ہو نے سے قبل شعبہ جات کے سربراہان کو حکیم صاحب سے اگر کسی بھی قسم کے
مشورہ یا ہدایت حاصل کرنا ہو تی تو متعلقہ فائل آپ کو پہنچا دیے جاتے جو آپ
کے ہمراہ آپ کے گھر چلی جاتی تھیں اگلے روز صبح وہ تمام فائلیں حکیم صاحب
کی ہدایات کے ساتھ متعلقہ شعبہ کے سربراہ کی ٹیبل پر مو جود ہوا کرتی
تھیں۔حکیم صاحب خواہ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں، رات کو دو بجے بیرون سفر
سے واپسی ہوئی ہو تب تو بھی آپ پہلے فائلوں کے پلندے دیکھتے ان پر ہدایا تی
نوٹ تحریر فر ما تے اس کے بعد بستر پر لیٹتے تھے۔
۸۔ : آپ کو حکیم صاحب کی کس عادت نے سب سے زیادہ متاثر کیا؟
ایک مرتبہ میں نے حکیم صاحبؒ کو حضرت نظام الدین اولیاؒ کا واقعہ سنا یا کہ
ایک مرتبہ حضرت نظام الدین اولیاؒ بیمار ہوگئے ان کے مریدین نے آپ سے کہا
کہ حضرت ایک سادھویہاں رہتا ہے جو مریض کے جسم سے مرض کو اپنے اندر جذب کر
لیتا ہے اس سے بیماری جاتی رہتی ہے اگر آپ کہیں تو اسے بلا لیا جائے۔ حضرت
صاحب نے انکارکر دیا ، کچھ عرصہ بعد آپ دوبارہ علیل ہو گئے ، مریدین اس بار
اس سادھو کوبغیر اجازت بلا لائے اس نے حضرت صاحب کا مرض اپنے اندر جذب کر
لیا اور آپ صحت یاب ہو گئے۔آپ نے سادھو سے دریافت کیا کہ اسے یہ قوت کیسے
حاصل ہوئی اس نے جواب دیا کے میں نے اپنے نفس کو مارا ہے، میں نے کبھی وہ
کام نہیں کیا جس کے لیے میرا جی چاہا ہے ۔حضرت صاحب نے دریافت کیا کے
کیاتیراکبھی مسلمان ہو نے کو جی چاہاہے اس نے جواب دیا کے نہیں، آپ نے
فرمایا تو مسلمان ہو جا، اپنے نفس کی چاہت کے خلاف کام کرو سادھو آپ کی اس
دلیل پرلا جواب ہو گیا اور آپ کے ہاتھوں مسلمان ہو گیا۔حکیم صاحب نے بھی
اپنے نفس کو ماردیا تھا۔
آپ کہا کر تے تھے کہ اﷲ تعالیٰ میری دعا قبو ل کر تے ہیں میری کسی بات کو
رد نہیں فر ماتے۔افسوس حکیم صاحب ایک حسرت اپنے ساتھ لے کر ہی چلے گئے۔حکیم
صاحب کے ایک سعودی دوست جناب ذکی یمنی صاحب نے مدینتہ الحکمہ میں الفرقان
کے نام سے ایک یتیم خانہ قائم کیا تھا جہاں پر بے سہارا بچوں کے قیام، طعام
اور تعلیم کا اہتمام ہو نا تھا ۔ آپ نے یہ زمیں جو ہمدرد فاؤنڈیشن کی ملکیت
تھی Yapco Foundation کو فروخت کر دی یتیم خانہ تعمیر ہو گیا لیکن اپنے
مقاصد حاصل نہ کر سکا اور بند ہو گیا ، بعد میں حکیم صاحب ؒنے اس عمارت
کوخرید لینے کی خواہش کی اس ادارے نے اس کی قیمت۲۴ کروڑ روپے مقرر کی ۔
حکیم صاحب اس پر تیار ہو گئے تھے لیکن ادائیگی ان کی زندگی میں نہ ہوسکی اب
انشاء اﷲ ہمدرداس عمارت کومتعلقہ ادارے کو رقم ادا کر کے حکیم صاحب کی
خواہش کی تکمیل کرے گا۔
۹ : بیت الحکمہ کی عمارت چار منزلہ تعمیر ہونا تھی کیااس منصوبے پر عمل
درآمد کا پروگرام ہے یا اسے ملتوی کر دیا گیا ہے؟
ج : ہمدرد یونیورسٹی میں متعدد عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ لائبریری کی
عمارت بھی انشاء اﷲ مکمل ہوگی۔ یہ منصوبہ process میں ہے۔
۱۰ : حکیم صاحب سے آپ کی آخری ملاقات کب اور کہاں ہوئی؟
ج : ہماری ملاقات عموماً دفتر میں روزانہ ہی ہوتی تھی غالباً ۱۲ اکتوبر
۱۹۹۸ء سے قبل ملاقات ہوئی ہوگی اس لیے کہ ۱۲ اکتوبر سے میں چھٹی پر تھا اور
بیرون ملک چلاگیا تھا مجھے وہاں پر یہ افسوس ناک خبر ملی۔ میری واپسی ۱۹
اکتوبر کو ممکن ہو سکی اور میں آپ کی تدفین میں شریک نہیں ہوسکا جس کا مجھے
سخت افسوس ہے۔
(یہ انٹر ویو بتاریخ۲۵ اکتوبر۲۰۰۵ء کو فرقا ن صاحب کے دفتر واقع ہمدرد
سینٹر، ناظم آباد میں لیا گیا) |
|