مُلک سلامت تو ہم بھی سلامت
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں ایک
کسان رہتا تھا اُس کی حویلی کے صحن میں ایک درخت تھا
جس کے نیچے وہ اپنی گائے اور بکری کو باندھا کرتا تھا۔ اس نے ایک مرغا بھی
پال رکھا تھا، جو ہر وقت درخت پر چڑھ کے بیٹھا رہتا تھا۔
ایک دن کسان کی بيوی نے کہا کہ "سردیاں آرہی ہیں، کل اس درخت کو کاٹ کر
لکڑیاں بنا لیں گے"۔
کسان نے کہا، "کہ یہ درخت ميرے باپ کی لگائی ہوئی نشانی ہے، اسے مت کاٹو"۔
لیکن کسان کی بیوی نے ضد کرتے ہوئے اسے کاٹنے کا فیصلہ سنا دیا۔
درخت نے جب یہ سنا تو اس نے اپنی ٹہنی پر بیٹھے ہوئے مرغے سے کہا "تم سُن
رہے ہو کہ مجھے مارنے اور کاٹنے کا منصوبہ بن رہا ہے، میری کسی طرح مدد
کرو۔ اگر میں ہی نہ رہا تو تم کس پر بیٹھا کروگے؟"
مرغے نے یہ کہہ کر منہ دوسری طرف کر لیا کہ "تم جانو اور تمہار اکام، میں
تو پوری حویلی میں بھاگتا پھروں گا اور کہیں بھی بیٹھ جاؤں گا۔"
درخت نے مرغے سے مایوس ہو کر پہلے گائے اور پھر بکری کی منتیں کیں کہ "کسی
طرح حویلی کے مالکوں کو سمجھاؤ کہ وہ مجھے مت کاٹیں، میں تم سب کو سانس
لینے کیلئے آکسیجن دیتا ہوں۔ تپتی گرمیوں میں اس حویلی والوں کو گرم لُو سے
بچاتا ہوں اور جب تمہیں زیادہ بھوک لگتی ہے تو میرے پتے تمہارے کام آتے
ہیں"۔
لیکن بکری اور گائے نے بھی کہا کہ "میاں اپنی جان بچانے کا بندوبست تم خود
کرو، تمہارے کٹ جانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہمیں تو روزانہ باہر
چرنے کے لیے لے جایا جاتا ہے اور تمہارے پتوں کی ہمیں
کوئی اتنی خاص ضرورت بھی نہیں ہے"۔
اگلی صبح کسان کی بیوی نے اس درخت کو کٹوا کر اس کی لکڑیاں بنوا لیں اور
ایک کچے کوٹھے میں اس کا ڈھیر لگا دیا۔ جب سردیاں شروع ہوئیں تو ایک رات
کسان کی بیوی لکڑیاں لینے کیلئے گئی۔ چند لمحوں بعد اس
کی تیز اور خوفناک چیخوں سے ساری حویلی گونج گئی۔ سب بھاگ کر گئے تو دیکھا
کہ اُسے لکڑیوں میں چھپےہوئے سانپ نے ڈس لیا تھا، اور وہ اپنی ٹانگ پکڑے
بُری طرح تڑپ رہی تھی۔
فوری طور پر گاؤں کے حکیم کو بلایا گیا جس کے فوری علاج سے عورت بچ تو گئی
لیکن اس پر کمزوری چھانے لگی۔ حکیم صاحب نے کہا کہ
"اسے دوائی کے ساتھ ساتھ مرغ کی گرم گرم یخنی پلائی جائے"۔ چنانچہ فوری طور
پر مُرغے کو ذبح کیا گیا اور وقفے وقفے سے اس کی یخنی کسان کی بیوی کو
پلائی جانے لگی لیکن زہر نے کمزوری سارے جسم میں پھیلادی تھی۔
اس پر حکیم صاحب نے کہا کہ "مریضہ کو بکرے کی یخنی پلائيں اور ساتھ گوشت
بھُون کر روزانہ کھلایا جائے"
چنانچہ بکری کو ذبح کیا گیا۔
جب کسان کے رشتہ داروں اور اس کے سسرال والوں تک اس کی بیوی کو سانپ کے
کاٹنے کی خبر پہنچی تو ان کے پاس تیمارداری کیلئے آئے ہوئے رشتہ داروں کی
تانتا بندھ گیا۔ ان مہمانوں کی خاطر تواضع کیلئے کسان کواپنی گائے ذبح کرنا
پڑی۔
آج ہماری پاکستانی قوم کا بھی کچھ ايسا ہی حال ہے۔ملک ہمارے اپنے ہی
کرتُوتَوں کی وجہ سے تباہی کی طرف تيزی سے گامزن ہے اور آئے روز کے افسوس
ناک واقعات میں کتنے ہی لوگ لقمہء اجل بن رہے ہیں۔ لیکن جسے ديکھو وہ صرف
اپنا دامن بچانے کی فکر ميں ہے۔ اجتماعی حب الوطنی کا مادہ دم توڑ چکا ہے۔
سب بھُول بيٹھے ہيں کہ "يہ مُلک سلامت رہے گا تو ہم بھی سلامت رہيں گے اور
يہ مُلک ترقی کرے گا تو ہماری تکاليف خودبخود دور ہوں گی" |
|